اپنے مُلک کی آزادی کے خود دُشمن؛ تحرير: اسحاق شريف
عذاب کشمیر کے لوگ 1947 میں اپنے پڑوسی ہندو سکھوں کے بچوں عورتوں کی قتل غارت گہری پر خوب جشن بنا کر اس کو جہاد افضل قرار دیتے ہیں ، اپنا تاریخی ملک توڑ کر اس کو آزادی کہتے ہیں ۔
کراۓ کے قاتلوں چوروں ڈاکوں حملہ اوروں فوجیوں کے خوب گیت گاتے ہیں ، اپنی غلامی پر جم کر ناز کرتے ہیں ، ملک بنانے والوں کو قاتل غدار بولتے ہیں ، ملک توڑنے والوں کو غازی ملت اور مجائد اول بولتے ہیں ۔
اپنی تاریخ مٹا کر غیروں کی تاریخ اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں ، بارہ ہزار مربع میل میں سینکڑوں تنظیمیں بنا کر ان کے خود ساختہ چیرمین بنتے ہیں اور تاحیات اس کے چیرمین رہتے ہیں ، کسی دوسرے کو اس کے نزدیک نہیں انے دیتے ، کوئی آ جائے تو وہ خود ساختہ تنظیم کا دشمن اور انڈیا کا اہجینٹ ہو جاتا ھے ، لیکن ان کو ریاست میں کوئی نہیں جانتا ، یہ خود تاریخ کے سب سے بڑے ڈکٹیٹر اور آٹو کریٹ ہیں ، ان جہادی نما تنظیموں کے فیصلے ہمارے پاس آج بھی محفوظ ہیں کہ ان کو دیکھ کر شرم اتی ھے۔
یہ ایسی مخلوق ہیکہ 1846 سے لے کر 1947 تک انسانی حقوق کی تلاش کرتے ہیں ، وہاں جموریت ڈھونڈتے ہیں ، وہاں پارلیمنٹ ڈھونڈتے ہیں ، وہاں عوامی راج کی مانگ کرتے ہیں ، ان کا المیہ یہ ہیکہ ان کو آج بھی بنیادی انسانی حقوق کی الف ب نہیں آتی ، ان کو اپنی مرضی کا ووٹ ڈالنے کا اختیار نہیں ھے ، یہ اپنی آزادی کی بات نہیں کر سکتے ، یہ بارہ ہزار مربع میل والے سوکے عاشق ایک قابض کی مرضی کے مطابق تحریک چلا رہے ہیں لیکن ان کو خبر ہی نہیں ھے ، اور اصل میں یہ اپنے ملک کی آزادی کے سب سے بڑے دشمن ہیں ۔
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More