Main Menu

کشمیر: محنت کشوں کے مساہل اور حکمرانوں کی عیاشیاں ؛ تحریر: خلیق ارشاد

Spread the love


پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی حکمرانوں کے قبضے کو سات دہائیاں گزر چکی ہیں مگر یہاں پر بسنے والے انسانوں کی زندگیاں زمانہ قدیم سے بھی پسماندہ اور مساہل ذدہ ہیں۔ یہاں کا انفراسٹریکچرتعمیر ہی نہیں کیا گیا اور جو تعمیر ہوا مکمل طور پر تباہ برباد ہو چکا ہے۔ مین شاہراؤں کی حالت ہڑپہ کے کھنڈرات کے مناظر پیش کر رہیں ہیں اور ہر جگہ پر
لنک روڈزکو عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت تعمیر کی ہیں جو انتہائی غیر معیاری ہیں۔
زلزلہ 2005 میں سکولوں و کالجوں کی عمارتوں کے گر گئیں تھ لیکن پندرہ سال گزرنے کے باوجود ابتک وہ عمارتیں دوبارہ دوبارہ تعمیر نہ ہوسکیں اور طلباء و طالبات پتھر کے دور کی ماند آسمان تلے پڑھنے پر مجبور ہیں۔ غیر معیاری تعلیمی نصاب ہے جو نہ طلباء کی انسانی تربیت کرتا ہے اور نہی طلباء کو مستقبل میں اس کا کوئی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ تعلیم ایک عیاشی بن چکی ہے۔ پراہیویٹ اداروں نے تعلیم کو کاروبار بنا دیا ہوا ہے اور حکمران اس عمل کو روکنے کے بجائے حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ پورے کشمیر میں
آبادی کی ضرورت کیمطابق کوئی ہسپتال کی سہولت میسر نہیں ہے اور جو ڈسٹرکٹ ہسپتال ہیں وہاں پر کوئی ایمرجنسی علاج کی صلاحیت نہ رکھنے والا میڈیکل سٹاف ہے اور نہ ہی میڈیسن۔ میڈیکل سٹوروں پر انتہائی غیر معیاری ادویات ہیں۔ ڈاکٹروں کی نظر مریض کی جیب پر ہوتی ہے اور غیر ضروری ادویات لکھ کر دیتے ہیں کیونکہ انکا میڈیکل سٹوروں کیساتھ کمیشن طے ہوتا ہے۔ انسانی جانوں کیساتھ کھیلا جاتا ہے۔ ڈاکٹرز جو مسیحا ہوتے ہیں وہ موت کے سوداگر ثابت ہوتے ہیں۔
ہرسال ہزاروں طلباء یونیورسٹیوں سے ڈگریاں لیکر فارغ ہوتے ہیں مگر انکے کیلئے روذگار کے کوئی مواقع میسر نہیں ہوتے اور اپنی ڈگریوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر عرب کے تپتے صحراؤں میں جاکر سرمایہ داروں کے ہاتھوں کم اجرت پر اپنی محنت بیچ کر استحصال کرانے پر مجبور ہیں۔ زندگیاں اجیرن بنا دی گئی ہیں۔
بجلی کی پیدوار ضرورت سےکئی ذیادہ ہے صرف منگلہ ڈیم 1500 میگا واٹ بجلی پیدا کرتا ہے اور پورے کشمیر کی ضرورت صرف 300 میگاواٹ ہے۔ مگر اس کے باوجود لوڈشیڈنگ اور اضافہ ٹیکس عائد کر دیے گئے ہیں۔ منگلہ ڈیم کی تعمیر 1961 سے 1967 تک تکمیل پائی گئی اور اسوقت کے پاکستانی حکمرانوں نے یہ معائدہ کیا تھا کہ کشمیر کو اس کے عوض مفت بجلی فراہم کی جائے گی لیکن اس پر کوئی عمل درامد نہ ہوسکا بلکہ ساڑھے پانچ روپے سے ذیادہ فی یونٹ بجلی کشمیر کو فروخت کی جارہی ہے۔ اس کیعلاوہ نیلم و جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ اور دیگر بیسیوں ایسے پراجیکٹ شروع کیے جاچکے ہیں جو 2025 تک تکمیل ہونگے,پاکستان کو کھربوں روپے سالانہ منافع دیں گے۔ کشمیر کے تمام وساہل پر پاکستانی حکمران طبقہ قابض ہے اور اس قبضے کا جواز فراہم کرنے کیلئے کشمیر میں موجود سہولتکار حکمران طبقہ ہے۔
یہ تمام مساہل کسی ایک علاقے,ضلع, فرد,تنظیم یا پارٹی کے نہیں ہیں بلکہ یہ اس خطہ میں بسنے والے تمام تر محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے انسانوں کے مشترکہ مساہل ہیں ان مشترکہ مساہل کیخلاف لڑنے کیلئے مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے ۔
تمام تر علاقائی,قبیلائی و سیاسی تعصبات سے بالاتر ہو کر عوام کو ایک طبقے کی بنیاد پر اتحاد کرتے ہوے ان مساہل کیخلاف اور حقوق کی خاطرحکمران طبقے کیخلاف جنگ لڑنی ہوگی۔ یہی حکمران طبقہ ریاست جموں کشمیر کی سیاسی و معاشی آزادی کا قاتل ہے۔ ایک متحد و منظم جدوجہد ہی راہ نجات کا باعث بن سکتی ہے۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *