ہماری سیاست اور “برادری” و “قبیلے” کا مغالطہ؛ تحرير: محمد راشد عزیز
آزاد کشمیر میں الیکشن کی آمد آمد ہے اور حسب سابق اس بار بھی الیکشن قریب آتے ہی سیاسی شعبدہ باز اپنی اپنی برادری کا نعرہ مستانہ بلند کے کر الیکشن میں جانے والے ہیں تا کہ بھولے بھالے عوام سے ووٹ اور نوٹ دونوں اینٹھ سکیں۔ باغ میں قبیلے کی بنیاد پر الیکشن سے پہلے ایک الیکشن کا مظاہرہ آج کل دیکھنے کو مل رہا ہے اور سوشل میڈیا پر دیگر قبائل سے وابستہ لوگوں کا رد عمل بھی۔
یہ تو الیکشن اور سیاست کا ایک حصہ ہے لیکن بطور ایک عام انسان مجھے جس بات پر اعتراض ہے وہ قبیلائ سیاست اور تعصبات کو ہوا دینے کے لیے “برادری” کا لفظ استعمال کرنے پر ہے۔
جسے سیاست دان برادری کہتے ہیں وہ برادری نہیں ہوتی۔ وہ تو قبیلہ ہے اور سیاست قبیلائ تعصب کی بنیاد پر کی جا رہی ہے۔۔۔ برادری کا مطلب تو بھائ چارہ ہے۔۔۔ اور بھائ چارہ کی بنیاد دکھ سکھ کے سانجھی ہونے پر نہ کہ نسب کے مشترک ہونے پر۔۔۔۔ وہ جو شادی کے موقع پر بندوبست کی جگہ پر دیگوں کے پاس جا کر پوچھتا ہے کہ کچھ کم تو نہیں ہو گیا؟ وہ جو میزبان کے ساتھ مل کر مہمانوں کو کھانا کھلاتا ہے، وہ جو شادی کے رسم و رواجات میں ہاتھ بٹاتا ہے اور وہ جو جنازے والے دن قبرستان میں جا کر قبر پر کام کرتا ہے، وہ جو جنازہ گاہ میں آۓ لوگوں کے لیے صفحیں بنا رہا ہوتا ہے، اور وہ جو کسی حادثے میں دوڑ کر پہنچتا ہے وہ میری برادری ہے۔۔۔ پھر چاہے وہ کسی بھی قبیلے کا کیوں نا ہو، میرا گاؤں والا، میرا رشتے دار، میرا کلاس فیلو، میرا دوست اور میرا پڑوسی ہی میری برادری ہے۔۔۔ وہ جو جنازہ گاہ میں جنازہ پڑھ کر اور ایک تعزیتی تقریر کر کہ چلا جاۓ، وہ جو شادی میں مہمان خانے میں کھانا کھا کر چلا جاۓ وہ تو مہمان ہے نا کہ برادری ۔۔
ہماری بدقسمتی دیکھیے۔۔۔
میں نے آج تک کسی دولت مند کو محض “قبیلے” کی بنیاد پر کسی غریب کے ساتھ رشتہ داری کرتے نہیں دیکھا۔ میں نے کبھی کسی پڑھی لکھی عورت کا نکاح کسی ان پڑھ نوجوان کے ساتھ محض قبیلائ بنیاد پر ہوتے نہیں دیکھا۔۔۔ میں نے کبھی قبیلائ لیڈروں کو عام لوگوں کے لیے قبرستان تک جنازے کے ساتھ جاتے نہیں دیکھا۔۔۔ میں نے گاؤں کی “لیتری” میں کسی لیڈر کو گاؤں والوں کے ساتھ کھڑے نہیں دیکھا۔۔۔
دولت مند لوگ صرف دولت مندوں سے ہی رشتہ داری کرتے ہیں، تعلیم یافتہ بیٹی کا باپ صرف تعلیم یافتہ لڑکے سے ہی بیٹی بیاہتا ہے۔۔۔ ہر بندہ صرف ہم مرتبہ لوگوں سے ہی تعلقات کا خواہاں ہوتا ہے۔۔۔ پھر چاہے وہ دولتمند، وہ تعلیم یافتہ اور وہ ہم پلہ کسی بھی قبیلے کا ہی کیوں نا ہو۔۔۔۔ سماجیات پر تھوڑی سی نگاہ دوڑائیے تو پتا چلتا ہے کہ سماج دو طبقوں میں بٹا ہوا ہے۔۔۔ امیر کا طبقہ اور غریب کا طبقہ۔۔۔ امیر صرف امیر کی برادری اور غریب صرف غریب کی برادری۔۔۔
لیکن جوں ہی الیکشن آتا ہے لوگوں میں قبیلائ تعصبات سر اٹھانے لگتے ہیں۔۔۔ وہ جو ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے سانجھی ہوتے ہیں وہ اُن سیاستدانوں کے لیے ایک دوسرے سے جھگڑے مول لیتے ہیں جن سے ملاقات صرف الیکشن میں ہی ہوتی ہیں۔۔۔ جو الیکشن جیت جائیں تو دارلحکومت میں ہوتے ہیں اور ہار جائیں تو اسلام آباد میں۔۔۔ لیکن ان کے بہکاوے میں آنے والے اپنے تعلقات تباہ کر بیٹھتے ہیں۔۔۔
ہاں۔۔۔ دوبارہ عرض کر دوں کہ “برادری” اور “قبیلہ” دو الگ الگ چیزیں ہیں۔۔۔برادری کی بنیاد دکھ سکھ کے سانجھی ہونے پر ہے اور قبیلے کی بنیاد نسب پر ہے۔۔۔ برادری میں وہ لوگ آتے ہیں جو آپ کے دکھ سکھ کے سانجھی ہوتے ہیں۔۔۔ آپ کے پڑوسی، آپ کے رشتہ دار، آپ کے دوست اور آپ کے گاؤں والے۔۔۔ پھر چاہے وہ کسی بھی قبیلے کے ہوں۔۔۔ یہ لوگ خوشی میں آپ کا بازو بنتے ہیں اور غم میں آپ کا حوصلہ۔۔۔ قبیلے کے نام پر اپنی برادری قربان مت کیجئے۔۔۔ برادری کی تعریف دوبارہ کیجئے اور اپنے بچوں کو سمجھائیے کہ جو تمھارے دکھ سکھ کا سانجھی ہے وہی تمھاری برادری ہے چاہے اس کی قبیلائ شناخت کوئ بھی ہو۔۔۔ اپنی نسل کو قبیلائ تعصبات سے پاک سماج دیجئے۔۔۔ ایک ایسا سماج جس میں “برادری” کی بنیاد دکھ سکھ کے سانجھی ہونے پر ہو نا کہ “قبیلے” کی بنیاد پر۔۔۔
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More