Main Menu

جماعت اسلامی پاکستان اپنی شناخت کے ساتھ کھڑی ہے؛ تحرير: عنایت اللہ خان

Spread the love

حزب اختلاف کی جماعتوں پر مشتمل پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے حکومت کے خلاف گجرانوالہ،کراچی اور کوئیٹہ میں تین بڑے جلسے کیے جس میں بلاشبہ کثیر تعداد میں لوگوں کی شرکت دیکھی گئی۔اگر یہ کہا جائے کہ ان جلسوں میں لوگ حزب اختلاف کی کال سے زیادہ مہنگائی کے خلاف نکلے تو غلط نہ ہوگا۔پی ڈی ایم کی تحریک کا بنیادی مقصد موجودہ حکومت کو ایک ناجائز اور دھاندلی سے وجود میں آنے والی حکومت کے طور پر عوام کے سامنے پیش کرنا ہے۔ ان کی اس تحریک میں عوام کے بنیادی مسائل کو عمومی حثیت ہے اصل ٹارگٹ پاکستان کے ادارے ہوتے ہیں ۔!اس اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں کے قائدین کھل کر فوج اور دوسرے اداروں پر الزام لگا رہے ہیں کہ ان کی حمایت سے موجودہ حکومت عوام پر مسلط کی گئی ۔

جماعت اسلامی پاکستان حزب اختلاف کی جماعت ہے لیکن اس وقت جماعت حزب اختلاف کے اتحاد میں شامل نہیں ۔جماعت کا مؤقف ہے کہ پی ڈی ایم کے پاس عوام کے مسائل کے حل کا کوئی پروگرام نہیں اور نہ ہی اداروں پر تنقید کرنے عوامی مسائل حل ہونگے۔جماعت اسلامی حکومت کی کارکردگی کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے۔اور جماعت کا مؤقف ہے کہ ملک میں اس وقف اصل مسلہ مہنگائی ہے،عوام کی قوت خرید ختم ہو چکی ہے،ملک بیرونی قرضوں تلے دب چکا ہے، افراط زر کی شرح روز بروز بڑھتی جا رہی ہے،بے روزگاری کی وجہ سے پڑھے لکھے نوجوان خود کشیوں پر مجبور ہیں،چینی ،آٹے اور گندم کا بحران سر اٹھاے ہوے ہے۔سبزی ،دالیں اور خورد و نوش کی اشیاء کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں۔بجلی اور گیس کے بلات دیکھ کر غریب آدمی چکرا جاتا ہے۔پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے ہر چیز کی قیمت پر اضافی بوجھ پڑتا ہے۔کشمیر کے مسلہ پر حکومت غیر سنجیدہ رویہ اختیار کیے ہوے ہے،مختلف آپشنز فیلر کے طور پر چھوڑ کر کشمیریوں میں ابہام پیدا کیا جا ریا ہے ۔گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کا عندیہ پاکستان کا کشمیر پر بین الاقوامی تسلیم شدہ مؤقف کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔

گلگت بلتستان کے مجوزہ الیکشن میں حکومتی مداخلت کے اشارے مل رہے ہیں۔خارجہ پالیسی کمزور ہونے کی وجہ سے ماضی کے دوست ممالک پاکستان کے مسائل سے لاتعلق ہو گے ہیں۔ چین اور سعودی عرب جیسے دوستوں ممالک بھی مذید اعتماد کرنے سے گریزاں ہیں ۔ہندوستان افغانستان کے راستے شمالی وزیرستان اور بلوچستان میں کاروائیاں کر رہا ہے۔ان مسائل میں گھیرا ہوا ملک حکومتی جماعت اور حزب اختلاف کی توجہ اور ترجیہات سے محروم ہے۔حکومتی جماعت اپنی باری مکمل کرنے اور حزب اختلاف اپنی باری کی جنگ لڑ رہے ہیں جبکہ عوام بے بسی کی تصویر بنے ہوے ہیں۔

اس حقیقی تصویر کو سامنے رکھ کر دیکھا جاے تو جماعت اسلامی اپنی شناخت کے ساتھ میدان میں کھڑی ہے۔ ان مسائل کے حل کی جانب حکومت کی توجہ مبذول کروا رہی ہے ۔جماعت کہتی ہے کہ فوج پر تنقید کرنے والوں نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے حمایت کی اور ووٹ دیے۔لندن میں بیٹھ کر آدھا سچ بولا جا رہا ہے۔ پوچھا جا رہا ہےکہ ہماری کمپنیاں تو تھیں آپ نے کمپنیاں کیسے بنائیں۔مسلم لیگ ن اپنے ارکان پنجاب اسمبلی کو چیف منسٹر سے ملاقات کی پاداش میں جماعت سے نکال دیتی ہے اور آرمی چیف سے ملاقات کرنے والے کو اپنی جماعت کا ترجمان مقرر کیا جاتا ہے۔جماعت اسلامی مولانا فضل الرحمان کے ساتھ اس وقت بھی کھڑے ہوئی تھی جب مولانا صوبہ سرحد اور بلوچستان کی حکومت اور اپوزشن لیڈر کی پوزیشن کے بدلے جماعت اسلامی سمیت پوری ایم ایم اے کو پرویز مشرف کے ہاتھ بیچ آئے تھے۔ وہ پرویز مشرف کے پورے دور ظلم و ستم و الحاد و دہریت میں اس کے حصہ دار رہے۔ اسی وجہ سے ایم ایم اے ٹوٹی۔ جماعت نے مشرف کے دوسرے صدارتی الیکشن کو ناکام بنانے کے لیے سرحد اسمبلی توڑنے کا مطالبہ کیا جو نہ مانا گیا تو جماعت اکیلی ہی مستعفی ہوئی۔ لال مسجد، ڈرون حملے، ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور افغان سفیر ملا ضعیف کی امریکہ کو حوالگی، ہر مرحلے پر جماعت مشرف کے خلاف سڑکوں پر رہی اور مولانا مشرف کے چہیتے رہے۔ اور اب فوج پر تنقیدو الزامات کیا معنی رکھتے ہیں۔اب بھی موقع ملا تو مولانا ساری اپوزیشن کو لگے بھاؤ بیچ آئیں گے اس بدلے میں بلوچستان کے حکومت اور کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی پر قناعت کر لیں گے۔پاکستان پیپلز پارٹی اس وقت اپنے پر قائم مقدمات سے خلاصی جاتی ہے اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف قدرے نرم رویہ رکھے ہوئے ہے۔ اور توقع رکھے ہوے ہے کہ متبادل کے طور پر اسٹیبلشمنٹ کے لیے قابل قبول ہو۔حکومت یو ٹرن ہے یو ٹرن لیے جا رہی ہے۔چالیس چور حکومت کے اردگرد اور علی بابا پر روز مقدمات قائم کیے جا رہے ہیں۔
پاکستانی قوم کا سب سے بڑے مسلہ یہ ہے کہ اسے کیسے سھمجایا جاے کہ قوم کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔لوگ مختلف بیانیوں کا شکار ہو جاتے ہیں یہ نہیں دیکھتے ان کے پیچھے عمل کی قوت بھی موجود ہے کہ نہیں۔جماعت اسلامی ایک مظبوط نظریاتی مؤقف اور بیانیہ کے ساتھ عوام کو بیدار کرنے کی کوشش کر رہی کی کہ ملک میں قرآن و سنّت کی فرمانروائی ہونی چاہیے اور ہمارے مسائل کا حل ممکن نہیں جب تک نظام مملکت قرآن وسنت کے مطابق نہ ہو۔موجودہ حکمران ہوں یا سابقین ان کے ہاتھوں میں ظلم کی تلوار ہے۔یہ صرف آئ ایم ایف اور ورلڈ بینک کی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں جس کے نتیجے میں ملک گھمبیر مسائل سے دو چار ہے۔

المیہ یہ ہے کہ گزشتہ 73 سالوں میں جن لوگوں کو تیار گیا وہ آج الطاف حسین،نواز شریف،آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کی شکل میں بول رہے ہیں۔پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی اصل محافظ جماعت اسلامی کو ہمیشہ دیوار سے لگایا۔مشرقی پاکستان میں جماعت کی قربانیوں کو فراموش کرنا،جہاد افغانستان اور کشمیر میں جماعت اسلامی کے کردار کو نظر انداز کر کے اس طرح کے روبوٹ تیار کرنا غلطی ہے جس کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *