جھوٹ اور مفادات کی عينک لگا کر رياست کا يہی حال ہو سکتا ہے جو آج ہے، تحرير: ہاشم قريشی
اگر تاریخ کو نئ نسل تک پہنچانا قوم کو بانٹنا ہے تو ہر تاریخ کی کتاب کو جلا دو؟ کیا ضرورت ہے ماضی کو دھرانا ؟ جب شیخ عبداللہ کی جیل کے دوران پوری قوم لداخ سے لے کر لکھنپور تک “رائے شماری ” کے لئے لڑ رہے تھے اور دنیا بھی ہماری طرف متوجہ تھی تو اُسوقت یہ جماعت اسلامی اُسوقت کی “BJP ” بنی ہوئی تھی کہ وقت کے حکمرانوں کے نظام کو مظبوط کرتے تھے الیکشنوں میں حصہ لیکر۔
جناب اُنھوں نے الیکشن لڑے تو یہ مومن اور آج کوئی الیکشن لڑے تو وہ غدار اور گردن ذونی ؟ یہ کیا دستور ہے جناب؟
اصل میں آپ لوگ سچ کو زمین کے اندر دفن کرنا چاہتے ہيں۔ سچ دفن نہیں ہوتا ہے بلکہ سچ کی اپنی ایک زبردست پہچان ہے کہ جب تک اپناؤگے نہیں جب تک سچائی کے ساتھ اپنا احتساب نہیں کروگے ایک انچ نہ آگے چل سکتے ہو اور نہ ہی نیک مقاصد پاسکتے ہو۔
بغیر منصوبہ بندی کے بغیر وسائل کے بغیر پوری قوم کو ایک مقصد کے لئے متحد کرنے کے۔ بغیر باقی دنیا کو اپنی جدوجہد کے لئے قائل کرنے کے ۔بغیر منصوبہ بند مسلح یا سیول نافرمانی کی جدوجہد کے ہزاروں لوگوں کو قتل گاہوں پر چڑھانے سے اپ کیسے قوم کو منزل تک پہنچاسکتے ہے ؟
پھر لیڈر کو لیڈر کہلانے کا معیار کیا ہے ؟
لوگوں کو انکاونٹروں میں 2/3/4/5/6کی تعداد میں کمبروں میں مروانا ؟ یتیموں کے لئے میڈیکل اور دوسری سیٹیں یتیموں کو دینے کے بجائے بازار میں لاکھوں میں فروخت کرنا؟ہزاروں میں عورتوں کو بیواویں بنانا اور ان کو بھیک پر ڈالنا ؟ ہزاروں کو یتیم بنانا ؟ ہڑتال کے نام پر غریبوں کے منہ سے نوالے چھین لینا ؟ تعلیمی اداروں کو بند کرکے نسلوں کو طالبان بنانا؟ اپنی اولاد کو سرکاری نوکری کروانا اور غریب کے بچوں کو اسی سرکار کے خلاف جہاد کا درس دے کر ان کو قبر تک پہچانا ؟ بات چیت کے لئے پارلیمانی وفد دروازے پر آئے تو دروازہ بند کرکے پوری دنیا کو یہ تاثر دینا کہ ہم بات چیت کے قائل نہیں ہے ؟
آزادی کا مطلب الحاق پاکستان کہنا اور ہمسایہ ملک کے جھنڈے لہرانا اور تم پاکستانی ہو ہم پاکستانی ہے کے نعروں پر ڈانس کرنا ؟ کیا یہ لیڈر کے فصایل ہوتے ہے ؟ اس قوم کو 30 سالوں سے کیا دیا گیا ؟ موت۔ قبرستان۔ بیوایں۔یتیم۔ بھوک۔ اور دنیا کی طرف سے دہشت گردی کا خطاب حافظ سعید اور لشکر جیش کی صورت میں ؟
جناب یہ تاریخ ہے اس کا جب تک ہمیں ادراک نہ ہو اور ہم جب تک اپنا اور دوسروں کا احتساب نہیں کرینگے؟ سچ نہیں بولیں گے تب تک ہم کدھر جائیں گے ؟ منزل کو کیسے تراشیں گے؟ اپنی غلطیوں کو سامنے رکھ کر آیندہ غلطیاںوں سے کیسے بچیں گے ؟
اس لئے سچ بولنے والوں کو الزامات نہ دو؟ سچ بولنے پر دھمکیاں نہ دو؟ ڈر اور خوف کو روز کا قانون مت بناؤ ؟ بس سبوں کو سچ بولنے دو !سچ بولنے پر قتل نہ کرو؟ اور نہ ہی سیاسی نظریات پر قتل کرو؟
نوے ہزار قبروں میں اُتار کے ہے؟ اب تو 30 سالوں کا احتساب کرو؟ الحاق کے نام پر تمہیں پہلے الحاق تو ملے گا بھی نہیں اور پھر اگر ہوگیا تو پہلے گلگت بلتستان اور “آزاد کشمیر” جس کو وہاں لوگ عذاب کشمیر بھی کہتے ہے ؟ اُن کا حال تو دیکھو؟ کہ کیا پاکستان نے ان کے لئے کونسے جنت بنادئے؟ ان کو تو دو حصوں میں 1948 سے ہی تقسیم کیا گیا ہے ؟ لوگ وہاں بھی جمہوری آواز پر 30/40 سالوں کی قید بھُگت رہے ہے ؟ ان کی اکثریت بیرون ملک مزدوری کرنے جاتے ہے ہے ؟
پھر الحاق کی تحریک قوموں کو آزادی! خودمختاری اور آزاد دیش کی صورت میں قوموں کے ساتھ با غیرت کی طرح کھڑا نہیں کرتا بلکہ بس وہی حال ہوتا ہے جو ہماری ریاست کے دونوں طرف آج ہے ۔
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More