جموں کشمیر : پاک و ہند کی مقتدر اشرفیہ کا سیاسی دھندہ ؛ تحرير: محمد پرويز اعوان
برطانوی استعماری ایجنڈا کے تحت بر صغیر کی تقسیم کے بعد ایک متحد رياست جموں کشمیر بھی اس استعماری ایجنڈا سے محفوظ نہ رہ سکی بلکہ سابقہ متحدہ بر صغیر کے منقسم حصوں کے مقتدر طبقہ کیلئے ایک سیاسی دھندہ بن گئی۔
میں چوکہ پاکستان کے زیر تسلط حصہ سے ہوں تو یہاں جو دھندہ ہے حکومتی سطح پر اس پر خیال آرائی کر رہا ہوں ۔ پاکستان کے فوجی حکمران جنرل ایوب صاحب نے اپنی حکومت کو طول دینے سیاسی دباو عوامی مزاحمتی خطرہ کے پیش نظر آپریشن جبرالٹر بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں لانچ کیا اس پر بھارت کی طرف سے باقاعدہ جنگ چھیڑ دی گئی اور سوویت یونین کی مداخلت سے تاشقند معائدہ ہوا اور بڑی جنگ ٹل گئی ۔
اور چونکہ آپریشن جیبرالٹر خفیہ تھا اس کا عوام کو علم نہ تھا بھارت کی طرف سے رد عمل سر عام تھا تو ایوب خان صاحب نے عوام کو تاثر دینے کی کوشش کی کہ ہم نے بھارتی حملہ کو پسپا کردیا گویا جنرل صاحب نے خود کو ہیرو منوانے کی کوشش کی چورن تھا کشمیر اسی دوران ذولفقار علی بھٹو نے موقع محل کو بھانپتے ہوے سیاسی ڈیڈی کے تاشقند مائدہ سے اختلاف کرتے ہوے وزارت خارجہ سے مستعفی ہو کر نعرہ مستانہ بلند کیا کہ تاشقند مائدہ میں کشمیر فروخت کر دیا گیا اور سٹیبلشمنٹ جو ایوب خان سے جان چھڑانا چاہتی تھی اور عوامی جمہوری انقلاب کا خطرہ تو تھا ہی پاکستان نیشنل عوامی پارٹی شیخ مجیب فاطمہ جناح اتحاد کی صورت تو بھٹو صاحب نیا مہرہ بن کر ابھرے اور کنگ پارٹی پیپلز پارٹی بنائی گئی اور ایوب خان خود اقتدار سے الگ ہو گیا اقتدار یحییٰ خان کو سونپ کر اسی دور میں پہلے انتخابات کا فیصلہ ہوا اور بھٹو صاحب نے کشمیر چورن خوب بیچا اور دوسری بڑی منتخب پارٹی بن کر ابھرے ۔ پاکستان نیپ پر پابندی لگ چکی تھی انقلاب برپا نہ ہوا مگر انتخابی معرکہ عوامی لیگ نے مار لیا
مگر مقتدر اشرافیہ نے اقتدار محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت یافتہ عوامی لیگ کو منتقل نہ کیا گیا بلکہ مشرقی پاکستان جہاں سے عوامی لیگ بھاری اکثریت سے جیتی تھی وہاں فوجی کاروائی ڈال دی گئی جہاں عوام نے مزاحمت کا راستہ اپنا لیا ۔
بھارت نے بھی اس عوامی مزاحمت کو سپورٹ کیا ویسے تو پاکستانی جاگیر دارانہ حکمران اشرافیہ تو بنگال کو پاکستان سے جدا رکھنے کی پہلے ہی خواہشمند تھی اس کا وہ عوام میں اظہار نہیں کر سکتی تھی تو یہاں کام ہی سیدھا ہو گیا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا یوں پاکستان بنانے والی اکثریت نے اقلیت سے اعلحدگی اختیار کی ۔ نوے ہزار فوج قید ہوئی تو شملہ معاہدہ بھی کشمیر چورن پر کیا گیا اور فوج آزاد کروائی گئی ۔بھٹو صاحب نے عوام کی توجہ حاصل کرنے ملک ٹوٹنے کے اثرات کو کم کرنے کیلئے اپنے کیے شملہ سمجھوتے کے بر خلاف ایک بار پھر کشمیر چورن سیاسی منڈی میں پھینکا ۔ایک ہزار سال تک اس چورن کو بیچنے کا نعرہ بلند کیا جو آجتک ان کے مریدین بیچ رہے ہیں
کیوں نہ بیچیں ایک ہزار سال کا پروجیکٹ ہے پھر بھٹو مخالف بھی یہی چورن بیچا گیا شملہ سمجھوتے کو لیکر کہ کشمیر بیچ دیا گیا پھر جنرل ضیا الحق نے آخری دور میں اس چورن کو مارکیٹ میں لایا مگر وہ اپنے ہی آقا امریکہ کے نشانے پر تھے زیادہ عرصہ زندہ رہ کر یہ چورن نہ بیچ سکے مگر ان کے پیش رو اور کچھ سہولت کار روڈ پتی کروڑ پتی ضرور بن گئے اس چورن کے کاروبار سے اس کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو نے اقتدار حاصل کیا تو راجیو گاندھی کے اسلام آباد آمد پر کشمیر سے متعلقہ سائن بورڈ ہٹاے جانے ان کے مخالفوں نے اس چورن کو مارکیٹ میں لایا
پھر نواز شریف صاحب آ گئے ان کے مخالفوں نے بھی کارگل ایڈوینچر
سے جو ان کی مرضی سے نہیں ہوا تھا نکلنے پر شدید تنقید کا سامنا کیا۔ اس بار چورن کشمیر ہی تھا کہ ہم سری نگر فتح کرنے ہی والے تھے نواز شریف نے سودا کر لیا کوئی پوچھے جب نواز شریف سے پوچھے بغیر آپریشن شروع کیا تو اس کے کہنے پر ختم کیوں کیا ؟
پھر مشرف صاحب اقتدار کے سینگهاسن پر آ گئے انہوں نے بھی کشمیر چورن اچھا بیچا ۔ پھر ان کے مخالف قوتوں نے حریت کانفرنس کو توڑ کر کشمیر كاز کو نقصان پہنچانے چورن مارکیٹ میں لایا گیا اور کافی کامیاب رہا پھر پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی اپوزیشن ہلکا پھلکا آزادی کشمیر چورن بیچتی رہی مگر شدت سے نہیں بیچا ۔ پھر نواز شریف آ گئے ان کے خلاف بھی ہلکا پھلکا چورن بکتا رہا غدار قرار دیے جانے لگے مودی کا یار وغیرہ ۔ پھر عمران خان حکومت میں آے انہوں نے کشمیر چورن سیاسی منڈی میں بیچ کر اقتدار تو حاصل نہ کیا مگر حکمران بننے کے بعد سفیر کشمیر چورن مارکیٹ میں لانچ کیا ۔
دوسری طرف اپوزیشن نے عمران خان کشمیر فروش چورن مارکیٹ میں لے آئی ہے کس کا زیادہ بکے گا یہ آنے والا وقت ہی بتاے گا ۔ البتہ یوم یکجہتی کشمیر چورن کا اپوزیشن نے مظفر آباد اور حکومت نے کوٹلی میں بازار سجایا دونوں نے اپنے اپنے عقیدت مندوں کو خوب بیچا کیوں کہ تھوڑے ہی عرصہ بعد پاکستان کے زیر تسلط جموں کشمیر میں کنٹرولڈ الیکشن ہوں گے ۔اسلام آباد میں اگر پی ٹی آئی حکومت اصل حکمرانوں کی حمایت کے ساتھ رہی تو وہاں بھی حسب روایت اسلام آباد کی حکمران جماعت مظفر آباد کی لولی لنگڑی حکومت بنا لے گی
مگر جموں کشمیر کے عوام ہی نہیں پاکستان کے کروڑوں اور بھارت کے ڈیڑھ ارب کے قریب محنت کش اس مسلہ کشمیر چورن کے زہر کے زیر اثر کب تک رہتے ہیں کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More