Main Menu

کورونا: آخر کیا کیا جائے؟ اعجاز منگی

Spread the love


جس طرح انقلابی استاد کارل مارکس نے لکھا تھا کہ ”دنیا پر کمیونزم کا بھوت منڈلا رہا ہے“ ٹھیک اسی طرح آج کل پوری دنیا پر کورونا وائرس کا خوف بھوت بن کر منڈلاتا ہوا نہ صرف محسوس ہو رہا ہے بلکہ دیکھا بھی جا سکتا ہے۔کورونا وائرس نے ایک طرف دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور دوسری طرف اس وبا نے سرمائے دارانہ نظام میں موجود تضادات اور کمزوریوں کو افشاں کردیا ہے۔ دنیا بھر کے لوگوں کو یہ بات شدت سے محسوس ہو رہی ہے کہ سرمائیداروں نے سائنسدانوں کو صرف مارکیٹ میں لوٹ مچانے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس نظام کے پاس انسان ذات کے تحفظ اور فلاح کے لیے کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس وقت امیر ممالک اپنے بوسیدہ اور گلے سڑے نظام کی ناکامیوں کی پردہ پوشی کر رہے ہیں۔ جب کہ غریب ممالک بیک وقت غربت؛ بھوک؛ بے روزگاری اورکرونا وائرس سے ایک ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں۔ دنیا کے امیر اور سرمائے دار ممالک ایک دو ماہ کا لاک ڈاؤن کو برداشت کر سکتے ہیں مگر پاکستان جیسے غریب ممالک عملی طور پر چند دنوں کے لاک ڈاؤں کے متمحل نہیں ہیں۔ اس وبا میں روحانی ٹوٹکے اپنی شکست تسلیم کر چکے ہیں اور حکمران اس خوف میں مبتلا ہیں کہ کہیں کورونا وائرس کی وجہ سے عوام بغاوت کا راستہ نہ اپنالیں۔ اس لیے پورا نظام دہشت کے سائے تلے سانس لینے کے لیے مجبور ہے۔
ان حالات میں غیر سرکاری اور حقیقی اور عوام دوست سیاسی جماعتوں اور ان کے کارکنان کا فرض بڑھ جاتا ہے کہ وہ پورے معاشرے کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کورونا کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک طرف امیر اور مراعت یافتہ طبقات لاک ڈاؤن اور اس سے آگے کرفیو نافذ کرنے پر اصرار کر رہے ہیں۔ جب کہ خوف میں مبتلا حکومت عوام کو ایک دوسرے سے دور رہنے کے احکامات جاری کر رہی ہے۔ ان خطرناک اور پریشان کن حالات میں حکومت عوام کو معاشی رلیف تو کیا عام لوگوں کو صابن اور کاغذی ماسک فراہم کرنے میں بھی ناکام رہی ہے۔ کورونا میں احتیاط لازم ہے۔ مگر غربت اور مجبوری احتیاط کے تقاضے پورے کرنے سے قاصر ہے۔ہمارے حکمران طبقات نے عوام کو اس دو راہے پر آکر کھڑا کردیا ہے کہ وہ کس وائرس سے مرنا پسند کریں گے؟ کورونا وائرس سے یا بھوک کے وائرس سے؟ان حالات میں اصلاح پسند اور غریب لوگوں کو راشن کے پہنچانے پر زیادہ سے زیادہ زور دے رہے ہیں۔مگر اس گلے سڑے نظام پر حکمرانی کرنے والے حکمران اس حقیقت سے اچھی طرح آگاہ ہیں کہ جو نظام کرپشن پر بنیاد رکھتا ہے وہ نظام سماجی خدمت کی راہ میں بھی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ حکومت نے عوام کی مدد کرنے سے عملی طور پر ہاتھ اٹھا لیے ہیں اور جو مخیر حضرات اپنے ذاتی مال و دولت سے عوام کی مدد کرنے کے خواہاں ہیں؛ وہ بھی ڈر رہے ہیں کہ ان کی امداد مستحق افراد تک پہنچ پائے گی یا نہیں؟ ایسے حالات میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا کیا جائے؟
ہم یہ بارہا دیکھ چکے ہیں کہ جب بھی کوئی قدرتی آفات زلزلہ یا وبا کی صورت میں نمودار ہوتی ہے تب معاشرے میں سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے خودساختہ ہیروز سر اٹھانا شروع کردیتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ حکومت اور مخیر حضرات اور عوام کے درمیاں ایک طرح کی پل کا کردار ادا کرنے کی کوشش کریں۔ جب کہ ہم اور آپ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ان جعلی ہیروز سے کے کندھے پورے معاشرے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ مگر وہ اپنی کوششوں سے اس ناکام ریاستی نظام کو بچانے کے لیے سیفٹی والز کا کردار ادا کررہے ہیں۔ اس صورتحال میں معاشرے کی حقیقی قوت یعنی اصل عوام دوست سیاسی جماعتوں کے کارکنان کا کردار اہم ہو جاتا ہے کہ وہ ایک طرف غریب عوام کا ساتھ دیں اور انہیں کورونا کی وبا سے محفوظ رکھنے کے سلسلے میں مدد فراہم کریں اور دوسری طرف عوام کو سمجھائیں کہ ان کے درد کا حقیقی درمان کیا ہے؟
حقیقی اور سچے اچھے عوام دوست سیاسی کارکنان اپنی حفاظت کا بندوبست کرنے یعنی کورونا سے بچنے کی احتیاط بروئے کار لاتے ہوئے غریب عوام سے رابطے میں آئیں۔ ان کے حالات کا گہرائی سے مشاہدہ کریں۔ انہیں محبت اور اپنائیت ے سمجھائیں کہ ان کے ان حالات کا ذمہ دار کون ہیں۔ عوام کو محض نام نہاد امداد تک محدود رکھنے کے بجائے سیاسی کارکنان ان کی دلجوئی کریں اور ان کے ذہن سیاسی شعور سے منور کریں۔ اس وقت سیاسی کارکنان کا فرض ہے وہ نہ صرف عوام کو حوصلہ دیں بلکہ انہیں منظم اور متحد کریں۔ ان کے حالات کو سمجھیں اور انہیں سمجھائیں کہ وہ ان حالات سے مقابلہ کرکے کس طرح کامیاب ہوسکتے ہیں؟سیاسی کارکنان کا فرض ہے کہ وہ حالات کے دوراں عوام کا حوصلہ پست نہ ہونے دیں اور ان کی کاؤنسلنگ کریں۔ ان کو ان کی غربت کے اسباب بتائیں اور انہیں سمجھائیں کہ ان کے ذاتی حالات تب تک بہتر نہیں ہوسکتے جب معاشرے کے حالات درست نہ ہوں۔
کورونا وائرس کے لاک ڈاؤن میں سیاسی کارکنان آزاد ہیں کہ عوام کو خطرات سے مطلع کریں اور ان کی سیاسی تعلیم اور تربیت کریں تاکہ ہم ایک مضبوط اور محفوظ معاشرے کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہو پائیں۔ اس وقت کی سچائی یہ ہے کہ حکمران عوام سے خوف زدہ ہے۔ وہ ان سے فاصلہ رکھنے پر مجبور ہیں اور ہم مکمل طور پر آزاد ہیں کہ عوام سے رابطہ رکھیں اور ان کے حقوق دلانے کے لیے سرگرم ہوجائیں۔
عوام کی فتح کے لیے
ایک نئی صبح کے لیے
عظیم انقلاب کے لیے!!
ساتھیو! آگے آؤ
ہم سب کو کھونے کے لیے کورونا اور غربت کا وائرس ہے
اور پانے کیے ایک ایسا معاشرہ جس لیے سندھی زبان کے خوبصورت شاعر نے لکھاہے:
”صاف پانی کھلی ہوا دیدو
اور بیمار کی دوا دیدو
بچیوں کے لیے کتاب چاہتے ہیں
اک نیا انقلاب چاہتے ہیں“






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *