یوم یکجہتی کشمیر کا پس منظر اور یکجہتی کے تقاضے ؛ تحرير: عبدالرشید ترابی
اہل کشمیر نے1947ء ہی سے بھارتی قبضہ مسترد کرتے ہوئے اپنی مزاحمت جاری رکھی، حکومت پاکستان بھی سفارتی محاذ پر بھرپور پشتیبانی کرتی رہی۔1965ء میں بھارت اور پاکستان کے درمیان مسئلہ کشمیر پر ایک بھرپور جنگ بھی ہوئی جس میں مناسب ہوم ورک کا فقدان کے باعث بالآخر معاہدہ تاشقند پر منتج ہوئی جس میں کشمیر کا ذکر تک نہ تھا۔ 1971ء کا دلخراش سانحہ جس میں پاکستان دو لخت ہوا جو بھارت کی بھرپور مداخلت اور پاکستانی حکمرانوں کی عدم توجہی کی وجہ سے وقوع پذیر ہوا،جوکشمیریوں کے لیے نہایت حوصلہ شکنی کا باعث بنا۔ 1972ء میں شملہ معاہدہ ہوا جس میں کشمیر بین الاقوامی ریڈار سے منتقل ہو کر دو طرفہ مسئلہ بن کر رہ گیا۔
شیخ عبداللہ مرحوم جن کی سیاسی بے تدبیری اور تاریخی حماقت کے نتیجے میں 1947ء میں بھارت کو کشمیر پر قبضہ کرنے کا موقع ملا اور بے آبرو ہو کر اقتدار کے تخت سے پنڈت نہرو (جس کی دوستی پر شیخ عبداللہ کو بڑا ناز تھا) کے حکم پر محروم کرتے ہوئے پابند سلاسل کردیا۔ کشمیریوں سے بے وفائی اور دھوکہ دہی کی تلافی کے لیے شیخ عبداللہ نے رائے شماری کا نعرہ لگایا جس کی پاداش میں بائیس برس تک وہ قید و بند کی صعوبتیں کاٹتے رہے۔ 1971ء کے سانحہ کے بعد کشمیریوں کی مزاحمت کی یہ علامت بھی مایوسی کے عالم میں ماند پڑھ گئی اور رائے شماری کے موقف سے دستبرداری اختیار کرتے ہوئے اندرا،عبداللہ اکارڈ کے ذریعے محدود اختیارات پر قانع ہو کر وزیر اعلیٰ بن گئے، اتنے بڑے سانحہ کے باوجود کشمیری نوجوان تمام سہاروں سے بے نیاز ہو کر کسی نہ کسی طور تحریک مزاحمت جاری رکھے رہے۔
خطہ اور بین الاقوامی سطح پر رونما ہونے والے واقعات بالخصوص ایرانی انقلاب اور افغان جہاد کے نتیجے میں کشمیری نوجوانوں کے حوصلے بلند ہوئے اور انہوں نے بھارت اور شیخ عبداللہ کو چیلنج کرنا شروع کر دیا۔ 80 کی دہائی میں 1987ء کے ریاستی اسمبلی انتخابات کے موقع پر تمام حریت پسند تنظیموں اور افراد نے ”مسلم متحدہ محاذ“کے نام سے ایک اتحاد قائم کر کے انتخابات میں حصہ لیا۔ اتحاد نے قوم کو یہی پیغام دیا کہ جمہوری عمل کے ذریعے کامیابی حاصل کرتے ہوئے وہ اسمبلی کے فلور سے ریاست کے بھارت کے ساتھ نام نہاد الحاق کا خاتمہ کرتے ہوئے آزادی کی منزل کی طرف پیش قدمی کریں گے۔ اتحاد کو وادی اور جموں کے مسلم بیلٹ میں بے پناہ پذیرائی ملی۔ شفاف انتخابات کی صورت میں محاذ کی کامیابی یقینی تھی،لیکن بھارتی حکومت اور اس کے کشمیری سہولت کاروں نے بوکھلاہٹ میں انتخابات میں بے پناہ دھاندلی سے نتائج تبدیل کیے۔ محاذ کے جیتنے والے امیدواروں کے نتائج تبدیل کر کے ہارے ہوئے بھارت نواز پارٹیوں کے امیدواران کی کامیابی کا اعلان کیا گیا۔ اس دھاندلی نے کشمیری نوجوانوں کے اس احساس کو پختہ تر کر دیا کہ محض جمہوری جدوجہد سے بھارت سے آزادی کا حصول ناممکن ہے چنانچہ افغان جہاد کی کامیابی سوویت روس کی شکست، سنٹرل ایشیا اور مشرقی یورپ کی آزادی کے تاریخی واقعات کے پس منظر میں کشمیری نوجوانون نے بھی فیصلہ کیا کہ جمہوری جدوجہد کے ساتھ ساتھ مسلح جدوجہد کا حق بھی استعمال کریں۔
بڑی تمناؤں کے ساتھ وہ جوق در جوق آزادکشمیر کا رخ کرتے رہے،اپنے ذرائع سے تربیت اور اسلحہ کے ساتھ وادی کشمیر میں بھارتی استبداد کے ساتھ نبرد آزما ہوتے رہے۔ ابتدائی مجاہدین کو قوم نے سرآنکھوں پر بٹھایا (اور آج بھی مجاہدین اور شہداء میں ان کے اصل ہیرو ہیں) اس پس منظر میں ہزاروں نوجوان مختلف راستوں سے آزادکشمیر پہنچے،لیکن یہاں ان کا کوئی پرسان حال نہ تھا، کشمیر کے حوالے سے شہید ضیاء الحق اور ان کی ٹیم جنہیں وہ اپنا محسن سمجھتے تھے ایک حادثہ کی نذر ہوگئی۔ قوم پیپلز پارٹی اور اسلامی جمہوری اتحاد کے دو چہروں میں تقسیم تھی۔ سخت سیاسی محاذ آرائی کے ماحول میں قومی یکجہتی کا فقدان تھا۔اس موقع پر امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب قاضی حسین احمد صاحب مرحوم ہماری اپیل پر میدان میں اترے۔ وہ پورے آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے ضلعی مراکز میں بڑی کانفرنسوں میں شریک ہوئے۔ آنے والے نوجوانوں کے جذبات واحساسات سے آگاہ ہوئے اور ہم سب مشاورت سے اس نتیجے پر پہنچے کہ کشمیریوں کو مایوسی سے بچانے کے لیے قومی سطح پر زبردست اظہار یکجہتی کا اہتمام کیا جائے۔چنانچہ 5جنوری 1990ء کو محترم قاضی صاحب نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے پوری قوم اور حزب اختلاف و اقتدار سے اپیل کی کہ 5فروری 1990ء کو قومی سطح پر کشمیریوں کے ساتھ بھرپور طور پر اظہار یکجہتی کیا جائے۔ ان کی اپیل پر سب سے پہلے میاں محمد نواز شریف صاحب (جو اس وقت صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور آئی جے آئی کے صدر کی حیثیت سے حزب اختلاف کی نمائندگی کرتے تھے) نے لبیک کہتے ہوئے توثیق کر دی۔محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے بھی وفاقی سطح پر توثیق کرتے ہوئے اسے یکجہتی کا قومی دن قرار دیا۔وہ خود بھی مظفر آباد تشریف لائیں اور ایک بڑے جلسے سے خطاب کیا۔ پورے ملک میں ریلیاں اور جلسے منعقد ہوئے جس کے نتیجے میں پاکستان میں قومی سطح پر کشمیر کے مسئلے پر صف بندی ہوئی۔وزارت خارجہ اور متعلقہ ادارے تحریک کی پشتیبانی پر آمادہ ہوئے جو شملہ معاہدے کے بعد مسئلہ کشمیر سے بالکل لا تعلق ہو کر رہ گئے تھے۔ اس وقت سے آج تک یہ دن پاکستان، آزادکشمیر اور دنیا بھر میں کشمیریوں کے پشتیبان یکجہتی کے طور پر مناتے ہیں جس کے نتیجے میں نئی نسل کو اس مسئلہ سے آگاہی کے ساتھ پوری پاکستانی قوم کشمیریوں کی پشتیبانی کے حوالے سے تجدید عہد کرتی ہے۔
امسال 5فروری یکجہتی کشمیر کا دن اس عالم میں منایا جا رہا ہے کہ 5اگست 2019ء کے بھارتی حکومت کے اقدامات کے نتیجے میں ریاست کامسلم تشخص ختم کر دیا گیا، دفعہ 370 اور 35-Aکے خاتمے کے ذریعے ریاست کی وحدت پارہ پارہ ہو چکی۔ریاستی قوانین ختم کر دئیے گئے اور ریاست کے مسلم اور کشمیری تشخص کے خاتمے کے لیے 35-A کے بعد بیس لاکھ غیر ریاستی انتہا پسند ہندوؤں کو ڈومیسائل جاری کر دیے گئے۔ لاکھوں ڈومیسائل مزید پراسیس میں ہیں۔ چار پانچ ملین غیر ریاستی انتہا پسند ہندوؤں کی آباد کاری کے بعد من پسند حلقہ بندیوں کی تشکیل کے بعد انتخابات کراتے ہوئے سرینگر میں ایک ہندو انتہا پسند وزیر اعلیٰ مسند اقتدار پر فائز کیا جائے گا اور اس کے بعد دنیا کو باور کرایا جائے گا کہ مسئلہ کشمیر اب قصہ پارینہ ہے۔اس کے ساتھ کشمیریوں کو قیادت سے محروم کرنے کے لیے تمام حریت قائدین پس دیوار زنداں ہیں۔ بزرگ حریت رہنما جناب سید علی گیلانی سمیت دیگر قائدین جناب محمد یاسین ملک، جناب شبیر احمد شاہ، جناب میر واعظ عمر فاروق، جناب اشرف صحرائی، جناب ڈاکٹر عبدالحمید فیاض امیر جماعت اسلامی جموں و کشمیر، جناب مسرت عالم، محترمہ آسیہ اندرابی اور ان کے شوہر ڈاکٹر قاسم فکتو ہزاروں نوجوان اور انسانی حقوق کے حوالے سے متحرک رہنما، وکلاء اور طلبہ جیلوں اور تعذیب خانوں میں وکلاء، طبی سہولتوں اور عزیز اقارب کی رسائی کی سہولتوں سے محروم بد ترین ریاستی دہشت گردی کا سامنا کر رہے ہیں۔ کشمیریوں کو ذرائع معاش سے محروم کرنے کے لیے ان کے تمام مقامی وسائل سیاحت، کاروبار، دستکاری کی صنعت، پھل، فصلیں اور میوہ جات کو تباہ کر دیا گیا ہے۔
جموں وکشمیربنک جو ریاست جموں و کشمیر کااثاثہ تھا،جس سے ہزاروں کشمیری نوجوانوں کا روز گار وابستہ تھا،کو انڈیا نے مرکزی تحویل میں لے کر ملازمتوں کا ادغام کر دیا ہے، بنکوں سے قرض کی عدم ادائیگی کی بنیاد پر زمینوں پر قبضے کیے جا رہے ہیں۔ ریاست کا پبلک سروس کمیشن قائم کر دیا گیا، پڑھے لکھے نوجوان انٹرنیٹ کی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے بین لااقوامی کمپنیوں سے وابستہ تھے جو فارغ کر دیے گئے۔ بیرون ملک جانے والے ڈاکٹرز،انجینئرز اور پروفیشنلز پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔
بھارت کا ہدف یہی ہے کہ ذرائع معاش سے محروم کشمیریوں کا جذبہ مزاحمت ختم کر دیا جائے۔اس طرح دفاعی ضرورتو ں کے پیش نظر ہزاروں بکر وال جو نسلوں سے جنگلات اور چراہ گاہوں کے متصل آباد تھے،انہیں بے دخل کیا جا رہا ہے۔ دفاعی ضروریات کے بہانے کشمیریوں کی زمینیں،چراہ گاہیں اور سیر گاہیں قبضے میں لی جا رہی ہیں۔ یوں کشمیر ایک ایسا کنٹونمنٹ ہے جہاں بندوق کے سائے میں کشمیریوں کو بھارت اپنی شرائط پر زندہ رہنے پر مجبور کر رہا ہے لیکن اس سارے ظلم،تشدد اور ریاستی دہشت گردی کے باوجود کشمیریوں کے حوصلے کوہ ہمالیہ سے بلند ہیں، وہ سرنڈر کرنے کے لیے تیار نہیں۔ مجاہدین محدود وسائل کے باوجود بھارتی قابض افواج کو چیلنج کر رہے ہیں۔ کرفیو توڑ کر ہزاروں کی تعداد میں مردو زن شہداء کے جنازوں میں شرکت کرتے ہوئے تجدید عہد کرتے ہیں۔ کشمیری شہداء کے جنازوں پر پاکستانی سبز ہلالی پرچم لہرا کر وہ اہل پاکستان کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہے ہیں۔ ان حالات میں یکجہتی کا تقاضا ہے کہ پوری قوم،حکومت اور اپوزیشن داخلی سیاست کو ایک طرف رکھتے ہوئے واضح اور دو ٹوک پیغام دیں کہ وہ اہل کشمیر کی پشت پر ہیں۔ حکومت ان مظالم کو بے نقاب کرنے کے لیے موثر، ہمہ گیر اور جارحانہ خارجہ حکمت عملی وضع کرے۔ایک نائب وزیر خارجہ کا فوکل پرسن کے طور پر تقررکیا جائے۔بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں ہیو مینیٹرین تنظیموں کو متوجہ کیا جائے کہ وہ کشمیریوں کو امداد پہنچائیں۔OICاور اقوام متحدہ کا اجلاس منعقد کرتے ہوئے بھارت پر موثر سفارتی دباؤ بڑھانے کا اہتمام کیا جائے۔
ریاست کی وحدت برقرار رکھتے ہوئے آزاد جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان کو اختیارات و وسائل کے لیے با اختیار بنا کر تحریک آزادی کا حقیقی بیس کیمپ بنایا جائے۔ بیس کیمپ کی وساطت سے حریت کانفرنس اور تارکین وطن کی بین الاقوامی سفارتی کاوشوں کو مربوط کرتے ہوئے کشمیریوں کو اپنا مقدمہ پیش کرنے کا موقع دیا جائے۔حکومت پاکستان ایک فریق کے طور پر کشمیریوں کا حق مزاحمت خود بھی بحال کرے اور بین الاقوامی برادری سے بھی بحال کروائے، نیز کشمیریوں کو اخلاقی،سفارتی حمایت سے آگے بڑھ کر ریلیف، عوامی مزاحمت، سفارتی اور عسکری محاذوں پر بھرپور پشتیبانی کرے۔
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More