اُٹھو تم سب جو غلام نہیں ہو؛ تحرير: شيراز کشميری
یہ بات اب بہت حد تک واضح ہو چکی ہے کہ پاکستان اور بھارت کی موجودہ حکومتیں ریاست جموں کشمیر و اقصائے تبت کو تقسیم کرنے اور معمولی رد و بدل کے ساتھ موجودہ سیز فائر لائن کو مستقل سرحد بنانے پر سمجھوتا کر چکی ہیں۔اس منصوبے کے تحت گلگت بلتستان میں رواں سال اور آزاد ریاست جموں کشمیرمیں اگلے سال ہونے والے انتخابات بہت ہی اہمیت کے حامل ہیں۔اسٹیبلشمنٹ کی حکمت عملی یہ ہے کہ ان انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو کامیاب کروا کر ان دونوں خطوں (گلگت بلتستان اور آزاد جموں کشمیر) کو پاکستان میں ضم کرنے کا عمل شروع کیا جائے گا۔اس مقصد کے حصول کے لیے سب سے پہلے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی اسمبلیوں سے پاکستان میں شمولیت کی قرار دادیں منظور کروائی جائیں گی اور پھر ان قرار دادوں کو آئینی اور قانونی بنیاد بنا کر انضمام کا عمل شروع کیا جائے گا ۔باخبر حلقوں کا موقف ہے کہ گلگت بلتستان اور آزاد ریاست جموں کشمیر کو صوبہ بنانے کی باتیں محض ممکنہ مزاحمت سے بچنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ جب بھی گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو پاکستان میں شامل کیا جائے گا تو انھیں صوبہ بنانے کی بجائے خیبر پختونخواہ اور پنجاب میں ضم کیا جائے گا۔ انتظامی اعتبار سے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو تین تین اضلاع میں تقسیم کیا جائے گا،ہر ضلع کی قومی اسمبلی میں ایک اور صوبائی اسمبلیوں(خیبر پختونخواہ اور پنجاب)میں دو دو نشتیں ہوں گی جبکہ سینیٹ آف پاکستان میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کودو دو نستیں حاصل ہوں گی۔
باخبر حلقے اس بات پر بھی متفق ہیں کہ گلگت بلتستان اور آزاد ریاست جموں کشمیر کو پاکستان میں ضم کرنے کا منصوبہ دونوں ممالک(پاکستان اور بھارت) کے درمیان اُس خفیہ مفاہمت کا حصہ ہے جس کے تحت بھارتی حکومت نے پانچ اگست 2019کو ریاست جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے اُسے بھارتی یونین میں شامل کر دیا تھا اس عمل میں مودی سرکار کو پاکستان کی موجودہ حکومت کی مکمل تائید و حمایت حاصل تھی ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت پاکستان نے مودی سرکار کی تائید وحمایت کو چھپایا بھی نہیں جب آزاد کشمیر کے لوگوں نے سیز فائر لائن کے اُس پار اپنے بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے لانگ مارچ کا اعلان کیا تو عمران خان نے خبر دار کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو بھی کوئی سیز فائر لائن کی طرف جائے گا وہ پاکستان کا غدار ہو گا۔ باخبر حلقوں کا موقف ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو جن مقاصد کے لیے اقتدار میں لایا گیا تھا ان پر ایک ایک کر کے عملدرآمد ہو رہا ہے ، ریاست جموں کشمیر کی تقسیم بھی اسی ایجنڈے کا حصہ ہے ۔
بھارتی حکومت نے اپنے حصے کا کام کر دیا ہے ، اب پاکستان نے وعدے کے مطابق اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے ۔
ریاست جموں کشمیر و اقصائے تبت کی بد قسمتی یہ ہے کہ وہ سات دہائیاں گزرنے کے باوجود حقیقی معنوں میں محب وطن قیادت پیدا نہیں کر سکی ہے ۔ ریاست کے تینوں حصوں میں موجود روایتی سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین نے اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کے لیے سمجھوتوں کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔1947میںانھیں (حکمرانوں) ایک ملک کی باگ ڈور سونپی گئی تھی جسے انھوں نے اپنی نااہلی کے باعث کھو دیا ہے ،اس کی تمام تر زمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو ستر سال سے اقتدار کی دھمک زدہ کرسی کے ساتھ چمٹے رہے اور توسیع پسند ممالک کی کاسیہ لیسی کرتے رہے ہیں،تاریخ انھیں کبھی معاف نہیں کرے گی ،وہ وقت دور نہیں ہے جب تاریخ انھیں غداروں کی صف میں لا کر کھڑا کرے گی اور آنے والی نسلیں ان کی قبروں سے حساب لیں گی۔بقول شخصے عوام ہمیشہ انقلاب کے قریب ہوتے ہیں،جب کہ انقلابی قیادت قومی سطح کے بحرانوں میں جنم لیتی ہے ، منقسم ریاست کے تینوں حصوں کو اس وقت اپنی بقا کا سوال درپیش ہے جو بلا شبہ ایک بڑا قومی بحران ہے ،اس وقت جو بھی لوگ عوام کی صفوں سے اٹھ کر قیادت کی زمہ داری سنبھالیں گے ،وقت ان کے ساتھ کھڑا ہوگا۔اٹھو تم سب جو غلام نہیں ہو۔
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More