گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزی کا اصل ذمہ دار کون؟ تحریر : شیر علی انجم
اس بات میں اب مزید کسی قسم کے شکوک شبہات باقی نہیں رہے کہ گلگت بلتستان ریاست جموں کشمیر کی ایک اہم اکائی ہے۔ ویسے تو یہ تعلق پہلے بھی جبر اور طاقت کے بل بوتے پر قائم تھا لیکن مہاراجہ کی جانب سے ریاست کا ہندوستان کے ساتھ الحاق کرنے بعد ریاستی فوجی افسران کی بغاوت کے نتیجے میں یکم نومبر 1947کو جمہوریہ گلگت معرض وجود میں آیا۔مگراندرونی اور بیرونی سازشوں نے اس نومولود ریاست کو صرف سولہ دنوں سے ذیادہ زندہ رہنے نہیں دیا اور نہ ہی پاکستان میں باقاعدہ طور پر شمولیت کیلئے ٹیبل ٹاک کا موقع دیا۔
یوں یہ نومولود ریاست 16 نومبر 1947 کو پولٹیکل ایجنٹ کی حیثیت سے ایک پشتون تحصیلدار سردار عالم خان کے ہاتھوں چلا گیا اور اُنہوں نے یہاں جمہوری بنیادوں پر حکومت قائم کرنے کے بجائے ایف سی آر نافذکردیا جو کم بیش تیس سالوں تک جاری رہے اور دنیا کی نظروں سے مکمل طور پر اوجھل اس خطے کے عوام کو ایک طرح کالونیل نظام کے تحت چلاتے رہے۔دوسری طرف جواہر لال نہرو کشمیر کے مقدمے کو اقوام متحدہ لیکر گیا اور وہاں یو این سی آئی پی کے نام سے ایک کمیشن بنی جسے پاکستان اور ہندوستان نے متفقہ طور پر تسلیم کیا ۔اُس کمیشن نے جہاں ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت کو قانونی طور پر تسلیم کی وہیں مسلہ کشمیر کی حل کیلئے رائے شماری تک کیلئے چھے ہفتوں کے اندر گلگت اور مظفرآباد میں لوکل اتھارٹی گورنمنٹ کے قیام کا حکم دیا۔لیکن بدقسمتی سے گلگت بلتستان کے حوالے سے اُ س قرارداد پر عمل درآمد نہیں ہوئے جبکہ مظفر آباد کو آئین اور مکمل ریاستی نظام ملا۔
مظفرآباد حکومت نے ریاست جموں کشمیر کے ترجمان حکومت کی حیثیت سے ریاست پاکستان کے ساتھ ریاستی معاملات کو چلانے کیلئے ایک معاہدہ کیا جسے معاہدہ کراچی 28 اپریل 1949 کہتے ہیں۔ اُس معاہدے کی ایک شق میں لکھ دیا کہ ریاست پاکستان مسلہ کشمیر کی حل تک کیلئے گلگت بلتستان کے انتظامات کی براہ راست کنٹرول کرے گا۔یعنی گلگت بلتستان کے انتظامات جو پہلے ہی پاکستان کے ایک پولٹیکل ایجنٹ کے ماتحت تھے جسے مظفرآباد کی حکومت نے ایک طرح سے قانونی شکل دیا جو آج بھی قائم ہیں۔ مزید برآں پاکستان اور ہندوستان نے اقوام متحدہ کے آبزرور کی موجودگی میں 27 جولائی 1949 کو ریاست جموں کشمیر اقصائے تبہا کے سرحدوں کا تعین کرکے اُس بنیاد پر ریاست کا نقشہ تیارکرنے کیلئے کراچی ملٹری ایگریمنٹ کیا جو آج بھی سلامتی کونسل کے ریکارڈ کا حصہ ہیں ۔ اُس نقشے میں بھی گلگت بلتستان کو ریاست جموں کشمیر کی اکائی کے طور پر دکھایا گیا ہے۔یوں آج ہماری خواہشات کےبرعکس گلگت بلتستان کو ریاست جموں کشمیر سے الگ کرکے پاکستان میں شامل کرنا مسلہ کشمیر کے تناظر میں سلامتی کونسل کے قراردادوں کی نفی ہے اور ایسا کرنے کیلئے پاکستان کو مسلہ کشمیر سے مکمل طور پر دستبردار ہونا پڑے گا جو کہ پاکستان کے مفاد میں نہیں ۔