گلگت بلتستان صوبہ اور ٹرک کی بتی ؛ تحرير: توصیف علی جرال ایڈووکیٹ
میر کیا سادہ ہیں کہ بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
گلگت بلتستان میں ہر بار جس پاکستانی سیاسی فرنچائز کی حکومت بنتی ہے اس سے سب سے پہلے ہر بار صوبہ بنانے کی قرارداد پاس کروائی جاتی ہے اور پانچ سال اسی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر وہاں کی عوام کو سیاسی محرومیوں کی دلدل میں دھکیلے رکھا جاتا ہے اور پھر آئیندہ الیکشن مہم میں وہی چورن وہی اگلی کٹھ پتلی اسمبلی سے قرارداد ۔
عوام کے حقوق زندگی کا تحفظ، حق روزگار، حق تعلیم، حق علاج، حق آزادی رائے، حق نقل و حرکت، حق مذھبی آزادی، حق اختیار برائے لوکل وسائل، حق بااختیار مقامی سیاسی سیٹ اپ، حق لوکل و قومی شناخت ، ریاست کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا بین الاقوامی تسلیم شدہ حق اس سب کیلئے تو اقوام متحدہ میں مسئلہ جموں کشمیر کی قراردادوں کے مطابق ہندوستان اور پاکستان کو پابند کیا گیا ہیکہ مسئلہ جموں کشمیر کے استصواب رائے کے ذریعہ مستقل حل تک وہ لوکل اتھارٹیز کو بااختیار بنا کر اس خطہ کی عوام کی یہ ضروریات پوری کریں کہیں بھی یہ زمہ داریاں کسی اکائی کو جبرا” یا کٹھ پتلی حکومت و اسمبلی کے ذریعہ سے صوبہ یا یونین ٹیریٹری بنا لینے سے مشروط نہیں ہیں اور نہ ہی ان کٹھ پتلی حکومتوں و اسمبلیوں کو ایسا کوئی فیصلہ کرنے کا قانونی اختیار حاصل ہے۔ بغیر غیر قانونی صوبہ یا یونین ٹیرٹری بنائے ہی دونوں ممالک نے یہ زمہ داریاں نبھانی ہیں ۔
کیا 73 سالوں سے گلگت بلتستان کی عوام کو اس لیئے حقوق سے محروم رکھا گیا تاکہ کسی وقت خود ان زمہ داریوں کو نہ نبھانے کے عوض اس خطہ کو ہڑپ کرلیا جائے گا ؟ گلگت بلتستان میں اگر گزشتہ 73 سال سے عوام کے جائز بنیادی اور طے شدہ حقوق مہیا نہیں کیئے گئے تو کس نے نہیں کیئے ؟ کیا گلگت بلتستان 73 سال سے انڈیا کے کنٹرول میں ہے ؟ جب ایک تحصیلدار، ایس ایچ او سے لے کر چیف سیکرٹری، آئی جی، وزیر امور کشمیر ، کورکمانڈر اور پاکستانی سیاسی فرنچائزز کی حکومتوں کا ہی مکمل کنٹرول رہا ہے تو یہ حقوق غصب بھی تو انہوں نے ہی کررکھے ہیں کسی اور نے نہیں ۔
کیا غیر قانونی طور پر صوبہ بنا لینے سے ہی ان حقوق کی بازیابی ممکن ہے ؟ تو سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخواہ قبائلی علاقہ جات ، جنوبی پنجاب وغیرہ کی عوام صوبہ ہونے کے باوجود کیوں رونا رو رہے ہیں ؟ آئینی صوبہ ہونے کے باوجود ان خطوں کی عوام کے جائز حقوق مہیا ہونے میں کیا رکاوٹ ہے ؟
دراصل یہ معاملہ سراسر ہندوستان اور پاکستان کے مابین طویل عرصہ سے چلنے والے مسئلہ جموں کشمیر کے دو طرفہ آؤۓ آف کورٹ سيٹلمنٹ منصوبہ کا اگلا فیز ہے ۔ ریاست جموں کشمیر کی عوام بالخصوص گلگت بلتستان کی باشعور عوام کو اس مستقل تقسیم کے مکروہ ایجنڈا کے خلاف پرامن سیاسی و سفارتی منصوبہ بندی کے بارے میں بہت سنجیدگی سے سوچنا اور صف بندی کرنا ہوگی ورنہ اپنی آئیندہ نسلوں کیلئے اس مکروہ تقسیم کے بعد ہندوستانی یونین ٹیرٹری، راولپنڈی اور گجرات کی تحصیلوں اور 15 لاکھ آبادی والے گلگت بلتستان کو خیبرپختونخواہ کے دوردراز پسماندہ ترین ضلع کی حیثیت سے مستقبل کیلئے تیار رہیں ۔
ہندوستان اور پاکستان کے وہ باشعور عوام جو جموں کشمیر کی عوام سے محبت و احترام رکھتے ہیں اور حق آزادی کا احترام و حمایت کرتے آئے ہیں خاص طور پر کشمیری قوم کے شانہ بشانہ رہنے والے اور قربانیاں دینے والی پاکستانی قوم کے محب کشمیری افراد کو بھی تاریخ کے اس نازک دور اور مکروہ عزائم کے خلاف جموں کشمیر کی عوام کیلئے حمایت میں کھڑا کرنے کیلئے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے ۔
جموں کشمير لبريشن فرنٹ آزاد کشمیر و گلگت بلتستان زون کے چیف آرگنائزر ہيں۔
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More