Main Menu

جشن منالو، روتے کیوں ہو؟ تحریر: شفقت انقلابی

Spread the love

گلگت بلتستان کے پچانوئے فیصد لوگوں قومی اور مذہبی جماعتوں کے مطابق گلگت بلتستان یکم نومبر 1947 کے روز ریاست جموں کشمیر واقصائے تبتہا سے سو سالہ جبری تعلق کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے توڑ چکے ہیں۔
ساری قوم عمر بھر روتی رہی کہ ہمیں پاکستان نے رائے شماری میں فاہدے کی خاطر جموں کشمیر سے جوڑا اور سب ہی کا بھرپور مطالبہ رہا کہ ریاست جموں کشمیر سے جُڑی ہوئ ہر شے سے گلگت بلتستان کو الگ کیا جائے۔ اور تو اور لفظ کشمیر سےنفرت کی بنیاد پر کانا ڈویژن سے علحیدگی تو پسندیدہ مطالبہ رہا۔

ریاست جموں کشمیر کے درجہ اول کے شہری کہلانا تو گلگتيوں اور بلتیوں کے لئے گالی کی حثیت رکھتا ہے۔اور تو اور بڑی بڑی قوم پرست جماعتیں “غلاموں کی غلامی نامنظور” اور کشمیر سے الحاق نامنظور کے نعرے لگاتی رہی۔مذہبی جماعتیں گلگت گھڑی باغ اور سکردو یادگار پر ہونے والے جلسوں میں۔۔۔۔

پاکستان ہم نے بنایا
پاکستان ہم ہی بچائنگے۔

سن 1947 کے فوجی آپریشن دتہ خیل کو پیار سے انقلاب پکارنے والے سو فیصد غازی پاکستان بنانے کا دعوی کرتے کرتے گزر گئے۔۔۔ اشرف امان ہنزائی ، نظیر صابر محمد علی سدپارہ سے سمینہ بیگ تک سب ہی پہاڑ کی چوٹیاں سر کرتے ہوئے پاکستانی جھنڈے فخر سے لہراتے رہے۔۔۔

اکثریتی آبادی مظفر آباد اور سری نگر کو اسرائیل جبکہ کراچی اور پنڈی کو خوابوں کا شہر مانتی رہی۔۔۔۔

ساری قوم عمر بھر اسلام آباد سے آنے والوں کا آنکھیں بچائے ناچتے ہوئے استقبال کرتی رہی جبکہ غلطی سے بھی کوئی شخص مظفر آباد سے آیا تو مشکوک نظروں سے دیکھتی رہی۔۔۔۔

پنجاب ، سندھ اور کے پی کے کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلبہ پنجابی ہزاروالوں، سندھیوں اور پٹھانوں کے ساتھ مل کے کشمیرطلبہ کے خلاف محاز بناتے رہے۔۔۔۔۔

گلگت بلتستان کے اکثر قوم پرستوں نے اے جے کے کے قوم پرستوں کے مقابلے میں مہاجروں ، پشتونوں اور بلوچوں کی قومی جماعتوں کو زیادہ نظریاتی حلیف سمجھا۔۔۔

جی بی کے سوشلسٹ آزاد جموں کشمیر کی سوشلسٹ پارٹیوں کے نسبت لاہوری اور کراچی کی سوشلسٹ جماعتوں کی قربت داری کے حصول میں لگی رہے۔۔۔۔

رياست جموں کشمير و اقصاۓ تبتہاء کا نقشہ

کراچی ایگریمنٹ کی ہی وجہ سے گلگت بلتستان کا جموں کشمیر کے ساتھ پھنسنے کارونا بھی تو بڑا رویا کرتے تھے نا۔۔

گلگت بلتستان کے لوگ پہلے روز سے ہی یہ کوشش کرتے رہے کہ کسی بھی طرح مسلئہ جموں کشمیر سے جان چھوٹ جائے ۔۔۔

اگر بیچ میں مجھ سے چند سر پھرے چند افراد جب پشاور کے نسبت مظفر آباد کراچی کے نسبت میرپور اور پنڈی کے نسبت راولاکوٹ کے لوگوں کے قریب جانے لگے تو پاکستان نواز اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ قوم پرست اور سوشلسٹ جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکن بھی متنفر ہونے لگے اور مشکوک ہوکے دبے لفظوں میں کشمیریوں کے ایجنٹ پکارتے رہے۔۔۔۔

اور تو اور جموں کشمیر سے تعلق پر گفتگو کرنے پر قوم کی اکثریت نے سابق وزیر اعلی حفیظ الرحمن کو بھی میری طرح ہی گلگت میں کشمیریوں کا ایجنٹ اور جی بی کا دشمن قرار دیا تھا۔
اگر اکثریتی آبادی اور یہاں کے تمام نظریات کے سیاسی کارکن جموں کشمیر سے جان چھڑانا ہی چاہتے ہیں تو اب اسلام آباد سرکار نے ان کے خواب کے حتمی تعبیر کی خاطر مسلئہ جموں کشمیر کو پس پشت ڈالتے ہوئے گلگت بلتستان کو پہلے مراحلے میں عبوری صوبہ دینے کا حتمی فیصلہ کرچکی ہے اور وقت کے ساتھ لفظ عبوری کا خارج بھی کرنے کا عندیہ دے چکی ہے۔۔۔

ایسے میں بھی انہی نظریات سے وابسطہ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر اس اصلاحاتی پیکج پر تنقید سمجھ سے بالاتر ہے۔ مجھ جیسے افراد جو ہاتھوں کی انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں جو خود کو ریاست کے ٹوٹے ہوئے 74 سال گزر جانے کے بعد بھی ریاست جموں کشمیر کے درجہ اول کے شہری سمجھتے ہیں کو تو عبوری صوبے کے خیال سے تکلیف پہنچ سکتی ہے۔۔۔ باقی 99 فیصد آبادی کو جانے کیوں اپنے خواب کے تعبیر والے فارمولے سے تکلیف ہورہی ہے۔۔۔۔
میرے خیال میں گنتی کے چند لوگوں کے علاوہ اکثریتی آبادی کو اس مراحلے پر خوش ہونا چاھئیے کیونکہ پاکستان کی اس کاروائی کے بعد 74 سال میں پہلی بار جموں کشمیر نامی آسیب سے آپ کی جان چھوٹنے جارہی ہے۔۔۔۔ مجھ جیسے چند لوگوں کی کشمیریوں کی ایجنٹی سے تو آپ بیزار تھے اس لئے رونا دھونا بند کرو اور جشن منانے کی تیاری کرو۔۔۔
او سب مل کے نعرہ لگائے
غلاموں کی غلامی نامنظور
اسی لئے تو کہتا ہوں ” جشن منالو روتے کیوں ہو.”.ہم تو ٹھہرے کشمیری لابی کے سرٹیفائڈ ایجنٹ۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *