Main Menu

دُنيا کا کُتا ! تحرير: عنايت اللہ خان

Spread the love

اللہ جس شخص کو علم کی دولت دیتا ہے اگر وہ اس نعمت سے خیر تقسیم نہیں کرتا اور پابندی سے نکل بھاگتا ہے تو شیطان کے حصار میں آ جاتا ہے یہاں تک کہ وہ بھٹکنے والوں میں شامل ہو جاتا ہے۔اگر وہ چاہتا تو علم کی روشنی سے بلندی پر پہنچ سکتا تھا مگر شیطان اسے زمین ہی کی طرف جھکنے پر مجبور رکھ کر اپنی خواہشات نفس کے پیچھے لگا دیتا ہے ۔یہاں تک کہ اس کی حالت اس کتے کی سی ہو جاتی ہے جس پر آپ حملہ کریں تب بھی زبان لٹکاتا ہےاور اسے چھوڑ دیں تب بھی اس کی زبان لڑکی رہتی ہے۔قرآن میں اللہ نے ایسی مثال ان لوگوں کی دی جو اللہ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں۔

اللہ کی آیات کا علم رکھنے والا شخص اس رویہ سے بچتا ہے جس کو وہ غلط سمجھتا ہے اور اس طرزِ عمل کو اختیار کرتا جو اسے معلوم ہوتا ہے کی صحیح ہے۔اسی صحیح عمل جو علم کے مطابق ہوتا ہے کی بدولت اللہ تعالیٰ اس کو انسانیت کے بلند مراتب پر ترقی عطا کرتا ہے۔لیکن یہی انسان جب دنیا کے فائدوں،لذتوں اور آرائشوں کی طرف جھک پڑتا ہے،خواہشات نفس کے تقاضوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے ان کے آگے ڈھیر ہو جاتا ہے،مالی حرص و طمع سے ایسا مغلوب ہو جاتا ہے کہ اپنے اونچے ارادوں اور اپنی عقلی و اخلاقی ترقی کے سارے امکانات کو طلاق دے بیٹھتا ہے اور ان تمام حدود کو توڑ کر نکل بھاگے جن کی نگہداشت کا تقاضا خود اس کا علم کر رہا تھا ۔پھر جب وہ محض اپنی اخلاقی کمزوری کی بنا پر جانتے بوجھتے حق سے منہ موڑ کر بھاگ جائے اور پھر شیطان جو قریب ہی اس کی گھات میں لگا ہوا ہوتا ہے اس کے پیچھے لگ جاتا اسے ایک پستی سے دوسری اور دوسری سے تیسری پستی کی طرف لے جاتا ہے یہاں تک کہ شیطان اسے ان لوگوں کے زمرے میں لا کھڑا کرتا ہے جو اس کے جال میں پھنس کر اپنی متاعِ عقل و ہوش گم کر چکے ہوتے ہیں۔
اس کے بعد اللہ تعالٰی اس شخص کی حالت کو کتے سے تشبیہ دیتا ہے جس کی ہر وقت لٹکی ہوئی زبان ایک نہ بجھنے والی آتش حرص اور کبھی نہ سیر ہونے والی نیت کا پتہ دیتی ہے۔ایسا شخص جو دنیا کی حرص میں اندھا ہو رہا ہو اسے “دنیا کا کتا” کہتے ہیں جس کی جبلت میں حرص ہے ۔جو چلتے پھرتے اس کی ناک زمین سونگھنے میں ہی لگی رہتی ہے کہ شاید کہیں سے بوئے طعام آ جائے۔اسے پھتر ماریے تب بھی اس کی یہ توقع دور نہیں ہوتی کہ شاید پھینکی گی چیز ہڈی یا روٹی کا ٹکڑا ہے۔
پیٹ کا بندہ ایک دفعہ تو لپک کر اس کو بھی دانتوں سے پکڑ ہی لیتا ہے۔اس سے بے رخی کیجیے تب بھی وہ لالچ کا مارا توقعات کی ایک دنیا دل میں لیے زبان لٹکائے،ہانپتا کانپتا کھڑا ہی رہے گا۔ساری دنیا کو پیٹ کی نگاہ سے دیکھتا ہے،کہیں کسی جانور کی بڑی سی لاش پڑی ہو جو کئی کتوں کے کھانے کے لیے کافی ہو اپنے حصہ پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ پوری لاش قبضے میں لے کر دوسرے کتوں کو بھاگانے کی کوشش کرتا ہے۔اس شہوت شکم کے بعد اگر کوئی چیز اس پر غالب ہے تو اس کی شرمگاہ ہی وہ چیز جس سے وہ دلچسپی رکھتا ہے اور اس کو سونگھنے اور چاٹنے میں مشغول رہتا ہے۔

آج کا لبرل،ماڈریٹ اور سیکولر سب ہی ڈالرز کی بو سونگھنے میں لگے ہوئے ہیں ۔شہوت شکم نے اندھا کر دیا ہر اس انسان کو جس نے علم کے مطابق اپنی زندگی سنوارنے کی فکر نہیں کی اور اپنے نفس کو شیطان کے حوالے کر دیا۔مسلمان کوئ دم کٹی قوم نہیں ،اللہ کے فضل سے ہم مسلمان ہیں قرآن جیسی بے مثال کتاب ہمارے پاس موجود ہے،محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا اسوہ حسنہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے اور اسلام جیسا مکمل دین ہمارا سرمایہ ہے۔اگر ہم نے اس کے مطابق دنیا میں کام کیا ہوتا تو آج ہم چین و امریکہ کی ترقی کی مثالیں نہ پیش کرتے ۔علم کا ماخذ قرآن وحدیث ہے اسی علم کے ذریعے ہم باوقار زندگی بسر کر سکتے ہیں۔

دنیا پرست آدمی جب علم اور ایمان کی رسی توڑ کر بھاگتا ہے تو نفس کی اندھی خواہشات کے ہاتھ میں اپنی باگیں دیے دیتا ہے تو کتے کی حالت کو پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا، جوہمہ تن پیٹ ہمہ تن شرمگاہ۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *