گلگت بلتستان: عبوری صوبہ کے فوائد اور نقصانات؛ تحرير: انجینئر منظور حسین پروانہ
گلگت بلتستان کی آئینی اور جغرافیائی حیثیت پرسپریم کورٹ آف پاکستان کی سات رکنی لارجز بنچ 17 جنوری 2019ء کوواضح فیصلہ دے چکی ہے کہ یہ خطہ متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کی اکائی ہے اس لئے گلگت بلتستان کو آئین پاکستان میں شامل کرکے صوبہ نہیں بنایا جا سکتا جب تک استصواب رائے کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا حل سامنے نہیں آتا۔ سپریم کورٹ اپنے فیصلے کی پیرا نمبر 13 میں لکھتا ہے کہ “دو خطوں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں تعلق رکھنا پاکستان کی ذمہ داریوں میں سے ہے۔1948 میں يو اين سی آئ پی نے ان خطوں کی مقامی خود اختیاراتی حکومت کی وجود کو تسلیم کیا ہے (جوکہ حکومت پاکستان سے الگ تھلگ ہیں)۔ ہم یقینا یہاں گلگت بلتستان کے لئے فکر مند ہیں۔ اس خطے کو متنازعہ جموں و کشمیر کا حصہ ہونے کی بنا پر پاکستان میں شامل نہیں کر سکتے۔ جبکہ یہ خطہ ہمیشہ حکومت پاکستان کی مکمل انتظامی کنٹرول میں ہے”۔
سپریم کورٹ نے گلگت بلتستان پر پاکستان کی اصولی موقف کو مد نظر رکھتے ہوئے وفاقی حکومت کو ہدایت کی تھی کہ گلگت بلتستان میں انتظامی اصلاحات کرے۔ جس کی روشنی میں عمران خان کی حکومت گلگت بلتستان کو عبوری سیٹ اپ دینے کے لئے غور و حوض کر رہی ہے اس کا اندازہ حال ہی میں گلگت بلتستان اسمبلی سے منظورکروائی گئی عبوری صوبہ کی قرار داد سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ عبوری صوبہ کی قرارداد آنے کے بعد گلگت بلتستان ایک بار پھر ہاٹ ایشو بن گیا ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام کی اکثریت کے درمیان اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ گلگت بلتستان متنازعہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کا آئینی حصہ نہیں بن سکتا لہذا تنازعہ کشمیر کے حل تک گلگت بلتستان کو متنازعہ ریاست جموں وکشمیر کے دیگر اکائیوں کو حاصل حقوق ملنی چائیے۔ البتہ متنازعہ جموں و کشمیر کے دیگر حصوں کو حاصل حقوق کے بارے میں مقامی سیاست دانوں اور سٹیک ہولڈرز منقسم ہیں۔
پہلا طبقہ فکر گلگت بلتستان کو انڈین جموں و کشمیر طرز کی سیٹ اپ کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس سیٹ اپ کا نام انہوں نے” عبوری صوبہ “رکھ دیا ہے۔ اس طبقہ فکر کا موقف ہے کہ پاکستان گلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیر سے الگ کئے بغیر عبوری صوبہ بنائے۔ عبوری صوبہ کے حق میں دلیل دیتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ پہلے عبوری صوبہ بنے گا اور بعد میں کسی نہ کسی دن خود بخود مستقل صوبہ بن جائے گا۔ یہ طبقہ عبوری صوبہ کے ساتھ سٹیٹ سبجیکٹ رولز، حق ملکیت و حق حکمرانی اور سستی گندم سے بھی مستفید ہونا چاہتا ہے۔ جب ان سے عبوری صوبہ کے فوائد کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو کہتا ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں تین چار سیٹیں اور این ایف سی ایوارڈ میں حصہ ملے گا یہی عبوری صوبہ کا کل فائدہ بتایا جاتا ہے۔
دوسرا مکتب فکر گلگت بلتستان کی قومی تشخص کو بحال رکھتے ہوئے يو اين سی آئ پی کی قراردادوں کے مطابق اندرونی خود مختاری کا مطالبہ کرتا ہے جوکہ حکومت پاکستان نے اپنے زیر انتظام آزاد کشمیر کو دیا ہوا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ آزاد کشمیر طرز کی سیٹ اپ قابل عمل ہے اس مقصد کے لئے نہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں بل پیش کرنے کی ضرورت ہے اور نہ دو تہائی اکثریت سے کسی آئینی ترمیم مطلوب ہے۔ ابتدائی طور پر آزاد کشمیر ایکٹ کو گلگت بلتستان میں نافذ کرنے اور بعد میں بہتری کے لئے اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔
اس طبقہ فکر کا موقف ہے کہ گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے میں حکومت پاکستان کے لئے مشکلات اور گلگت بلتستان کے لئے نقصانات زیادہ ہیں۔ گلگت بلتستان پاکستان کا جغرافیائی اور آئینی حصہ نہیں بنے گا بلکہ بدستور متنازعہ ریاست جموں وکشمیر کا حصہ رہے گا۔اگر آئین میں ترمیم کر کے عبوری صوبہ بنایا گیا تو پاکستان کی آئین سے بھی گلگت بلتستان متنازعہ خطہ تسلیم ہوگا جس سے پاکستان کو مشکلات ہونگے۔ گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ کا درجہ دینے سے گلگت بلتستان کی عوام پنجاب اورسندھ کے لوگوں کی طرح ایک نمبر پاکستانی شہری نہیں ہونگے بلکہ عبوری یا دوسرے نمبر کی شہری (سٹيپ سيٹيزن) ہونگے۔ گلگت بلتستان وزارت امور کشمیر کے ماتحت ہی رہے گی۔ گلگت بلتستان سے سٹیٹ سبجیکٹ رولزکا مکمل خاتمہ ہو گا اور بحالی کا مطالبہ بے معنیٰ ہوگا۔ عبوری صوبہ کی آڑ میں گلگت بلتستان کی وسائل پر قبضہ کرنے، ٹیکس لگانے اور سبسڈی میں کمی لانے کا جواز مل جائیگا۔ گلگت بلتستان میں عوامی زمینوں کو سرکاری زمین قرار دے کر ہڑپ کرنے کے عمل کو قانونی تحفظ حاصل ہو گا، غیر مقامی آباد کاری سے گلگت بلتستان کی مقامی اکثریت کو اقلیت میں بدل جائے گی۔ بالخصوص سی پیک منصوبے کی وجہ سے غیر مقامی لوگ بڑے پیمانے پر گلگت بلتستان منتقل ہونگے جس سے گلگت بلتستان کی ڈیموگریفی تبدیل ہوگی۔ عبوری صوبے کے ممبران قومی اسمبلی میں حکمران جماعت کے آلہ کار کے طور پر استعمال ہو نگے، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں عبوری ممبر اعلیٰ عہدوں کے لئے اہل نہیں ہونگے۔ عبوری ممبران نہ پاکستان کا وزیر اعظم بن سکے گا اور نہ ہی صدر یا سینیٹ کا چئیر مین بننے کے لئے اہل ہونگے۔اگر مسئلہ کشمیر حل ہوتا ہے اور گلگت بلتستان، پاکستان کا حصہ بن جاتا ہے تو گلگت بلتستان ایک مستقل صوبہ کبھی نہیں بنے گی کیونکہ بیس لاکھ آبادی پر پاکستان میں صوبہ نہیں بنتا اس کے نتیجے میں گلگت بلتستان خیبر پختون خواہ میں شامل ہو گا۔
پاکستان کی مستقل صوبوں کے عوام میں پائی جانے والی احساس محرومی کے مشاہدے کے بعدیہ طبقہ فکر دلیل دیتا ہے کہ جہاں آئینی اور مستقل صوبہ بلوچستان کے 40 ممبران قومی سمبلی اور 23سینیٹرز بلوچستان کے لئے کچھ کرنے سے قاصر ہیں وہاں تین چار عبوری ممبران گلگت بلتستان کے لئے کچھ نہیں کر سکیں گے جس سے گلگت بلتستان کے عوام میں احساس محرومی مزیدبڑھ جائے گی اور گلگت بلتستان کے حالات بلوچستان سے بد تر ہونگے۔ گلگت بلتستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہوگا جس کی وجہ سے چندسالوں بعد گلگت بلتستان کی عوام کو “عبوری صوبہ” سے جان چھڑانے کے لئے مزاحمتی تحریک چلانی پڑے گی۔ یہ طبقہ فکر گلگت بلتستان کی منفرد اور الگ قومی تشخص، تہذیب و تمدن، رہن سہن، ثقافتی اقدار اور عوامی مزاج اور پاکستان کی چھوٹے آئینی صوبوں کی موجودہ حالات، احسا س محرومی، پسماندگی، دہشت گردی اور انسانی حقوق کی ابتر صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کو کسی بھی صورت گلگت بلتستان کی عوام کی مفادکے لئے ایک مناسب حل نہیں سمجھتا۔ ان کا خیال ہے کہ عبوری صوبے کی نوازشات و کرامات گلگت بلتستان کی عوام کو حاصل موجودہ خصوصیات اور پاکستانیوں کی ہمدردی و خلوص سے یکسر محروم کرنے کا سبب بنے گا اور عوام کی امیدیں دم توڑ دے گی۔عوام عبوری صوبہ پر تحفظات رکھتے ہیں اگر تحفظات کو دور کئے بغیر یک طرفہ اقدام اٹھایا گیا تو اس کے تنائج دیر پا اور موثر نہیں ہونگے۔
گلگت بلتستان کی اکثریت نے عبوری صوبہ کی سخت مخالفت کی ہے، عبوری صوبہ کی مخالفت کرنے والی جماعتوں میں عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان، جماعت اسلامی گلگت بلتستان، تنظیم اہل سنت و الجماعت گلگت بلتستان و کوہستان، قراقرم نیشنل موؤمنٹ، گلگت بلتستان یونائیٹڈ موؤمنٹ، بالاورستان نیشنل فرنٹ، گلگت بلتستان عوامی ایکشن تحریک، گلگت بلتستان بچاؤ تحریک، جموں و کشمیر لیبریشن فرنٹ گلگت بلتستان،دیامر یوتھ موؤمنٹ،بلتستان اسٹوڈینس فیڈریشن،گلگت بلتستان تھنکرز فورم اور دیگر جماعتیں اور سول سوسائٹی کی تنظیمیں شامل ہیں جبکہ تحریک انصاف پاکستان، پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، جمیت العلماء اسلام پاکستان اور مجلس وحدت مسلمین پاکستان عبوری صوبہ کی حامی جماعتیں ہیں۔ تحریک اسلامی پاکستان اور دیگر جماعتیں پانچواں آئینی صوبہ کے مطالبہ پر قائم ہیں اور عبوری صوبہ پر شدیدتحفظات رکھتی ہیں۔گلگت بلتستان کی غیر سیاسی یوتھ کا مطالبہ ہے کہ پاکستان جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے گلگت بلتستان کو مکمل آئینی صوبہ بنائے اگر ایسا نہیں کر سکتی ہے تو عبوری صوبہ کا ٹوپی ڈرامہ بند کرے۔گلگت بلتستان کو داخلی خود مختاری دے یا اقوام متحدہ کے کسی مشن کے ذریعے غیر جانبدار اور شفاف استصواب رائے کے لئے اقدامات کرے ۔
گلگت بلتستان میں يو اين سی آئ پی کی قرار دادوں کو پس پشت ڈال کر، گلگت بلتستان کی عوام کو حق حکمرانی اور حق ملکیت سے محروم رکھ کر، گلگت بلتستان کے تجارتی راستوں کو بند رکھ کر، گلگت بلتستان کے سیاسی و سماجی کارکنوں کو انسداد دہشت گردی کے دفعات شیڈول فور میں ڈال کر، گلگت بلتستان میں اسٹیٹ سبجیکٹ رولز کو روندکراورگلگت بلتستان میں انسانی حقوق کو پامال کر نے کے بعد گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ بنائے یا عبوری صوبہ گلگت بلتستان کالونی ہی بنی رہے گی۔ عبوری صوبہ کے فوائد و نقصانات پر دونوں مکتبہ فکر کے دلائل کا جائزہ لینے کے بعد گلگت بلتستان سے محبت کرنے والا کوئی بھی شخص عبوری صوبہ کی حمایت نہیں کر سکتا۔عبوری صوبہ ایک طرف پاکستان کی انڈین جموں و کشمیر سے دستبرداری ہوگی تو دوسری طرف گلگت بلتستان کی آنے والی نسلوں کے گلے میں طوق ثابت ہوگا۔
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More