سٹیٹ سبجیکٹ رول 1927 کا قانون مہاراجہ جموں کشمیر کا وہ تاریخ کارنامہ ہے جو آج بھی ریاستی عوام کے حق ملکیت کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔ ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر لداخ میں یہ قانون 5 اگست 2019 تک نافذ تھے ۔لیکن مودی حکومت نے اس قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہندوستان کے آئین میں درج آرٹیکل 370 جس تحت ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی اور منفرد مقام حاصل تھی اور آرٹیکل ریاست کو آئین بنانے اور اسے برقرار رکھنے کی آزادی دیتاتھا جس کے تحت ریاست کا اپنا آئین تھا اور اسے خصوصی نیم خودمختار حیثیت حاصل تھی۔اس خصوصی آرٹیکل کے تحت دفاعی، مالیاتی، خارجہ امور وغیرہ کو چھوڑ کر کسی اور معاملے میں وفاقی حکومت، مرکزی پارلیمان اور ریاستی حکومت کی توثیق و منظوری کے بغیر جموں و کشمیر میں بھارتی قوانین کا نفاذ نہیں کیا جا سکتا تھا۔
اسی طرح مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والا آرٹیکل 35 اے بھی اسی آرٹیکل کا حصہ تھا جو ریاست کی قانون ساز اسمبلی کو ریاست کے مستقل شہریوں کے خصوصی حقوق اور استحقاق کی تعریف کے اختیارات دیتا تھا۔ جموں کشمیر لداخ میں آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35A کی خاتمے ساتھ ہی سٹیٹ سبجیکٹ رول کی خلاف ورزیاں شروع ہوئی ہے اور غیر ریاستی عناصر کو جموں کشمیر لداخ میں زمین خریدنے براہ راست کارباور کرنے کا اختیار مل چُکی ہے جو کہ سلامتی کونسل کے متفقہ قراردادوں کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ حکومت پاکستان آرٹیکل 370 اور 35 اے کی خاتمے پر شدید کیا اور وزیر اعظم پاکستان نے اقوام متحدہ میں بھی ہندوستان کے اس اقدام کو مسلہ کشمیر کے تناظر میں سلامتی کونسل کے قراردادوں کی خلاف ورزی قرار دیا۔ آذاد کشمیر میں قانون باشندہ ریاست آج بھی نافذ ہیں لیکن کشمیر ی قیادت گلگت بلتستان میں گزشتہ دہائیوں سے سٹیٹ سبجیکٹ رول کی خلاف ورزی پر سوائے اخبار بیانات کے عملی طور پر مکمل خاموش ہیں اور جب کبھی اسلام آباد گلگت بلتستان کو کوئی نیا پیکج دینا چاہتا ہے تو مظفرآباد کے حکمران گلگت بلتستان کو ریاست کی اکائی کے طور پر یاد کرتے ہیں ۔یہ اُنکا منافقانہ طرز عمل ہے ۔گلگت بلتستان میں یہ بات ہمیشہ سے زیر بحث رہا ہے کہ متنازعہ حیثیت کے باوجود خطے میں اسٹیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزی سب سے پہلے کس نے کی؟ اور کون اس کام کی انجام دہی کیلئے کلہاڑی کے دستے کے طور پر استعمال ہوئے۔ اس حوالے سے راقم نے گلگت بلتستان امور کے کئی ماہرین اور سنئیر قومی سیاسی رہنماوں نےرہنمائی حاصل کی تو بتایا گیا کہ اس قانون کی خلاف ورزی میں گلگت بلتستان کے مذہبی اکابرین کےہاتھ استعمال ہوئے۔ کہتے ہیں کہ 1956ء میں پہلی بار صدر پاکستان سکندر مرزا کے دور میں اُس وقت کو پولٹیکل ایجنٹ سردار جان محمد خان نے ایک سازش کے تحت دو مذہبی شخصیات مرحوم آغا برمس اور مرحوم مولوی گلمتی کو اعتماد میں لیا۔ حالانکہ یہ دونوں شخصیات اس حوالے سے مجاز اتھارٹی نہیں تھیں، لیکن اُن کے سامنے گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزی کیلئے دلیل پیش کی کہ اس قانون کی وجہ سے گلگت بلتستان میں ترقی اور تعمیر کا دروازہ ہمیشہ بند رہے گا، کیونکہ جب تک باہر سے لوگ کاروبار کیلئے یہاں نہ آئے گا، تو یہاں کاروبار کیسے ہوگا نظام زندگی کیسے چلے گا۔ اُس وقت بھی قلیل تعداد میں لوگ اپنے حقوق کیلئے متحرک تھے، اُن میں کشروٹ سے تعلق رکھنے والے مرحوم غلام محمد غون جو اُس وقت قوم پرست لیڈر ہوا کرتے تھے۔ اُنہوں نے اس فیصلے کے خلاف بھرپور مزاحمت کی اس جرم میں اُنہیں پولٹیکل ایجنٹ کے ایماء کچھ لوگوں نے زدکوب کیا۔اُس وقت جب سٹیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزی کی شروعات کی خبر گلگت میں پھیل گئی اور لوگوں نے ایف سی آر کے بدترین دور میں بھی شدید احتجاج کیا جس کے نتیجے میں چھ سے زائد افراد گرفتار ہوئےاور عوام نے جیل توڑ کر اُن افراد کو نکالا۔ یوں یہ معاملہ وقتی طور پر تھم گیا لیکن کہتے ہیں کہ خفیہ طور کچھ بیورکریٹس کو اندرون خانہ ڈومیسائل جاری کئے گئے۔ جب پاکستان میں بھٹو کی حکومت آئی تو اُنہوں نے گلگت بلتستان کا دورہ کیا اور گلگت بلتستان کے تمام قومی پارٹیوں کو پاکستان پیپلزپارٹی میں ضم کرکے وفاقی سیاست کی شروعات کی۔ اُن کا گلگت بلتستان کیلئے جہاں خدمات ہیں وہیں تاریخ ذولفقار علی بھٹو کو سٹیٹ سبجیکٹ رول کی خلاف ورزی کا ذمہ دار بھی سمجھتے ہیں۔
گلگت بلتستان میں پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت اس بات سے انکار کرتے ہیں۔ اُنکا کہنا ہے کہ سٹیٹ سبجیکٹ قانون کی خلاف ورزی میں بھٹو کا کوئی عمل دخل نہیں تھا بلکہ بھٹو ہی پاکستان کا واحد لیڈر ہے جس نے اپنے دور اقتدار میں پہلی بارخطے کے دور دارز علاقوں کا دورہ کیا اور یہاں سے ایف سی آر کا خاتمہ کرکے خطے عوام کو مقامی راجاوں کی غلامی سے آذادی دلائی۔ یہ بات بھی ایک حقیقت ہے لیکن گلگت بلتستان امور کے ماہرین پیپلزپارٹی کے دعوے کو مسترد کرتے ہیں اور الزام لگاتے ہیں کہ فرقہ واریت کی بنیاد پر عوام کو تقیسم کرنے میں بھی بھٹو کا ہاتھ رہا ہے۔ اس حوالے تاریخ گلگت بلتستان پر لکھے محدود تعدادکی کتابوں میں کوئی تذکرہ نہیں ملتی۔اس بنیادی وجہ یہ بتایا جاتا ہے کہ تاریخ لکھنے والوں نےبھی حاکم وقت کی منشاء اور مرضی کے ساتھ ذاتی پسند ناپسند کی بنیادپر تاریخ لکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تاریخ گلگت بلتستان میں قیاس آرائیوں کی کہانیوں سےبھری پڑی ہیں۔ لیکن اس حوالے سے کچھ معلومات پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹیو ڈیویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) جو پاکستان کا ایک مستند اور غیرجانبدار رسرچ ادارے کے طور پر جانے جاتے ہیں، میں (سيکٹيرين کنفليکٹ ان گلگت بلتستان )کے نام سے مئی 2011 میں شائع رپورٹ میں ادارہ لکھتے ہیں کہ ،چونکہ بھٹو کو اس بات کا ادراک تھا گلگت بلتستان کے لوگ کسی بھی اہم ایشو پر کبھی ایک اور یک زبان ہونے کو کبھی ترجیح نہیں دیتے جس کا فائدہ اٹھا کر نفرت انگیزی کاآغاز کیا گیا۔ اور اس نفرت کو دوبارہ زندہ کیا جسے انگریز سرکار بڑی کاؤشوں سے ختم کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔اسی طرح ستر کی دہائی میں اور پھر 1974 میں ایف سی آر کا خاتمہ اسی نفرت کا پھل ہی تھا جسے بو کر ذوالفقار علی بھٹو نے کئی سالوں پر محیط نفرتوں کو نہ صرف ہوا دیا تھا بلکہ اس کو عملی جامہ پہنانے میں اپنا بھرپور کرداراداکردیا۔
ایف سی آر کے خاتمے کے بعد جب ڈسٹرک کا قیام عمل میں آیا تب بھی اس بات کو مزید تقویت ملی کہ فرقہ وارانہ نفرتیں نہ صرف مزید بڑھی بلکہ ایسے دل دہلانے والے واقعات رونما ہونے شروع ہوئے کہ دونوں مسلک پیروکار بھی اس عمل سے پریشان تھے کہ آخر اچانک یہ سب کیسے ہوا۔ یوں بھٹو نے اپنے خو د کی پھیلائی ہوئی انارکی اور فرقہ وارانہ نفرتوں کا فائدہ اٹھا کر اسٹیٹ سبجیکٹ رول کی سنگین خلاف ورزی شروع کردی۔ اور ملک بھر سے غیر مقامی افراد کی گلگت میں بڑے پیمانے پر آباد کاریاں شروع کی۔ مُلک بھر سے کثیر تعداد میں لوگوں کو وہاں زمینیں بانٹی گئی۔ اس طرح اس فساد اور آپسی لڑائی کو کئی سالوں تک برقرار رکھا گیا۔اسی بنیاد پر 1974 میں اُس وقت کے ریزڈینس کمشنر سید اجلال حیدر زیدی کےایماء پرکشمیری گھرانے سے تعلق رکھنے والے ڈپٹی کمشنر گلگت عبد الواحد جنکا تعلق کشروٹ سے تھا، نے حکم دیا کہ جن پر بھی غیر ریاستی باشندوں نے گذشتہ پانچ سالوں میں گلگت بلتستان کے اندر زمین خریدی، وہ یہاں کا ڈومیسائل حاصل کر سکتے ہیں۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسکندر مرزا کے دور میں راہ ہموار کرکے بھٹو کے دور میں خلاف ورزی کا باقاعدہ آغاز کردیا۔
لہذا آج بلاول بھٹو زرداری کا مسلہ پر ریاستی بیانیہ اور اقوام متحدہ کے قراردادوں کے برخلاف گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ بنانے کا سنہری خواب فقط ہاتھی کے دانت ہیں ۔اس وقت تاریخی اور زمینی حقائق اور گلگت بلتستان کو لیکر عالمی طاقتوں کے گریٹ گیم اور تیزی سے تبدیل ہوتے بین الاقوامی حالات اور مودی کے ناپاک عزائم کو مدنظر رکھتے ہوئے گلگت بلتستان کی چہتر سالہ محرومیوں کی ازالے کیلئے عملی جدوجہد کرنے اور خطے میں سٹیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لیکر سٹیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزی روکنے کیلئے آواز بلند کرنے اور خطے کی متنازعہ حیثیت کے مطابق حقوق کیلئے تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔ ورنہ بلاول کا نعرہ بھی ماضی کے نعروں کی طرح عوام کیلئے سیاسی نعرہ ثابت ہوگا ۔
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More