Main Menu

جموں و کشمیر میں ڈوگرہ اصلاحات۔ قسط 1تحقیق: افتخار راجپوت ڈوگرہ

Spread the love

meبلاشبہ ریاست جموں و کشمیر اقصائے تبت ہا کی تشکیل کا سہرا جموں کے راجہ گلاب سنگھ کو جاتا ہے جس کا تعلق جموں کے صدیوں سے حکمران جموال خاندان سے تھا۔ 1808ء میں پنجاب کی سکھ سلطنت نے اسی کے خاندان کے راجہ جیت سنگھ کو شکست دے کر ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیر قبضہ ہندوستان میں جلاوطن کر دیا جموں کے اقتدار سے اس کے خاندان کی بیدخلی کے بعد راجہ گلاب سنگھ کا سفر 1809ء میں سکھ فوج میں ملازمت سے شروع ہوا اپنی خداداد صلاحیتوں کے باعث نہ صرف مختصر وقت میں ترقی کی بلکہ نام پیدا کیا۔ گلاب سنگھ کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے میاں دیدو کی بغاوت و سکھوں کی نااہلی کے باعث جموں میں امن و امان کی صورتحال رفتہ رفتہ دگرگوں ہوتی گئی اور بالآخر 1820ء میں سرزمین جموں جس پر قبضہ کے بعد مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنے بیٹے کھڑک سنگھ کو یہ جاگیر عطا کر دی تھی واپس بطور جاگیر جموال خاندان کے راجہ کشور سنگھ کے حوالے کر دیا گیا جو گلاب سنگھ کا باپ تھا۔ راجہ کشور سنگھ نے جموں کو ڈوگر راج کا نام دیا جو اس خطے کا قدیم نام تھا 1822ء میں اس کی موت کے بعد گلاب سنگھ جموں کا راجہ بنا اور ساتھ ہی وہ سکھ فوج کے سپہ سالار کے عہدے پر بھی براجمان رہا۔

1839ء مہاراجہ رنجیت سنگھ کی موت کے بعد پنجاب خالصہ سرکار میں اقتدار کی رسہ کشی شروع ہوئی جو نہ صرف رنجیت سنگھ کے خاندان کی تباہی کا باعث بنی بلکہ اس میں گلاب سنگھ کے دو بھائی دھیان سنگھ، سوچیت سنگھ، بھتیجا ہیرا سنگھ اور دو بیٹے سکھوں کے مختلف گروہوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے مارے گئے۔ گلاب سنگھ اس سارے عرصے میں جموں پر اپنے اقتدار کو استحکام دینے اور سرحدیں بڑھانے میں مصروف رہا اسی دور میں لداخ، بلتستان پر اس کا جنرل زورآور سنگھ قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا جو کہ تبت کا حصہ تھا۔ آئے روز اقتدار کی چپقلش سے سکھ فوج میں بے چینی پھیلی تو ساڑھے سات سالہ مہاراجہ دولیپ سنگھ کی ماں رانی جندان نے فوج کو ایسٹ انڈیا کمپنی سے 1809ء کے امرتسر امن معاہدے کے باوجود لڑا دیا سکھوں کو شکست ہوئی اور انگریز بڑے علاقے پر قابض ہو کر لاہور داخل ہو گئے چنانچہ 9 مارچ 1846ء کو معاہدہ لاہور ہوا جس میں بہت ساری شرائط کے علاوہ سکھوں کو ڈیڑھ کروڑ روپے تاوان جنگ عائد ہوا۔ پنجاب دربار نے پچاس لاکھ نقد اور ایک کروڑ کے عوض کشمیر وادی اور ہزارہ مستقل بنیادوں پر انگریز کے حوالے کر دئیے اسی معاہدے میں گلاب سنگھ نے سکھوں اور انگریزوں سے اپنی ریاست جموں، لداخ و علاقہ جات تسلیم کروا لی۔

راجہ گلاب سنگھ نے اس معاہدہ لاہور کے چھ دن بعد ایسٹ انڈیا کمپنی سے امرتسر کے مقام پر 16 مارچ 1846ء کو نیا معاہدہ دستخط کیا جس کی رو پچھتر لاکھ نانک شاہی کے عوض کشمیر وادی اور ہزارہ کو گلاب سنگھ نے پہلی اینگلو سکھ جنگ کا تاوان جنگ ادا کر کے ایسٹ انڈیا کمپنی کے قبضے میں جانے سے بچا کر اپنی ریاست جموں و علاقہ جات میں شامل کر کے نئے ریاستی جغرافیے کی بنیاد رکھی اور اس خطے کے باشندوں کو منفرد شناخت دی ورنہ کشمیر وادی ہندوستان یا پاکستان کا حصہ ہوتی اور یہاں کے باشندوں کی الگ قومی شناخت نہ ہوتی معاہدہ امرتسر کے بعد سکھوں نے دھوکہ کرتے ہوئے کشمیر وادی میں اپنے گورنر شیخ امام الدین کو قبضہ نہ دینے پر اکسایا جس کا فیصلہ جنگ کی صورت ہوا اور گلاب سنگھ کو کامیابی حاصل ہوئی 9 نومبر 1846ء کو اس نے کشمیر وادی کا اقتدار بھی حاصل کر لیا البتہ اسے وادی اپر جہلم میں کھکھہ جنجوعہ راجپوتوں اور بمبہ قبیلے کی شدید مزاحمت کا سامنا رہا لیکن اس نے قوت اور حکمت عملی کے زور پر امرتسر معاہدے کی تکمیل کر دی بعدازاں ریاست میں گلگت کے کچھ علاقہ جات بھی بزور قوت شامل کر دئیے۔

مہاراجہ گلاب سنگھ کا زیادہ تر وقت اپنی جغرافیائی حدود کو وسعت دینے میں گزرا 1848ء میں جب مہاراجہ نے پوری طرح ریاست پر گرفت قائم کی تو اسے بہت سارے مسائل کا سامنا تھا جس میں انتظامی معاملات تھے جنھیں درست کرنے کے لیے حب الوطنی، انتظامی صلاحیت، دوراندیشی اور غیر متعصب ذہن کی ضرورت تھی۔ اس نے نظام میں کچھ تبدیلیاں تو کیں لیکن مجموعی طور پر سکھ سلطنت کے قوانین ہی نافذ رہے۔ بدقسمتی سے مہاراجہ گلاب سنگھ تاریخ میں نمایاں مقام رکھنے کے باوجود عوام میں اپنی سخت گیر پالیسیوں کے باعث مقبول حکمران نہ بن سکا وہ بہترین جرنیل، بہترین منتظم ہونے کے باوجود اپنے مختصر اقتدار، غیر تعلیم یافتہ ہونے اور عملے کی بدعنوانی کے باعث اپنی اولاد کی نسبت اوسط درجے کا اصلاحات کار ثابت ہوا اسے بہت سارے فیصلے عوامی شکایات پر واپس بھی لینا پڑے۔ اصلاحات کے اعتبار سے ریاست کا سنہری دور مہاراجہ پرتاب سنگھ کے دور سے شروع ہوا جسے یورپ کے تعلیم یافتہ مہاراجہ ہری سنگھ نے عروج پر پہنچایا برصغیر میں سب سے زیادہ اصلاحات ڈوگرہ حکمرانوں نے کیں۔

عہد گلاب سنگھ 1846ء تا 1857ء کی اصلاحات!

سرحدی حد بندی و تبادلہ۔

معاہدہ امرتسر کے تحت ریاست میں شامل ہونے والے ہزارہ میں آئے روز کی بغاوتوں کے باعث لاہور دربار کے ساتھ تبادلہ کر کے گلاب سنگھ نے سوچیت گڑھ، کٹھوعہ، میناور کے علاقے لیے جو آج بھی ریاست کا حصہ ہیں۔ 1847ء میں الیگزینڈر کونیگم، ہنری سٹراکی اور ڈاکٹر تھامسن کی مدد سے لداخ اور تبت کے درمیان حد بندی قائم کر کے ریاست کی موجودہ سرحدوں کو حتمی شکل دی گئی.

نظام حکومت۔

سکھ سلطنت کے گورنروں کی طرف سے نظام کو پہنچنے والے نقصان کا جائزہ لینے کے بعد مہاراجہ گلاب سنگھ نے انتظامی معاملات کو چلانے کے لیے وزراء کی کونسل قائم کی۔ 1852ء میں ڈوگرہ سلطنت کو جموں، کشمیر، لداخ اور سرحدی علاقوں سمیت کئی صوبوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ جموں اور کشمیر کے دو صوبوں کو وزیروں کے کنٹرول میں رکھا گیا تھا جن کی حیثیت صوبائی گورنروں کی تھی صوبائی گورنر مہاراجہ کی عدالت میں شرکت کرتے تھے جموں اور کشمیر کے دو صوبوں کو کئی اضلاع میں تقسیم کیا گیا۔ تمام انتظامی، مالی، داخلہ اور خارجہ امور اس کی نظر ثانی کے لیے پیش کیے جاتے تھے۔ وہ مالی امور پر گرفت سخت اور انتظامی امور پر نگاہ گہری رکھتا تھا۔

انتظامیہ۔

ہر ضلع کا ذمہ دار ضلع دار ہوتا تھا جبکہ تھانیدار چیف افسر جس کے نیچے چالیس سے پچاس سپاہی ہوتے تھے امن امان قائم کرنے کہ علاوہ فصل کی صورتحال سے تحصیلدار کو آگاہ کرتا تھا تحصیلدار کے پاس دو سے پانچ تحصیلیں ہوتی تھیں دو سے چار سو سپاہی اس کے ماتحت ہوتے تھے اسے جرائم میں سزا دینے کا اختیار حاصل تھا۔ قانون گو یا مال افسر امن و امان کو یقینی بنانے کے علاوہ ٹیکس جمع کرتا تھا۔ ہر گاؤں میں نمبردار تعینات کیے گئے۔

عدالت۔

عہد گلاب سنگھ میں نظام انصاف کو سب سے زیادہ اولیت حاصل رہی عدالت کی صدارت مہاراجہ خود کرتا تھا تمام فیصلے دربار لگا کر کیے جاتے تھے تمام مذاہب کے روحانی پیشواؤں اور سادات کے کیس مہاراجہ خود سنتا تھا تاکہ ان کی داد رسی میں کسی قسم کی کوتاہی نہ ہو انصاف فوری سستا اور تیز تھا مہاراجہ فورا معاملات کی تہہ میں پہنچتا اور فیصلے کر دیتا تھا۔

حسابات۔

مہاراجہ نے ریاست کے تمام محکمہ جات کے آمدن و اخراجات کا حساب رکھنے کے لیے دفتر دیوانی قائم کیا۔

نظامت۔

دفتر نظامت کے ذمہ ساری ریاست کی تمام زمینوں کا ریکارڈ رکھنا مہاراجہ کو زمینداروں اور فصل کی صورتحال سے باخبر رکھنا تھا۔ پٹواری مختلف گاوں میں جا کر روزمرہ کی بنیاد پر رپورٹ تیار کرتے تھے۔

قانون و امن۔

محکمہ ریاست میں اندرونی استحکام اور جرائم کا مکمل صفایا کرنے کے لیے قائم کیا گیا اس کی سخت سزاؤں کے باعث جرائم مکمل ختم ہو گئے۔ کسی کی زمین و جائیداد پر قبضہ قابل قید جرم قرار دیا گیا۔ تھانیداروں کو جان و جائیداد کے تحفظ کے لیے تمام ضروریات سے لیس کیا گیا۔ عہد گلاب سنگھ میں قانون کی حکمرانی سے تاریخ کا کوئی مورخ نظر نہیں چرا سکتا معاشرے میں سو فیصد امن و امان قائم کرنا عام آدمی کی جان و مال کو محفوظ بنانا گلاب سنگھ کا بڑا کارنامہ تھا۔

خزانہ۔

محکمہ خزانہ کی نگرانی ایک دیوان کرتا تھا۔ دوسرا دیوان مہاراجہ کے گھریلو نظام اور توش خانہ کو سنبھالتا تھا۔ جب کے ایک اور دیوان اطلاعات کا محکمہ سنبھالتا تھا

ترقیات۔

زمینوں کے نظام کو بہتر کرنے کے لیے ترقیات کا محکمہ بنایا۔ اس کا مقصد غیر آباد زمینوں کو استعمال میں لانا تھا بہت سارے ضرورت مند پنڈتوں کو مستفید کرنے کے لیے زمینیں عطا کی گئیں بہت سارے پنڈتوں کے پاس بہترین زمینیں تھیں مگر وہ کم ادائیگی کرتے تھے یہ آمدنی میں خواہ خاطر اضافے کا باعث نہ بن سکا اور بعد میں اسے ختم کر کے تمام اختیارات تحصیلداروں کو منتقل کر دئیے گئے۔

اناج و پیداور۔

تمام نمایاں پیداوار پر مہاراجہ کو مکمل اختیار حاصل تھا جس میں لوہے کی مصنوعات زعفران گندم شال سازی شامل تھی۔ زعفران سرکاری سرپرستی میں کاشت کیا جاتا تھا اور تھانیدار اس کی دیکھ بھال کرتا تھا جبکہ سپاہیوں کے ذریعے فصل کٹوائی جاتی تھی۔ مہاراجہ خود اضلاع کے دورے کرتا تھا اور اس نے کاٹن، سلک، زعفران، تمباکو، افیم کی پیداوار میں دلچسپی لی اور پیداوار میں اضافے کے لیے اقدامات کیے۔ تمام پیداوار کو ذخیرہ کیا جاتا تھا۔ گندم کو آمدنی کی ادائیگی کے طور استعمال کیا جاتا تھا اور جب تک حکومتی ذخیرہ مکمل ختم نہ ہو باہر سے گندم کی خریداری پر پابندی تھی۔ خلاف ورزی کو روکنے کے لیے اناج ڈیلرز کو تھوڑی تعداد میں فروخت کیا جاتا تھا کشمیر میں ایک روپیہ مالیت سے زائد گندم حاصل کرنا قطعی ناممکن تھا۔ ایک بار چھ سیر سے زائد اناج حاصل نہیں کیا سکتا تھا جس کی وجہ سے ایک ماہ کے لئے گندم خریدنے کے عادی متوسط طبقے کو مشکلات کا سامنا تھا۔ چاول کی فصل پر بھی لوگوں کو گھر میں افراد کے تناسب سے صرف پندرہ دن کا اناج لینے کی اجازت تھی۔ گلاب سنگھ کا نظام انیسویں صدی تک تبدیلیوں کے ساتھ رائج رہا ہر کشمیری کو مقررہ راشن لینے کی اجازت تھی ضرورت سے زیادہ خریدنے کے لیے سرکاری گودام کے ذمہ دار سے اجازت حاصل کی جاتی تھی۔ اشیاء کی قیمتیں مقرر کی گئیں۔ مہاراجہ نے تمام آڑھت کے بیوپار کو اپنے قبضے میں لیا اور اناج سرکاری اہلکاروں کے ذریعے فروخت کیا جاتا تھا۔ اشیاء کی طلب میں اضافہ ہوا اور کپاس اور دیگر اشیاء کی قیمت بھی بڑھی لوگوں کو اناج کے بدلے اشیاء کی خرید و فروخت کی اجازت تھی جس کی قیمت ایک روپے سے زیادہ نہ ہو۔

جاگیروں میں اصلاحات۔

زراعت ریاستی آمدنی کا بڑا ذریعہ تھی اسی سے لوگوں کا نظام زندگی چلتا تھا۔ ریاست کی زمین کا بڑا حصہ جاگیرداروں کے پاس تھا چونکہ سکھوں نے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے کشمیر کے اندر زمین بڑے پیمانے پر جاگیرداروں کو الاٹ کی۔ جو زمین جاگیرداروں کے پاس نہ تھی وہ لوگوں کے پاس کرائے پر تھی جس کا وہ آمدنی کے حساب سے کرایہ جمع کرواتے تھے۔ ایک اعداد و شمار ریاست میں تین ہزار ایک سو پندرہ جاگیردار تھے جن کو رجسٹرڈ کیا گیا۔ تمام غیر رجسٹرڈ جاگیروں کو ضبط کیا گیا ریاست کی زمین راجہ کی ملکیت قرار دے دی گئی اور تمام باشندے کرائےدار۔ کشمیر کے لوگوں کو پہلی بار ان زمینوں سے محروم ہونا پڑا جن سے وہ افغان و سکھ دور اقتدار سے مستفید ہو رہے تھے۔ بغاوت اور گھاس نہ کاٹنے کی سزا جاگیر کا خاتمہ رکھی گئی۔ کرائے پر حاصل شدہ زمین یا الاٹ شدہ جاگیر سے زائد زمین پر تجاوز منع تھا۔ مہاراجہ نے تمام فارسی، عربی اور سنسکرت پر عبور رکھنے والے علماء کو مفت زمینیں تقسیم کیں تاکہ ان کی زندگی عزت سے گزرے اس کے نزدیک ایسے لوگوں کا ریاست میں ہونا باعث عزت تھا۔

صنعتی اصلاحات۔

کشمیر میں شال سازی کی صنعت بہت اہم تھی ایک سرکاری محکمہ اس کو کنٹرول کرتا تھا گلاب سنگھ نے اسے دوبارہ منظم کیا۔ جس میں ایک کنٹرولر کے نیچے کارخانے دار ہوتے تھے اور وہ شال بنانے والوں کو کنٹرول کرتے تھے۔ گلاب سنگھ نے شال سازی پر بھاری ٹیکس عائد کیے اس کے دور میں ستائس ہزار شال ساز تھے جو گیارہ ہزار لومز میں کام کرتے تھے جب انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تو بہت سارے لاہور چلے گئے۔ تمام جانے والوں کو واپسی کی دعوت دی گئی1847ء میں مہاراجہ نے کھلے دربار میں ان کا کیس سنا اور شال سازی پر نیا قانون و محکمہ بنایا گیا۔ ٹیکس کا نیا نظام وضع کیا گیا۔

بیگار میں اصلاحات۔

سرکاری امور کی انجام دہی میں اسے احساس ہوا کہ سکھ دور سلطنت سے رائج بیگار کے نظام میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ سکھ سلطنت کے دور میں بیگار کی تقسیم کا کوئی قاعدہ نہ تھا نہ ہی بیگار کاٹنے والوں کو ادائیگی کی جاتی تھی۔ گلاب سنگھ نے اس میں اصلاحات کیں ایک افسر تعینات کیا۔ سرکار کی طرف سے یہ حکم دیا گیاکہ جس دن کوئی کام کرے اسے دو وقت کا کھانا سرکار کی طرف سے دیا جائے اور اناج سرکاری خزانے سے۔ بیگار گلگت و بلتستان میں راشن و سامان لے جانے اور غیر ملکی سیاحوں کی وادی میں نقل و حرکت کے دوران ان کا سامان لے جانے کے لیے کٹوائی جاتی تھی۔

فوجی اصلاحات۔

فوج براہ راست مہاراجہ کے ماتحت تھی اس کی تربیت، معاملات کی دیکھ بھال ہمیشہ مہاراجہ کی ترجیع رہی۔ فوجیوں کی تعداد پچاس ہزار کے قریب تھی۔ وہ مستقل بنیادوں پر فوج اس کے ہتھیاروں اور ان کی رہائش کا معائنہ کرتا تھا کسی بھی فوجی کی بیماری کی صورت میں اسے خبر دی جاتی اور اس کا فوری مفت علاج ہوتا۔ غیر ملکی حملوں کے خلاف پائیدار عمارتیں بنائی گئیں اور ان میں فوج تعینات کی گئی۔ ڈوگرہ فوج کے لیے رولز وضح کیے گئے۔

تاریخی کامیابیوں بہت سارے بہترین اور کچھ غیر مقبول فیصلوں کے بعد گلاب سنگھ کا اقتدار 1857ء میں اس کی موت کے ساتھ ڈوب گیا۔ مہاراجہ گلاب سنگھ کا دور حکومت آج کے دور سے بے شک مختلف سہی لیکن اس میں ہر انسان کو مہاراجہ تک رسائی حاصل تھی انصاف سستا فوری تھا ایک روپیہ فیس کے عوض ہر معاملہ اس کی عدالت میں پیش کیا جاتا تھا گو کے انگریزوں نے اس کے طریقہ انصاف پر نکتہ چینی کی لیکن آج کے عدالتی نظام کی فیسوں کی نسبت وہ آسان ترین نظام انصاف تھا جس میں ہر مالیت کا دعوی دائر ہوتا تھا فیصلہ فوری اور قطعی ہوتا تھا جبکہ اس کی تشکیل کردہ موجودہ منقسم ریاست کے ہر حصے میں آج نہ صرف قانون رلتا ہے بلکہ انصاف بکتا ہے حصول انصاف کے لیے عدالتوں کے چکر لگاتے ہوئے لوگوں کی زندگیوں کے چراغ گل ہو جاتے ہیں شاید ہی کوئی شعبہ زندگی ہو جس میں اہلیت و معیار قائم ہو، شاید ہی کوئی شعبہ زندگی ہو جس میں آج رشوت و سفارش کا عمل دخل نہ ہو لیکن اس کے باوجود ہماری کتابوں میں صرف گلاب سنگھ کا نظام خراب تھا اور وہ ظالم تھا جبکہ اس کے اقتدار کے پونے دو سو سال بعد بھی ہمارے ہاں کا نظام سرکار اس کے نظام حکومت سے قطعی بہتر نہیں معیاری نہیں حالانکہ وسائل و ایجادات کے اعتبار سے وہ آج کی نسبت مشکل دور تھا۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کے مہارجہ گلاب سنگھ مزاج کے اعتبار سے سخت لیکن کردار کے اعتبار سے برصغیر کا ایک بہترین حکمران تھا جس کا کوئی حرم نہ تھا کوئی لونڈی نہ تھی کسی عورت کی عزت نہ لٹی کسی مذہب کے مذہبی عقائد کی ادائیگی پر پابندی نہ لگی یہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے کے سرینگر شہر میں داخلے کے بعد مہاراجہ گلاب سنگھ نے بند جامعہ مسجد کھلوائی اور اس کی صفائی میں خود حصہ لیا۔ اسی طرح خانقاہوں و زیارتوں کے لیے زمینیں دی گئی سادات کو ذیلدار کی عدالت میں پیشی سے استثناء دیا۔ ریاست میں مسلمانوں کے علماء کو وظائف ملے۔ اس کی موت کے بعد اس کا بیٹا مہاراجہ رنبیر سنگھ گدی پر بیٹھا۔ (جاری ہے)






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *