سرکاری روٹی ؛ تحرير: راجہ خضر رفيق
ہماری ریاست میں انتخابات کی الجھن پھرآن پڑی ہے،سمجھ میں کچھ نہیں آتاکہ مہنگائی اورانارکی کی اس فضاء میں عام آدمی کےلیے
چناومیں رکھاکیاہے؟ فضاء میں پھیلی ہوئی سوگواریت نوشتہ دیوار ہے،انسان کی انسان سے بیزاری دیکھ کرسیاست کاکھیل بےمعنی ہوکررہ جاتاہے۔
سیاست اورسنیاس میں ایک قدرمشترک ہےکہ سانپ، آستین اورپٹاری دونوں میں رکھنے پڑتےہیں ورنہ تماشہ لگتانہیں۔
ڈیپریشن یعنی کہ ذہنی کھچاواور دباونےشہرکاشہرگھیرلیاہے۔ طرفہ تماشہ یہ کہ ذہنی دباؤ کی گرفت سےکس طرح نکلناہے ؟ریاست اور شہری دونوں کو کچھ نہیں معلوم۔ ذہنی دباؤ کاعارضہ اگرچہ عالمی و بین الااقوامی مسلہ ہے مگر ہمارے ہاں المیہ تشویشناک اس لیےہے کہ ہمیں معلوم ہی نہیں کہ یہ بیماری ہے کیا؟اورہم اس کےمریض بھی ہیں؟
ڈیپریشن میں مبتلا کوئی شخص پگ ، لیڈری ، ناک اور برادری کا ہمدردبن کے بات کرتا ہےتو پتھراٹھاکہ اپناسرپھوڑنےکودل کرتاہے۔ ذہنی دباوکروناسےبڑی وباءہےمگرکریں کیا؟دل کوبھلانےکے تمام ذرائع پابند سلاسل ہیں۔ جلاد کی عدالت نےہرخوشی کےخلاف سٹےآرڈر جاری کردیاہے۔ آٹا، دال چاول سونے کابھاوہوگئے۔ فنون لطیفہ حرام قرارپاچکے،سورج کی کرن چاند کی چاندنی حرام ،غزل حرام رباعی حرام چڑیوں کی چچہاہٹ حرام۔ ہمارے ہاں حلال ہےتوفقط دوسرےکاراستہ روکنا۔ جب سب ایک دوسرےکاراستہ روک کہ کھڑے ہو جائیں خوشیاں اورتتلیاں کیسےسانس لے پائیں؟تتلیوں کاقتل ڈیپریشن کاباعث بنتا ہے۔ بہرکیف ریاست میں حکومت کے پانچ سال مکمل ہواچاہتےہیں۔ مطالبات ، خواب دعووں اور حسرتوں کاملبہ زمیں پےبکھراپڑاہے ۔ ایک جگہ راکھ کاڈھیرنظرآرہااور دھواں سااٹھ رہاتھا میں نےراکھ ہٹائی غورسے دیکھاتو عزت نفس آگ میں جل کر راکھ ہورہی تھی۔ قریب ہی تو تو،میں میں کی صدابلندہوئی اورخامشی چھا گئی۔ تھوڑی دیربعدپھرشوراٹھامیں نےپوچھا کیاماجراہے؟درویش نےجھک کرمیرےکان میں کہاآئیندہ پانچ سال سرکاری روٹیاں کون کھاےگا؟اورکون نہیں؟ اس پےپانی پت کا گھمسان پڑاہواہے۔
سیاست سےمقصدیت نکال دیں تویہ فقط دھندہ بن جاتی ہے،میں نےایک سرکاری اورسیاسی دوست سےپوچھا دھندا کيسےچل رہاہے؟کہنےلگایاراس سرکاری روٹی میں ایساذائقہ ہےکہ کھرب پتی بھی ٹکٹوں کی لائین میں پوراپورادن کھڑےرہتےہیں۔ میں نےپوچھااس مرتبہ کیاارادہ ہےآپ کا؟تھوتھنی پھیلا کے بولا،گنداہےپردھنداہے کرنا توپڑےگا۔
کسی معاشرہ یاریاست کو اس دھندےکا عارضہ لاحق ہوجاےتومائیک ایسی زبانوں کو میسرجنہیں بولناآتاہے نہ تولنا،دستاران کی ملکیت جن کاسرہی نہیں۔ بادی النظرمیں اس کیفیت کوقحط الرجال کہتے ہیں،جس آبادی میں نامردی کایہ عالم ہوجاےکہ ایک لوہر مڈل کلاس پانچ سال میں ارب پتی بن جاےاورلوگ کہیں ماشااللہ یہ بندہ بہت مظبوط ہوگیاہے۔ اس کیفیت میں بددیانتی فرض منصبی بن جاتی ہےاور عجب تماشہ ہوتاہےکہ اہل محلہ کہ دیکھتے دیکھتےخواجہ سراء محلہ لوٹ لیتےہیں،سرکاری روٹی کاتندورپانچ سال کیلیے کسی کاہوا ۔ کھیل ختم پیسہ ہضم۔
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More