ويلفيئر تنظيموں کا رحجان ، رياست اور ہماری ذمہ دارياں؛ تحرير: رضوان اشرف
ويلفيئر تنظيموں کا تصور انتہائ صحت مند ہے چونکہ ويلفيئر تنظيميں حکومت اور سماج کا بوجھ بانٹ ليتی ہيں جسکی وجہ سے سماج کے پسے ہوۓ افراد کی کمر پہ لدے بوجھ ميں کسی قدر کمی آ جاتی ہے۔ مگر ويلفيئر کو فيشن کے طور پر لينے والے احباب کی نذر چند گزارشات کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ رياست کا بنيادی فرض ہے کہ وہ اپنے شہريوں کو بنيادی انسانی ضروریات مہيا کرے۔ رياست چونکہ تمام ادارے رکھتی ہے اور عوام اپنی جيبوں سے ٹيکس ادا کر کے رياست کو اس قابل بناتے ہيں کہ وہ عوامی فلاح کے لئے کام کرے۔ ويلفيئر تنظيميں جہاں انتہائ اچھا کردار ادا کرتی ہيں وہاں تصوير کا دوسرا رُخ بھی ہميں ديکھنے کی اشد ضرورت ہے۔
مثال کے طور پر “زراعت” جو کہ رياست کا ايک ادارہ ہے جس کے ہر گاؤں، وارڈ، يونين کونسل، تحصيل اور ضلع ميں ملازمين موجود ہيں سيکرٹريز، ڈائريکٹرز اور وزير موجود ہيں۔ اس ادارے کا سالانہ اربوں روپے کا بجٹ ہے۔ اب اس مکمل ادارے کے ہوتے ہوۓ ايک ويلفيئر تنظيم زراعت ميں عوام کی بہتری کرنا چاہتی ہے تو وہ کيا کر سکتی ہے؟ وہ ويلفيئر تنظيم زيادہ سے زيادہ کسی ايک گاؤں ، تحصيل يا ضلع ميں لوگوں کو زراعت کے جديد طريقوں کو سمجھنے ميں معاونت کر سکتی ہے، آگاہی مہم چلا سکتی ہے، سيمينار و کانفرنسز کروا سکتی ہے، کاشت کاری کے معاون اصول و طريقے بتا سکتی ہے، زيادہ سے زيادہ چھوٹے پيمانے پر ادويات ، کھاد اور بيج مفت دے سکتی ہے۔ اس سے زيادہ ويلفيئر تنظيم کيا کر سکتی ہے؟ ظاہر ہے اس سے زيادہ ايک ويلفيئر تنظيم کچھ نہيں کر سکتی۔ يہاں اُسکا کام کسی مخصوص علاقے ميں حکومت کی معاونت سے بہتر نتائج دينا تھا۔ مگر کيا اگر محکمہ زراعت کا کردار صفر ہو تو بھی ويلفيئر تنظيم کسی طور کی کوئ بہتری لا سکتی ہے؟ بالکل نہيں!
ويلفيئر تنظيم مذکورہ ادارے کی معاونت کر کے کسی علاقے ميں بہتر نتائج دے سکتی ہے مگر اسکے لئے اُس ادارے کا فنگشنل ہونا، عمل ميں ہونا انتہائ ضروری ہے۔
ہمارے ہاں اب ايک فيشن چل نکلا ہے کہ ہر محلے و گاؤں کی ويلفيئر تنظيميں بنا کر اُن سے وہ سارے کام لئے جا رہے ہيں جسکے لئے رياست اور اُسکے ادارے موجود ہيں۔ يعنی اب ہم سڑکيں بھی ويلفيئر تنظيميں بنا کر نکالتے ہيں، پانی بھی ويلفيئر کے ذمے، ڈسپنسری اور ايمبولينس بھی ويلفيئر کے ذمے۔ سوال يہ ہے کہ پھر رياست کی کيا ضرورت ہے ؟ کيوں نہ ہم بڑی سی ويلفيئر تنظيم بنا کر رياست چلانا شروع کر ديں؟ جب ٹرانسفارمر بھی ويلفيئر لاۓ، پائپ و پانی بھی، دوائ و ايمبولينس بھی، سڑک و راستہ بھی ويلفيئر کی ذمہ داری تو پھر ہم حکومت کے اتنے سارے اداروں ، وزيروں مشيروں کی فوج پہ اتنا پيسہ کيوں خرچ کر رہے ہيں؟ پھر ان اداروں و رياست کی ضرورت ہی کيا ہے؟ پھر تو ہميں رياست اور اسکے اداروں کو ہٹا کر ايک رياست گير ويلفيئر تنظيم بنا کر رياستی امور سنبھال لينے چاہيں۔
گزارش يہ ہے کہ جب رياست اور اُسکے ادارے موجود ہيں، ملازمين موجود ہيں، بجٹ موجود ہے تو ہم متعلقہ محکمے سے کام (جو کہ اُسکی ذمہ داری ميں شامل ہے) لينے کی بجاۓ وہی کام ويلفيئر تنظيم بنا کر کرينگے تو اُس ادارے کی کام چوری و کاہرپن کو طوالت نہيں دينگے ؟ کيا ہم ايسا کر کے اُس ادارے کی غير ذمہ داری اور عياشی کو کندھا نہيں دے رہے؟
کيوں نہ ہم ايسی ويلفیئر تنظيم بنائيں جو چندہ اکٹھا کر سڑک بنانے کی بجاۓ محکمہ شاہرات کا پيچھا کرے کہ وہ اُس علاقے ميں سڑک مہيا کرے؟ کيوں نہ ہم پيسے اکٹھے کر کے ڈسپنسری بنانے کی بجاۓ ويلفيئر تنظيم بنا کر محکمہ صحت کی عقل ٹھکانے لائيں؟ چندہ اکٹھا کر کے محض کسی مخصوص علاقے ميں کام کيا جا سکتا ہے۔ ويلفيئر تنظيم بنا کر اداروں کا پيچھا کر کے اُن سے وہ سب کام کروانا جسکے لئے اُنہيں تنخواہ ملتی ہے تو نہ صرف ہمارے مخصوص علاقے کا بھلا ہو گا بلکہ وہی محکمہ پورے آزادکشمير ميں چاک و چوبند ہو گا جس سے نہ صرف ہمارے علاقے کو بلکہ پورے خطے کی عوام کو فاہدہ ہو گا۔
اس لئے دانشمندی يہی ہے کہ صرف اپنا چھوٹا فائدہ سوچ کر نہ تو اداروں کو نکما بنايا جاۓ اور نہ ہی اُنکی عياشيوں کی پردہ پوشی کر کے اداروں کو حرام خور بنايا جاۓ ۔ بلکہ ويلفيئر تنظيم اُن کاموں کے لئے بنائ جاۓ جو حکومتی ذمہ داريوں ميں نہيں آتے۔ مثلاً ويلفيئر تنظيم کی مدد سے اجتماعی شادياں کروائ جاہيں، کسی غريب کا قرض اتارا جاۓ اور ايسے بيسيوں کام ہيں جو ہم ويلفيئر تنظيم بنا کر کر سکتے ہيں۔
اس لئے ضروری يہ ہے کہ نکمے اور مفت خور رياستی اداروں سے اُنکی ذمہ دارياں پوری کروانے کے لئے ويلفيئر تنظيم بنائ جاۓ نہ کہ اُس ادارے کو مزيد معذور اور عوام پر خواہ مخواہ کا بوجھ بنانے ميں اُن کاہروں و عياشوں کی مدد کی جاۓ۔ مجھے پوری اميد ہے کہ ہم اگر ويلفیئر تنظيم حکومتی اداروں سے کام لينے کے لئے بنائينگے اور ايسے کاموں کے لئے بنائينگے جو حکومتی دائرہ اختيار سے باہر ہيں تو يقين جانيے ہم رياست بھر کے عوام کے لئے بھرپور کردار ادا کرنے ميں کامياب ہونگے ورنہ ووٹ دے کر نمائندہ منتخب کريں، ادارے کے ملازم کو تنخواہ بھی ديں اور پھر کام بھی آپس ميں چندہ کر کے کريں تو پھر ايسی حکومت و ادارے کا کيا فائدہ؟ پھر تو بہت بہتر ہے کہ ايک بڑی ويلفيئر تنظيم بنا کر رياست کی بھاگ دوڑ سنبھال لی جاۓ تاکہ اس عياش فوج و نکمے اداروں اور اُنکے عياشی کے اخراجات سے نجات ملے۔ اگر نہيں تو پھر ہر صورت ان اداروں کا منظم ہو کر چاہے ويلفيئر تنظيم بنا کر ہی پيچھا کيا جاۓ تو پورے سماج کی حالت بہتر ہو سکتی ہے ورنہ اداروں کی نااہلی و عياشی پہ پردہ ڈال کر خود سے سارے کام کرنا نہ تو کسی طور ثواب کا کام ہے اور نہ ہی دانشمندی اور نہ ہی عوامی فلاح ۔
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More