آہ! مير افضال سلہريا! ايک روشن ستارہ ڈوب گيا؛ تحرير: توقير گيلانی
زندگی غموں اور خوشیوں کی ملی جلی کہانی ہے ۔ لیکن کبھی کبھار کوئی غم یا کوئی خوشی اپنے حجم میں اتنی بڑی ہوتی ہے کہ اس کا بار سہنا مشکل ہوتا ہے۔
میر افضال سلہریا کی بے وقت موت اپنے حجم میں ایک ایسا بڑا غم ہے جس نے شدید گھائل کیا ہے۔ یہ غم اپنے حجم میں بے شمار کمیاں سمیٹے ہوئے ہے اور ہر کمی ایک مکمل کمی کی صورت نظر آتی ہے۔ ایک بہترین دوست ، چھوٹے بھائی جیسا خدمت گزار ، معاون، مؤدب ،صاحب الرائے ، فرمانبردار، بہترین کامریڈ، بہادر ، حق پرست، آزادی پسند، عوام دوست ، تحریکی اور نظریاتی پختگی کا نمونہ، بہترین جوان لیڈر، تربیت یافتہ سیاسی وسماجی کارکن، صحافی ، مظفرآباد میں ہر آزادی پسند کا میزبان، خوش شکل ، خوش گفتار وخوش اخلاق و باکردار شخصیت کا حامل یہ جوان ایسے اچانک روٹھ گیا کہ اپنے دوستوں کو شدید دکھ اور گہرےاحساس محرومی میں مبتلا کر گیا۔ کیا یہ دکھ فوری طور پر گھائل کر دینے والا نہیں کہ جموں کشمیر کی منقسم ، محکوم و مظلوم ریاست کے عوام کی آزادی اور حقوق کی جدوجہد کی ایک روشن تر مشعل بجھ گئی اور مظفرآباد کی گلیوں میں گونجنے والی ایک آزاد اور بلند تر آواز مر گئی ؟ کیا یہ تکلیف کم ہے کہ جدوجہد آزادی کے گلشن کا ایک جوان ہرا بھرا اور پھلدار شجر موت کی بے رحم آری کی زد میں آ گیا ؟ کیا اس کرب سے چھٹکارا ممکن ہے کہ محکوم ریاست میں مظفرآباد جیسی اہم جگہ پر ایک نظریاتی اور تحریکی ہم خیال و ہم نشین و ہمسفر دوست اور بھائی کے مضبوط اور محافظ بازو اب دستیاب نہیں رہے ؟ اور کیا میرے لیے یہ جگر پاش تصور کم مہلک ہے کہ اب میرا یار ، میرا بھائی ، میرا دوست میر افضال سلہریا ملنے نہیں آئے گا ، فون پر بات نہیں ہو گی، مشاورت نہیں ملے گی ، اس سے مسکراہٹ بھری جپھی اور شرارت بھرے جملوں کا تبادلہ نہیں ہو سکے گا ، مستقبل کے لائحہ عمل پر مشورے نہیں ہو سکیں گے اور مظفرآباد جاتے ہوئے افضال کی موجودگی کے واحد اطمینان بخش اور تسلی آمیز تصور سے ہمیشہ کیلئے محروم ہونا پڑے گا؟؟؟؟
میر افضال سلہریا اپنے اہل خانہ کی امیدوں کا محور اور آنکھوں کا تارہ بھی تھا اور مظفرآباد میں ہم نظریاتی و تحریکی دوستوں کا واحد سہارا بھی۔ یہ سہارا ہم سے چھن گیا اور یہ روشن تارہ ڈوب گیا۔
نا امیدی کی دھند میں لپٹی واحد امید ہے تو یہی کہ اس کے نقش پا اتنے گہرے ضرور ہیں کہ نوجوان نسل کیلئے منزل کے رستے کی نشاندھی و راہنمائی کا کام ضرور کریں گے ۔ وہ جسمانی طور پر اوجھل ضرور رہے گا لیکن اس کا انقلابی کارواں دوران مسافت اس کی بہادری اور حب الوطنی کی داستانیں سناتا ہوا آگے بڑھے گا ۔ اس کے ادھورے خواب آنے والے پرے کے نوجوان دیکھیں گے اور ان خوبصورت خوابوں کی تعبیر کی تلاش میں سرگرداں رہینگے ۔
میر افضال سلہریا ! تم زندگی کے دکھ سکھ سے بے نیاز ، ابدی اور دائمی امن میں آرام کرو اور ہماری یادوں کو اپنی موجودگی سے مہکاتے رہو تا وقتیکہ زندگی ہمیں تمھارے وصل سے ہم کنار و سرشار کرنے کیلیے روح کل سے ملانے کے سفر پر روانہ نہ کر دے۔
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More