Main Menu

مذہب, جغرافیہ اور شناختی بحران

Spread the love

مذہب, جغرافیہ اور شناختی بحران

مذاہب کے بیشتر اعمال دراصل کسی محدود جغرافیے کے محتاج ہوتے ہیں۔ عرب, فلسطین و اسرائیل کے بے آب و گیا صحراؤں میں مردے کو جلانے کے لیے نہ لکڑیاں تھیں اور نہ لاش کو بہانے کے لیے دریا, نہ ہی ریت میں دھنستے پیروں کے ساتھ جنازے کو اٹھا کر دور تک لے جانا آسان تھا۔ گڑھا کھود کر دفنانا ہی بہتر رہا اور ابراہیمی مذاہب کا حصہ بن گیا۔
اسکے برعکس ہندوستان میں لکڑیوں اور دریاوں کی بہتات تھی اور زرعی زمین کے قیمتی ہونے کے سبب جلانا اور بہانا بہتر رہا اور محدود وسائل کا بہترین ثابت ہوا ورنہ آج آبادی کے سیلاب میں ڈوبے ہندوستان میں رہنے کی جگہ مزید تنگ ہوتی۔
ہندوستانی عورت عرب عورتوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ کام کرتی ہے, کھیتوں میں بیج بوائی, فصل کٹائی, کپاس چنائی, کنویں سے پانی بھرنا, بچوں کی دیکھ بھال, گھر کی صفائی اور کھانے پکانے سے لیکر شوہر کی جسمانی خدمت تک اس کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔ دن بھر ماں کیساتھ تپتی دھوپ میں کام کرنے والی نوجوان لڑکی کو شادی سے پہلے جلد کا tan اتارنے کے لیے ہلدی اور ابٹن لگائی جاتی ہے جسے مہندی کی رسم کہتے ہیں, گھر میں چند دن کا آرام دیا جاتا ہے جسے مایوں کی رسم کہتے ہیں۔ ساری زندگی خاندان کی کفالت کا بوجھ اٹھانے والے مرد کو ایک دن کا راجا بنا کر گھوڑے پر بٹھایا جاتا ہے, گو کہ پدرسری سماج میں کسی عورت کو بیاہ کر لانا۔ جیت کر لانے جیسا لگتا ہے جو کہ ایک الگ بحث ہے, یہاں بات جغرافیہ کی ہے۔
برصغیر کے مسلمانوں کو اپنی شناخت کا بحران نجانے کب پیدا ہوا اور یہ خود کو عرب, ترک اور فارسی سمجھ کر اپنی ہی تہذیب سے نفرت کرنے لگے, ہندی (Indian) اور ہندو الفاظ کو ایک ہی سمجھنے لگے, ہندی رسومات کو ہندووانہ رسومات کہہ کر دور کے ڈھول بجانے لگے۔ بکرے کے گوشت کی دوکانوں پر قریشیوں اور گائے کے گوشت کی دوکانوں پر شیخوں نے خود کو عرب کہنا شروع کردیا تو کہیں بخارہ, ترمذ, گیلان, جیلان, گردیز, تبریز, سرہند, مشہد اور سبزوار سے پنجاب,سندھ, کشمیر اور اتر پردیش میں ہجرت کرکے آباد ہونے والے افراد نے بھی خود کو سید, عرب و ہاشمی کہلوایا حالانکہ یہ تو علاقوں کے نام تھے, شجرے نہیں۔ صوفیوں کے چشتی و قادری سلسلوں کے لیے بھی خود کو سید کہلوانا آسان رہا۔ گجرات اور راجستھان میں ہندووں کی “شاہ” ذات کے لوگوں کے لیے بھی مسلمان ہونے کے بعد شاہ بننا مشکل نہیں تھا۔ ترک, افغان, ارغون اور منگول حملہ آوروں کے ساتھ بھی خود کو جوڑ کر لوگ ایسے ہی تفاخر کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ اس دھرتی کے مقامی لوگ نیچ اور غیر مہذب تھے اور انہوں نے آکر انہیں جینا سکھایا۔
مزیدار بات یہ ہیکہ خود کو عرب کہلانے کے شوقین افراد “ہاشمی” کہلانا زیادہ پسند کرتے ہیں, اموی نہیں, اسکے لیے وہ قریش کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ حالانکہ عرب سے براستہ ایران و افغانستان ہجرت کر کے آنے والے لوگوں نے پہلے کئی صدیاں وہیں گزاریں, وہاں کی زبان و ثقافت اپنائی, مقامی لوگوں میں شادیاں کیں, اپنے ڈی این اے کا تبادلہ کیا پھر ہند سندھ میں آکر آباد ہوئے یہاں آکر ایکبار پھر ہند و سندھ کے مقامی لوگوں سے اپنے ڈی این اے کا تبادلہ کیا۔ گذشتہ ہزار سال سے ہند, سندھ, پنجاب اور اتر پردیش میں رہنے والا مسلمان اگر اب بھی خود کو اس دھرتی کا بیٹا نہیں سمجھتا اور اپنی جنم بھومی سے نفرت کرتا ہے تو اسے چاہیے کہ اپنا جینیٹک ٹیسٹ کروائے تاکہ اسکی غلط فہمی دور ہوسکے۔ انٹرنیٹ پر کئی ویب سائٹس ہیں جو بہت معقول معاوضے میں جینیاتی, آبائی و نسلی ٹیسٹنگ کر کے آپکے اجداد کی ہجرتی تاریخی اور ممکنہ بیماریاں تک بتا سکتے ہیں۔ اس معلومات کو استعمال کر کے آپ اپنی Genetic lineage بہتر بنا سکتے ہیں۔
چلی سے لیکر سائبیریا تک اور پپوا نیو گنی سے لیکر الاسکا کے آخری کونے تک تک بنی نوع انسان ایک ذات ہے۔ رنگ و نسل کا تنوع زندگی کا حسن ہے۔ کائنات کے دیگر جاندار مختلف رنگوں کے باوجود مل جل کر رہتے ہیں تو انسان کیوں نہیں؟






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *