طبقاتی سوال قومی سوال سے جُڑا ہوا ہے ؛ تحرير: زوہيب عارف
ايک کامریڈ کی ایک تحریر نظر سے گزری جس میں انھوں نے بہت سفاکانہ طریقہ سے محکوم قوم کی قومی آزادی کو فرسودہ قرار دیتے ہوے آٹے کے مسئلے کو صرف طبقاتی مسئلہ قرار دے کر بالادست قوم کی حمایت میں لمبی چوڑی تحریر لکھ دی تاکہ طبقاتی مسئلہ کی بنیاد پر محکوم ریاستیں بالادست ریاستوں کی نوآبادیاتی اس وقت تک ہو جب تک بالادست ریاست یا بالادست قوم میں کوئی غیر طبقاتی بنیادوں پر انقلاب نہیں برپا ہو جاتا اور محکوم قوموں کے حقوق کی جنگ کو انھوں نے فرسودہ نظریات قرار دے کر پاکستان کے پنجابی ملٹری اسٹبلشمنٹ کے حق میں نام نہاد قسم کی نظریاتی وضاحت دی جو کسی نہ کسی اینگل سے جا کر اس اسٹیبلشمنٹ کے چرنے میں گرتی ہے جس نے نہ صرف ریاست جموں کشمیر کو بلکہ دیگر بلوچ سندھ اور خیبر پختونخواہ کے حقوق پر بھی قبضہ کر کے ان کی نہ صرف اربوں کی مالیت بلکہ لاکھوں جانیں بھی لے چکی لیکن موصوف کو آٹے کی ایک دو اضلاع میں موجود تحریک کو طبقاتی قرار کر تمام قومی تحریکوں کی نفی کر دی ان کو شاید یہ نہیں معلوم کہ طبقاتی سوال ہمیشہ قومی سوال سے جڑا ہوتا ہے اور انکے مابین ایک جدلیاتی تعلق ہوتا ہے۔۔جہاں بھی قومی سوال کو کنارے پر رکھ کر طبقاتی سوال کو پرکھا جاتا ہے وہ ناگزیر طور پر سامراج کے حق میں جھوٹی دلیل پیش کرتا ہوتا ہے یاسر ارشاد صاحب کو شاید یہ نہیں معلوم کے پاکستان میں آے روز سینکڑوں چیزیں مہنگی ہو رہی ہیں عوام کو غصہ تو آتا ہے لیکن اس اظہار اس لیے نہیں کرتے کہ یہ تمام چیزیں پاکستان میں بھی مہنگی ہیں پہلی بار عوام کو جب یہ معلوم پڑا کہ واحد آٹا ایک ایسی چیز ہے جو ہمیں پاکستان سے بھی زیادہ مہنگا ملتا ہے تو عوام کا غم و غصہ کمرے میں بند نہیں رہ سکا بلکہ اس کا اظہار انھوں نے قومی بنیادوں پر کیا کہ غاصب ریاست میں آٹے کی قیمت اگر اس خطے سے کم ہے تو ہمیں ہمارا حق برابری کی بنیاد پر دیا جاے اور ساتھ یہ ڈیمانڈ کی گئ کہ اگر وزیراعظم آزاد کشمیر کو پاکستان برابری کی بنیاد پر ریاست کا حق نہیں دیتا تو وہ بھی ہمارے ساتھ آ کر کھڑا ہو جاۓ یہ سوال یہاں طبقاتی نہیں بلکہ قومی تھا جو طبقاتی سوال سے جڑا تھا اور فاروق حیدر نے عوام کو ساتھ یہ جواب دیا کہ 15 ارب کی کٹ لگائی گئ اگر حکومت پاکستان وہ دے دیتا ہے تو آٹا سستا ہو جاۓ گا یعنی ریاست کے سربراہ کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ وہ اس کو سستا کر سکے بلکہ وہ مکمل بے اختیار ہے۔
موصوف کا یہ بھی دعوی ہے کہ قومی بنیادوں پر اس خطے کی عوام نے اس طرح کبھی غم و غصے کا اظہار نہیں کیا تو شاید انکی یاداشت اتنی کمزور ہو چکی ہے کہ وہ ایک سال پرانی تحریکوں کو بھول چکے 7 ستمبر کو پی این اے کے بننے کے فورا بعد 20 سے 25 ہزار کے لگ بھگ عوام کسی طبقاتی مسئلہ پر نہیں کسی آٹے کے مسئلہ پر نہیں کسی روٹی کے مسئلہ پر نہیں بلکہ صرف ریاست جموں کشمیر کے مسئلہ پر نکلی اور انکی ایک ہی دیمانڈ تھی کہ ریاست جموں کشمیر کو بااختیار بنایا جاۓ ہماری پہچان ہماری تاریخ ہم سے نہ چھینی جاۓ پھر 4 اکتوبر کی تحریک بھی ریاست جموں کشمیر پر بالادست غاصب فورسز کے خلاف ہزاروں کی تعداد میں عوام ہی نکلی تھی وہ کوئی بھیڑ بکریاں نہیں بلکہ اس خطے کے باشعور باشندے تھے البتہ یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ 7 ستمبر اور 4 اکتوبر کی کالز نے اصل موومنٹ جو اکیس کو نکلنے والی تھی کو ضائع کیا اکیس اکتوبر کو اگرچہ عوام کی بڑی تعداد نہیں تھی لیکن اس کی ضرب جا کر سیدھی جی ایچ کیو پر ضرور لگی تھی جس کا خوف اسلام اباد اور پنڈی کے ایوانوں میں گونج رہا تھا اور تمام بین الاقوامی میڈیا یہاں پہنچ چکا تھا جو اس سے پہلے کبھی نہیں پہنچا اسکے بعد ہی یہ خطہ اس کا مرکز بنا اور نہ صرف اس خطے بلکہ پاکستان سے لیکر ریاست جموں کشمیر کے دیگر خطوں سے بھی اس موومنٹ کےلیے آوازیں اٹھی لیکن اس تحریک کے اندر بھی قومی ازادی کو رد کرنے والے کہیں نام نہاد انقلابیوں نے مثبت کرادر نہیں دیا اور آخر تک اپنی منافقت کرتے رہیں یاسر ارشاد صاحب کا مزید کہنا تھا کہ پولیس کا تشدد اکیس اکتوبر کا جو ہوا وہ ازاد کشمیر پولیس نے کیا جو کہ قومی نہیں بلکہ طبقاتی مسئلہ ہے لیکن موصوف کو یہ نہیں معلوم کہ آئی جی اس خطے کا نہیں ہوتا بلکہ پاکستان سے نہ صرف آئی جی بلکہ سیکرٹری مالیات، چیف سیکرٹری و دیگر لینٹ افسران مسلط کئے جاتے ہیں جن کی ڈور اسلام آباد اور پنڈی سے ہلائی جاتی ہے ان عہدوں پر کوئی کشمیری بیٹھ ہی نہیں سکتا جناب کا کہنا ہے کہ موجودہ آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف تحریک اس خطے کی کامیاب تحریک ہے جس کو بہترین عوامی قیادت ملی جبکہ دیکھا جاے تو اس تحریک کا فائدہ پاکستان کی پی ٹی آئی کو ملا جو فاروق حیدر کے خلاف بقول یاسر صاحب کے اس عظیم انقلابی قیادت کے ساتھ لیڈ کر رہیں تھے باغ سے لیکر راولاکوٹ تک پی ٹی آئی اور دیگر ن لیگ کی اپوزیشن اس کو ہر فیصلہ سازی سے لیکر زائل کرنے تک مکمل کردار ادا کر رہیں تھے اور اسکے مرکزی کورڈنیٹر ان کو فلو کرتے رہیں اور انکے مشورے سے پلان بناتے رہیں جن کی ڈور انتظامیہ سے انتظامیہ کی ڈریکٹ جی ایچ کیو سے ملی تھی۔
خیر اتنا لمبا کچھ تو نہیں لکھ سکتا بس اتنا ضرور کہونگا کہ جو قومی ازادی کو رد کرتے ہیں وہ ڈریکلٹلی یا ان ڈریکٹلی غاصب کے آلہ کار ہوتے ہیں اور غاصب کے حق میں کسی نا کسی شکل میں نام نہاد نظریاتی دلیل دینے کی کوشش کرتے ہوتے ہیں کسی بھی ریاست پر کسی ریاست کا قبضہ ہو تو دنیا کی کوئی دلیل محکوم ریاست پر بیرونی غاصب ریاست کے قبضے کو جائز نہیں قرار دے سکتی اور کسی بھی قوم پر دوسری قوم کی بالادستی ہو تو دنیا کی کوئی دلیل بھی اس قوم کی بالادستی کو جائز نہیں قرار دے سکتی اگر کوئی بھی ایک بالادستی کو رد کر کے دوسری کی دلیل پیش کر رہا ہے تو یقین کریں وہ نظریاتی منافقت کر رہا ہے وہ کسی نا کسی شکل میں بالادست کا آلہ کار اور بالادستی کو سپورٹ کر رہا ہوتا ہے۔
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More