Main Menu

ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات؛ تحرير: بیرسٹر حمید باشانی

Spread the love

آج تک کی انسانی تاریخ طبقاتی جہدوجہد کی تاریخ ہے۔ آزاد اورغلام، اعلی طبقے اور ادنی طبقے ، مالکان اور خانہ زادغلام، دستکار اور آقا یعنی دوسرے الفاظ میں ظالم و مظلوم طبقات تاریخ کے ہر دور میں ایک دوسرے کے خلاف مستقل طور پر کھڑے رہے۔ یہ لوگ ایک دوسرے کے خلاف مسلسل ایک خفیہ اور کھلی لڑائی لڑتے رہے۔ اس لڑائی کا خاتمہ ہر دفعہ یا تو سماج کی انقلابی تنظیم نو میں ہوا یا دعوےدار طبقات کی مشترکہ بربادی پر ہوا۔ یہ اس پیغام کا مفہوم ہے، جو کارل مارکس اور فیڈرک انگلس نے اپنی مشہورتخلیق کمیونسٹ مینی فیسٹو میں دیا۔ اس منشور کو دنیا کی سب سے زیادہ با اثرسیاسی دستاویز قرار دیا جاتا ہے۔ پیٹر آسبارن جیسے دانشور نے اس دستاویز کو انیسویں صدی کی سب سے اہم ترین تحریر قرار دیا ہے۔ کچھ دانشور اسے اکیسویں صدی کا منشور بھی قرار دیتے ہیں۔ اتفاق یا اختلاف اپنی جگہ ،لیکن اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ اس تحریر کو ان محدودے چند سیاسی دستاویزات میں شامل کیا جاتا ہے، جن کو پوری دنیا میں کثرت سے پڑھا جاتا ہے۔ “زووم ریڈنگ روم” کی گزشتہ مطلعاتی نشست میں ہم نے سیاسی تاریخ کی اس اہم ترین دستاویز پرگفتگو کی ہے۔

کمیونسٹ منشور ابتدائی طور پر اٹھارہ سو اڑتالیس اور اٹھارہ سو انچاس کے ہنگامہ خیز سالوں میں شائع ہوا تھا ۔ اس وقت پورے یورپ کے اند ر زیادہ جمہوری اور نمائندہ اداروں کے قیام کی بات ہو رہی تھی۔ یورپ کے بیشتر ملکوں میں قدیم اشرافیہ اور مطلق لعنان آمرانہ حکومتوں کے خلاف آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ یہ وقت تھا جب اٹھارہویں صدی کے آخر اور انیسویں صدی کے اوائل کے صنعتی انقلاب نے پیداوار ، نقل و حمل اور مواصلات میں ناقابل یقین پیشرفت شروع کر رکھی تھی ۔ لیکن اس صنعتی انقلاب کے بطن سے جنم لینے والے نئے حالات نے مزدور طبقے کے لئے بھی کام کرنے کے خوفناک حالات پیدا کردیئے تھے۔ ابھی تک مزدور طبقات کے حقوق کو تسلیم کرنے اور ان طبقات کے حقوق کے تحفظ کا کوئی باقاعدہ نظام سامنے نہیں آیا تھا۔ ان حالات میں یورپ کےمرد ، خواتین اور بچے خطرناک حالات میں محنت مزدوری کرنے پر مجبور تھے۔ بڑے تلخ ہیں بندہ مزدور کے اوقات کے مصداق ان کے اوقات کار بہت طویل، کام بہت پر مشقت اور معاوضے بہت غیر منصفانہ اور حقیر تھے۔

ان تلخ اور ناگفتہ بہہ حالات کے جواب میں نئے سرمایہ دار طبقے کے استحصال کے خلاف جگہ جگہ سوشلسٹ اور اصلاح پسند تحریکیں بھی ابھرنا شروع ہو رہی تھیں۔ اس نئے سرمایہ دار طبقے کو جو صنعتی انقلاب کے نتیجے میں ابھرا ” بورژوازی “کا نام دیا گیا تھا۔ اس عہد میں سرمایہ دار طبقے کی مزاحمت کے لیے کئی نئی تحریکیں ابھریں۔ کارکنوں کی نت نئی تنظیمیں سامنے آئیں۔ کام کرنے والے اور مزدور پیشہ لوگوں کی ایسی ہی ایک تنظیم کمیونسٹ لیگ بھی تھی۔ اس تنظیم نے اس وقت کے مشہور جرمن فلسفیوں کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز سے کمیونسٹ منشور لکھنے کی درخواست کی۔ اس درخواست کے جواب میں کمیونسٹ منشور لکھا گیا۔ اس منشور کے بنیادی مصنف کارل مارکس تھے ۔ جبکہ ان کے ساتھی اینگلس نے متن میں کچھ ترامیم تجویز کیں ۔ یہ منشور جرمن زبان میں لکھا گیا تھا،اور ابتدائی طور پر لندن میں 1848 میں شائع ہوا ۔ اس منشور کے اندر مارکس اور انگلس نے یورپی سوشلسٹوں کے لئے جہدو جہد کے رہنما اصول وضح کیے۔ انہوں نے اس مقصد کے لیے ایک ایسی تحریر پیش کی جو دنیا بھر میں “کمیونسٹ مینی فسٹو” کے نام سے مشہور ہوئی اور پوری دنیا میں کمیونسٹوں نے اس منشورکو اپنی جدوجہد کے لئے ایک رہنما دستاویز کے طور پر استعمال کیا۔

