فکری لام بندی کی بے گوروکفن لاش؛ تحریر:ملک عبدالحکیم کشمیری
یہ تاریخ کا دلچسپ موڑ ہے الحاق پاکستان کی علمبردار جماعت آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس اپنی ہی تخلیق کردہ فکری لام بندی کے کٹہرے میں کھڑی ہے۔سر ینگر کی آزادی تو دور کی بات آزاد کشمیر کا وجود سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔
اپنی سانسوں پہ یوں بدگمانی سی ہے
کوئی کاٹے بدن تو نہ نکلے لہو
نظریاتی تشخص کی لاش بزدلی کے “منتر” کا شکار ہو کر سامنے پڑی ہے
جو کشمیر تیرے پاس وہ تیرا جو میرے پاس وہ میرا۔۔۔۔۔۔
وہ منزل،وہ تکمیل،وہ نامکمل ایجنڈا،کشمیر ہمارا،سارے کا سارا۔۔۔۔
خواب ساز بھاگ گۓ، تعبیر الٹ گئی ،کرایے کی تالیوں کی بازگشت زمین بوس ہو گئی ۔فکری لام بندی کا پراجیکٹ ختم ہوا،کنٹریکٹ پر تعینات سارے ملازم فارغ۔ منظر نامہ بدل رہا ہے …………پس منظر نہیں اب پیش منظر کے حساب سے فیصلے ہوں گے۔
کچھ محکموں کا مسلمہ اصول ہے جو خچر بار برداری کے کام کی نہ رہے اسے گولی مار دی جاتی ہے۔
نئے حالات میں مسلم کانفرنس اور اس طرح کی دیگر جماعتوں کی ضرورت نہیں۔اون کترنے کے بعد بھیڑ کے ساتھ کیا کرنا ہے اس کا فیصلہ بعد میں ہوگا ۔کس سے کتنا کام لینا ہے اور کس کو اپنے جوتوں کے سائز کے اندر رکھنا ہے۔۔۔۔۔ انتظار کیجئے!
مگر کریں کیا؟
یہ سوال اہم ہے اگر اس پر کامل حمیت سے سوچا جائے ۔۔۔۔۔۔واضح راہ عمل ہے۔۔۔۔ لیڈر بنیں ،رہبری کریں ، پوری جرأت کے ساتھ سامنے آئیں۔
ہاں اگر نوکری کرنی ہے تو نئے نئے جملے تخلیق کریں ۔تابعداری کی جوازیت پر مبنی فلسفہ جھاڑیں۔لفظوں کی جادوگری دکھائیں روایتی ہنر مند ی کو آزمائیں ،ماضی کی طرح مسئلہ کشمیر کو سیاسی کاروبار کے لیے بطورِ خام مال استعمال کریں، مستقبل روشن ہے!
معاہدہ کراچی۔مختلف ادوار کے رولز آف بزنس (تابعداری کے احکامات)
عبوری آئین 1974……کی وکالت کا انجام آج سامنے ہے.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تاریخ واقعی بے رحم تلوار ہے۔
سارے القاب، قابل احتر ام بڑے نام۔تمام دعوے،خواب، ساڑھے سات دہائیوں تک بلا شرکت غیرچھایا ہوا نظریہ ……سب کا دھڑن تختہ ہو گیا۔.۔۔۔۔۔۔۔1947میں جس ریاست کی تقسیم کی بنیاد نیشنل کانفرنس اور مسلم کانفرنس نے رکھی آج وہ عملی شکل میں سامنے آرہی ہے۔
شہ رگ اور اٹوٹ انگ کی تکمیل ہو رہی ہے۔
جشن تو بنتا ہے۔۔۔
ان شہیدوں کے لہو پر جشن جو اس دھرتی کی شناخت،عزت و احترام کی خاطر اپنی جانیں قربان کر گئے۔ ان شہیدوں کی بے نامی قبروں پر بیلی ڈانس جو سیز فائر لائن پر” محبت بھری “گولیوں کا شکار ہوئے۔ اُن عفت مآب بیٹیوں کی عصمت دری پر بھنگڑا جنہیں ہمارے سیاست دانوں کی اقتدار کی خواہش نے زندہ مار دیا۔۔۔۔
کیا موڑ ہے، رہزنوں کا یہ ٹولہ اپنا مقدمہ ہار گيا۔۔۔
زبانوں کو تالے لگ گئے،آبلے پڑ گۓ
فاروق حیدر اشاروں میں بتا رہے ہیں کہ تقسیم کشمیر کافیصلہ ہو چکا ہے۔مگر اقتدار چھوڑنے کیلئے تیار نہیں. حکم آتا ہے ۔۔۔۔۔آزاد جموں وکشمیر سے لفظ ”آزاد“ہٹا دیں۔
مجھے ذاتی حیثیت سے اس پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ عبوری آئین 1974کی روح کے عین مطابق یہ حقیقت کا اعتراف ہے لیکن طاقت کے مراکز اور مسلم کانفرنس کا اپنا بیانیہ لفظ ”آزاد“ہٹانے سے دفن ہو جاتا ہے۔
73سال پر مشتمل خون رنگ دور حماقتوں کا تسلسل اور ناقابل اعتبار مزاج کا مظہر ہے۔ہری سنگھ معاہدہ جاریہ کے تحت شامل ہوتا ہے۔22اکتوبر کی مہم جوئی اُسے بھارت کی طرف پلٹنے پر مجبور کرتی ہے۔24اکتوبر 1947کوانقلابی حکومت قائم کی جاتی ہے 28اپریل 1949کو معاہدہ کراچی کے ذریعے اُس حکومت سے اختیار لے لئے جاتے ہیں۔
گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی میں گلگت بلتستان سے سٹیٹ سبجیکٹ ختم کر دیا جاتا ہے 2009میں گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنایا جاتا ہے اور پھر 5اگست 2019کے بھارتی اقدامات ۔۔۔۔دوطرفہ مگر غیر اعلانیہ معاہدے میں شامل ہونا صاف نظر آرہا ہے۔
باخبر سیاستدان مولانا فضل الرحمان کے مختلف انٹرویو جہاں اس کا سب سے بڑا ثبوت ہیں وہاں خارجی اور سفارتی محاذ پر اٹھائے گے سطحی اقدامات اس پر مہر ثبت کرتے ہیں۔5اگست 2019کے بعد وزیر اعظم فاروق حیدر سے جو میٹنگز ہوئیں اُس میں انہیں واضح بتایا گیا کہ موجودہ معاشی صورتحال میں ہم کسی مہم جوئی کا شکار نہیں ہو سکتے۔
5اگست 2019سے دو تین دن قبل جس نشست میں فاروق حیدر کو بلایا گیا اس میں حقیقی ارباب اختیار سمیت وزیر خارجہ،اپوزیشن لیڈر،احسن اقبال،شیری رحمان اور کئی قابل ذکر لوگ شامل تھے۔ سب جانتے تھے کہ آگے کس طرح بڑھنا ہے۔ایک طرف پاکستانی قوم کو مطمئن کرنا تھا اور دوسری طرف ہندوستان پر کم ازکم دباؤ رکھنے کے لیے سری نگر کا اعتماد۔اسکرپٹ کے عین مطابق ہر قدم مکمل احتیاط کا متقاضی تھا۔وقت کا مرہم اس کھیل کا نفسیاتی پہلو تھا ۔یوں ایک ایسی فکری لام بندی جو پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کےسیاست دانوں نے ہمیشہ اپنے اقتدار کے لیے استعمال کی، جس کے تمام “ہیرو” مخصوص مقاصد کے لیے تخلیق کیے گئے جس سے محراب وممبر کی پرورش ہوئی مہ خانوں کو رونق بخشی گئی آج اس کی بے گوروکفن لاش ہمارے سامنے پڑی ہے۔
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More