اس منشور نے 19 ویں صدی کے محنت کش طبقے کی جدوجہد کو انسانی تہذیب کے تاریخی تناظر میں پیش کیا۔ اس دستاویز میں محنت کش طبقے کی آزادی کا ایک باقاعدہ پلان پیش کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ تاریخ کے مطالعے اور اس کو سمجھنے کا ایک نیا طریقہ تجویز کیا گیا۔ مصنفین نے اس بات پر زور دیا کہ طبقاتی جدوجہد یہ سمجھنے کی بنیاد ہے کہ انسانی سماج کیسے کام کرتا ہے۔ تاریخی طور پر عموماایک مضبوط اقلیت نے ہمیشہ ایک کمزور اقلیت پر ظلم کیا ہے ۔ لیکن جلد ہی مزدور طبقہ جسے “پرولتاریہ” کا نام دیا گیا انقلاب کے ذریعہ سرمایہ دار طبقے کو شکست دے گا ۔ یہ انقلاب بلاخرطبقات کو مٹا کر دنیا میں ایک غیر طبقاتی سماج کے قیام کا موجب بنے گا۔

اس انقلابی منشور کاحصہ اول “بورژوا اور پرولتاریہ” معاشرے کی مجموعی جائزہ پیش کرتا ہے۔ منشور کا یہ سب سے طویل اور مضبوط حصہ ہے۔ یہ تاریخ کی ترقی پسند فطرت کے بارے میں مارکس کے نظریہ کو متعارف کراتا ہے۔ یہ سرمایہ دار اور مزدور طبقے کے درمیان رشتے پر روشنی ڈالتا ہے۔ اس منشور کا دوسرا حصہ اشتراکی نظریے پر اٹھائے گئے اعتراضات اور تنقید کے خلاف کمیونزم کا دفاع کرتا ہے ۔ یہ سوشلزم پرعامیانہ قسم کی تنقید اور اعتراضات تھے، جو گاہے اب بھی اٹھائے جاتے ہیں۔ ان اعتراضات کانشانہ عام طور پر اوسط درجے کے زہن رہے ہیں، جو فلسفے، سماجیات اور معاشیات کے پچیدہ علوم سے زیادہ واقف نہیں۔ حقائق سے متصادم ان عامیانہ اعتراضات میں ایک یہ تھاکہ اشتراکیت سماج میں سستی کو فروغ دیتی ہے۔ یا پھر کمیونزم انفرادیت اور آزادی کو ختم کرتا ہے ۔ اشتراکیت معاشرتی سطح پرخواتین اور خاندان کے لئے نقصان دہ ہے۔ ان اعتراضات کے مدلل اور واضح جواب دیے گئے ہیں۔ اس منشور کا تیسراحصہ سوشلسٹ اور کمیونسٹ ادب پر بحث کرتا ہے۔ یہ وہ حصہ ہے جس کی جڑیں سب سے زیادہ مارکس اور اینگلز کے وقت کی سیاسی صورتحال میں پیوست ہیں۔ اس میں حریف سوشلسٹ یا اشتراکی تحریکوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اور یہ واضح کیا جاتا کہ وہ مارکسزم کیوں ان سے بہتر ہے۔ منشور کا چوتھاحصہ مختلف اپوزیشن جماعتوں کے مقابل مارکسی پوزیشن کو واضح کرتا ہے۔ منشور میں کارل مارکس نے یہ معرکتہ الارا فقرہ لکھا کہ یورپ پر ایک عفریت منڈلا رہا ہے۔ کمیونزم کا عفریت۔ قدیم یورپ کی تمام طاقتیں اس عفریت سے بچنے کے لیے یکجا ہو گئی ہیں۔ ان میں پوپ، زار، فرانسیسی بنیاد پرست اور جرمن پولیس کے جاسوس سمیت میٹرینچ اور گائزوٹ شامل ہیں۔ اسطرح یورپی طاقتوں نے کمیونزم کی طاقت کا اعتراف کیا ہے۔ اور اب وقت گیا ہے کہ کمیونسٹ پوری دنیا کے سامنے کھل کر اپنے خیالات، رحجانات اور مقاصد کو شائع کریں۔ یہ منشور آگے چل کر دنیا میں کئی ایک انقلابات کا موجب بنا۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد مشرقی یورپ ، ایشیا اور لاطینی امریکہ میں کئی ایک ممالک میں اس منشور کی بنیاد پر کئی ایک سوشلسٹ نقلاب پھوٹ پڑے۔ آگے چل کر کئی ایک ملکوں میں قومی جمہوری اور عوامی جمہوری انقلاب کی وجہ بھی یہی دستاویز رہی ہے۔ یہ دستاویز پاکستان جیسی قدامت پرست سماج میں بھی پڑھی جاتی رہی، اس پر مباحثے بھی ہوتے رہے، مگر یہ دستاویز یہاں کسی بڑی سماجی یا فکری تبدیلی کا باعث نہ بن سکی۔ پاکستان میں سوشلزم کا ڈھنڈورا تو بہت پیٹا گیا، مگر اس کی فکری اور علمی بنیادوں کے سنجیدہ مطعالے کی کوشش نہیں کی گئی۔ زولفقار علی بھٹو جیسی کرشماتی شخصیات نے بھی اپنی پارٹی کے منشور میں سوشلزم کو اپنی معشیت قرار دینے کےباوجود عوام کو کبھی یہ بتانے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ سوشلزم آخر ہے کیا، اور یہ ہمارے سماج میں کس قسم کی تبدیلیاں لا سکتا ہے۔ موجودہ حکومت بھی سوشلزم کا نام لیے بغیر تبدیلی اور سماجی و معاشی مساوات کی بات کرتی ہے، اور اعلان کرتی ہے کہ ہمارے لیے چین کا نظام سب سے بہتر ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ چین کی تیزرفتار ترقی کا راز بھی انیس سو انچاس کا سوشلسٹ انقلاب ہی ہے۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *