Main Menu

بحرانوں کی دلدل اور عمران کی ڈوبتی ناؤ تحریر: پرویز فتح ۔ لیڈز، برطانیہ

Spread the love

دوسری عالمی جنگ نے نوآبادیاتی دور کے خاتمے پر مہر ثبت کر دی تو برطانوی سامراج کو برِصغیر متحدہ ہندوستان کو ایک غیر منطقی تقسیم کر کے چھوڑ کر جانا پڑا۔ سامراج کے پیدا کردہ سرحدی تنازعات کے ساتھ 15-14 اگست 1947ء کو ہندوستان اور پاکستان آزاد ممالک کے طور پر دُنیا کے نقشے پر نمودار ہو گئے۔ جو علاقے ہندوستان کے حصے میں آئے وہاں بہت سے علاقوں میں مضبوط صنعتی بنیادیں رکھی جا چکی تھیں، مجموعی طور پر مڈل کلاس بھی پیدا ہو چکی تھی، اور صنعت کار و کاروباری طبقہ بھی موجود تھا۔
اُدھر عالمی سطح پر روس میں کامریڈ ولادیمیر لینن کی قیادت میں سوشلسٹ انقلاب برپا ہو چھا تھا اور دُنیا بھر میں نوآبادیاتی نظام یا تو زمین بوس ہو چکا تھا، یا پھر اُس کے خلاف بغاوتیں چل رہی تھیں۔ صنعتوں کو قومی ملکیت میں لینے اور جاگیرداری و قبائلی نظام کو توڑ کر زرعی زمینوں اور دیگر وسائل کی منصفانہ تقسیم کے ذریعے انقلاب برپا کرنے کی تحریکیں ترقی پزیر ممالک سے نکل کر سرمایہ دار مملک کو بھی جھنجوڑ رہی تھیں۔ ایسے حالات میں برصغیر کی تحریکِ آزادی اُبھری تھی اور ہندوستان میں نیشنل کانگریس اور کیمونسٹ پارٹی کے علاوہ متعدد چھوٹی جماعتیں تحریک آزادی کی قیادت کر رہی تھیں۔ اِسی لیے آزادی کے بعد کانگریس سرکار نے ملک میں زرعی اصلاحات نافظ کر کے صنعتی اداروں کو مضبوط کیا اور ملک میں جمہوری اداروں کو مضبوط بنیادیں فراہم کر کے بیوروکریسی کی سیاست میں مداخلت کی راہیں مخدوش کر دیں۔ جن علاقوں میں کیمونسٹ مضبوط تھے، وہاں زرعی اصلاحات بہت کامیاب رہیں اور غریب عوام اور ہندوستانی سماج میں نیچ سمجھی جانے والی ذاتوں کے لوگوں کو زمین ملنا احسن عمل سمجھا گیا۔
پاکستان بنا تو اس کے حصے میں آنے والے علاقے مجموعی طور ہر زرعی معیشت پر منحصر تھے، جہاں بڑے بڑے جاگیرداروں اور قبائلی سرداروں کا زرعی زمینوں پر قبضہ تھا۔ صنعت نہ ہونے کے برابر تھی، ماسوائے ریلوے، ڈاکخانہ، ایک ٹیکسٹائل مل اور ایک سیمنٹ پلانٹ کے ملازمت کے لیے کچھ نہ تھا۔ ملکی آبادی کا دارومدار زراعت ہی کے شعبے سے وابسطہ تھا، جو بہت پسماندہ اور مزارعوں کے بے دریغ استحصال پر منحصر تھا۔ زرعی زمینوں پر قابض جاگیرداروں کو یہ زمینں نوآبادیاتی دور میں برطانوی سرکار نے اُنہیں اپنے ملک اور عوام سے غداری کرتے ہوئے قابض برطانوی سرکار کے ساتھ وفاداریاں نبھانے کے صلحے میں عطا کی تھیں۔ یہی جاگیردار عوام سے لگان وصول کر کے برطانوی سرکار کے خزانوں تک پہنچاتے تھے۔ پاکستان بننے لگا تو یہی جاگیردار مسلم لیگ میں شامل ہو گئے اور اُس کے کرتا دھرتا بن گئے۔
پاکستان میں دوسری بڑی طاقت سول و ملٹری بیوروکریسی تھی، جسے برطانوی سامراج نے ملکی وسائل کی لوٹ، عوام کو کنٹرول رکھنے اور ریاستی نظام کی احسن طریقے سے انجام دہی کے لیے اپنے مرتب کردہ اصولوں کی بنیاد پر منظم کیا تھا۔ اِس لیے نوزائیدہ حکومت پر محمد علی جناح کی گرفت بہت کمزور تھی، اور اُنہیں ملکی نظام چلانے کے لیے جاگیرداروں اور بیوروکریسی پر انحصار کرنا پڑا۔ امریکی سامراج سے امداد اور قرضوں کی اپیلیں ہونے لگیں اور ملک برطانوی سامراج سے آزاد ہونے کے باوجود قرضوں کے چنگل میں پھنس گیا اور مستقل طور پر امریکی سامراج اور جدید نوآبادیاتی نظام کی گرفت چلا گیا۔ عوام کے آزادی کے خواب چکنا چور ہونے لگے اور شوسلسٹ رحجانات پنپنے لگے تو سامراج اور بیوروکرسی کی ملی بھگت سے مذہبی عناصر کی پشت پناہی کرتے ہوئے ملکی وسائل سے سوشلزم کو لادینیت اور اسلام دشمن ثابت کرنے کی مہم کا منظم طریقے سے آغاز کر دیا گیا۔
ادھر 1948ء میں کیمونسٹ پارٹی نے اپنی کلکتہ کانگریس میں مشرقی اور مغربی پاکستان کی علیحدہ علیحدہ تنظیم قائم کرتے ہوئے عبوری ڈھانچے مرتب کر دیئے تو پاکستاں میں بائیں بازو کی باقاعدہ سیاست کا آغاز ہو گیا۔ پارٹی نے جلد ھی ملکی سظح پر عوامی تنظیمیں بنا کر کسانوں، مزدوروں، ادیبوں، خواتین اور طلباء کی تنظیمیں بنا کر ایک تحریک پیدا کر دی۔ بالادست طبقات گھبرا گئے اور اُنہوں نے 1951ء میں راولبنڈی سازش کیس بنا کر کچھ مہم جو فوجی افسروں سمیت کیمونسٹ پارٹی کے متحرک راہنماؤں کو گرفتار کر کے لمبے عرصے کے لیے جیلوں میں ڈال دیا، اور بعد ازاں 1954ء میں کیمونسٹ پارٹی اور اُس کی زیلی تنظیموں پاکستان کسان کمیٹی، پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن، انجمن ترقی پسند مصنفین، ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیذریشن اور انجمن جمہوریت پسند خواتین کو ممنوع قرار دیتے ہوئے اُن پر پابندی لگا دی۔
ملک 1956ء تک بغیر آئین کے ہی چلایا گیا اور بنیادی جمہوری اداروں تک کو بھی پنپنے نہ دیا گیا، یعنی قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی ملک پر قابض طبقات نے عوام دشمنی، استحصال اور ہماگیر بحرانوں کی بنادیں رکھ دی تھیں۔ بکھرے ہوئے ترقی پسند کارکن مختلف جمہوری جماعتوں میں کام کرتے رہے اور بعد ازاں اُنہوں نے 1957ء میں ڈھاکہ میں ملک گیر کنوینشن کر کے نیشنل عوامی پارٹی کی بنیاد رکھی۔ نیشنل عوامی پارٹی ملک کی بڑی جماعت بن کر اُبھری، جو پاکستان کی پہلی ترقی پسند جمہوری پارٹی تھی، جِس کی جڑیں مشرقی پاکستان سمیت مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں میں موجود تھیں۔ نیشنل عوامی پارٹی کا بنیادی ہدف ملک پر مسلط ون یونٹ کو ختم کر کے ملک کو جمہوری اور منصفانہ بنیادوں پر استوار کرنا اور عالمی سطح پر قرضوں اور غیر ملکی تسلط سے آزادی حاصل کر کے غیرجانبدار پالیسی اپنانا شامل تھے۔
نیشنل عوامی پارٹی نے بہت کم عرصہ میں بے پناہ مقبولیت سے جمہوریت دشمن قوتوں کو ہلا کر رکھ دیا اور انہیں خطرہ پیدا ہو گیا کہ نیشنل عوامی پارٹی دیکر عوام دوست جمہوری قوتوں کے ساتھ مل کر فروری 1958ء کے انتخابات میں غیر جمہوری قوتوں کو زبردست شکست سے دوچار کر دے گی۔ چنانچہ 8-7 اکتوبر کی درمیانی رات پاکستان کے پہلے صدر (جنرل) اسکندر مرزا نے ملکی آئین معطل کر کے اسمبلیاں تحلیل کر دیں اور سیاسی جماعتیں کالعدم قرار دے کر ملک کی تاریخ کا پہلا باقاعدہ مارشل لاء نافظ کر دیا، اور اُس وقت کے آرمی چیف جنرل ایوب خان کو ملک کا مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔ بعد ازاں ایوب کے 10 سالہ مارشلائی دور میں نیشنل عوامی پارٹی بکھر کر رہ گئی اور دوبارہ پاکستان میں ایسی ملک گیر ترقی پسند جمہوری پارٹی نہ بن سکی۔ بعد ازاں بننے والی پیپلز پارٹی میں کچھ ترقی پسند تو گئے لیکن وہ بھی جاگیرداروں اور قبائیلی سرداروں کے چنگل سے آزاد نہ ہو سکی اور ملک اندرونی طور پر فوجی آمریت اور بیرونی طور پر امریکی سامراج کی آماجگاہ بن کر رہ گیا۔
اپریل 1978ء میں افغانستان میں برپا ہونے والے ثور انقلاب کو شکست دینے اور خطے پر اپنی اجارہ داری برقرار رکھنے کے لیے امریکی سامراج نے سوویت یونین کے خلاف نیا محاذ کھول لیا اور کچھ ڈالروں کے عوض پاکستان کو اس کا مرکز بنا لیا۔ امریکی تھنک ٹینکس اور یونیورسٹیوں کی مدد سے ہمارے تعلیمی اداروں کے لیے نئے جہادی سلیبس تیار ہونے لگے اور سعودی عرب سے سرمائے کی ترسل کے ذریعے دُنیا بھر سے جہادیوں کی بھرتی شروع ہو گئی۔جہادیوں کی بھرتی میں سابق سوویت یونین کی مسلم اکثریت والی ریاستیں کابلِ ترجیح رہیں، تاکہ مستقبل میں اُن جہادیوں کو واپس بھیجا جائے تو سوویت یونین میں بھی افراتفری پھیلانے میں مدد مل سکے۔ دُنیا بھر سے 35 ہزار جہادی بھرتی کر کے پاکستان میں سی آئی اے کی زیرِ نگرانی قائم کئے گئے 70 ٹرینیگ کیمپوں میں ٹرینڈ کئے گئے اور افغانستان میں قتل وٖ غارت اور خطے میں نئی تباہی کا نہ ختم ہونے وال کھیل شروع کر دیا گیا۔ پھر اُسی جہادی ازم نے دُنیا میں مذہی انتہا پسندی اور دہشت گردی کی ایسی بنادیں استوار کیں، جِس نے دُنیا پر امریکی سامراج کی اجارہ داری قائم رکھنے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر کمزور ممالک پر دھاوا بولنے کے راستے کھول دئیے، جو آج بھی اپنی پوری شدومد کے ساتھ جاری ہیں۔
اُسی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے بل بوتے پر سابق وزیر اعظم عمران خان اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے اور اگست 2018ء سے لے کر اپریل 2022ء تک ملک کے وزیرِ اعظم رہے۔ جب پاکستان نے 1992ء میں ورلڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹ جیتا تو اُس وقت عمران خان پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی قیادت کر رہے تھے۔ پاکستان کے اِس اعزاز نے عمران خان کو نوجوانوں میں مقبولیت کی بلندیوں تک پہنچا دیا، اور وہ ایک سیلیبریٹی بن گئے۔ کرکٹ میں مقبولیت کی بنا پر ہی 1987 ء میں جنرل ضیاء الحق اور بعد ازاں نواز شریف نے اسے سیاست میں آنے کی دعوت دی، جو اُنہوں نے قبول نہ کی۔ پاکستان کی سیاست میں جمہوری عمل کے تسلسل کی بجائے جو اسٹیبلشمنٹ کی زیرِ نگرانی چھوٹے چھوٹے کنٹرولڈ جمہوری دورانیئے آتے ہیں، اُن میں جمہوری عمل کے تسلسل اور جمہوری روایات کے بنپنے کی بجائے ایسے ھیروز پیدا کیے جاتے ہیں، جنہیں عوام کو سبز باغ دکھانے کی تربیت دی جاتی ہے اور ضرورت پڑنے پر انجنئیرذ انتخابات کروا کر اُن ھیروز میں سے ایک کو محدود مدت کے لیے محدود اختیارات کے ساتھ اقتدار میں لایا جاتا ہے۔ اسی لیے عمران خان کی ذاتی شہرت کے پیشِ نظر اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے مستقبل میں استعمال کرنے کا پلان تیار ہوا۔ 1994ء میں لاہور میں شوکت خانم کینسر ہسپتال کے لیے فنڈ ریزنگ کمپین سے لے کر اپریل 1996ء میں تحریکِ انصاف کے قیام تک اُن پر ملکی اسٹیبلشمنٹ کے خصوصی شفقت رہی۔ لیکن اس سب کے باوجود 1997ء میں ہونے والے انتخابات میں اُنہوں نے ممبر قومی اسمبلی کے لیے لاہور اور میانوالی سے انتخاب لڑا تو وہ دونوں سیٹوں پر انتخاب ہار گئے۔
عمران خان نے 2002ء کے الیکشن میں بھرپُور حصہ لیا لیکن اُن کی پارٹی 272 سیٹوں میں سے صرف ایک سیٹ پر کامیاب ہو سکی جو اُن کی اپنی تھی، اور میانوالی میں اُن کا آبائی حلقہ تھا۔ پھر اُنہوں نے مشرف کے ریفرنڈم میں بھی اُس کی حمائیت کی، جبکہ دیگر تمام مین سٹریم جماعتوں نے ریفرنڈم کو فراڈ قرار دیتے ہوئے اس کی کھل کر مخالفت کی تھی۔ اُن کے اس عمل نے ان کی جمہوری نظام سے وابستگی اور اصول پسندی کو عیاں کر دیا۔ بعد ازاں اُنہوں نے جنرل پرویز مشرف کے خلاف آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ میں شمولیت اختیا کر لی، جِس میں مسلم لیگ نواز، پیپلز پارٹی اور قام پرست جماعتوں کے علاوہ بائیں بازو کی نیشنل ورکرز پارٹی بھی شامل تھی، جو اب مزید مرجرز کے ذریعے عوامی ورکرز پارٹی بن چکی ہے۔ یہاں ایک بات اور اہم ہے کہ اِس عرصہ میں عمران خان نیشنل ورکرز پارٹی کی جانب سے بائیں بازو کی جماعتوں کے باہمی مرجرز کے ذریعے بائیں بازو کی متحدہ بارٹی کے قیام کی کوششوں میں بھی دلچسپی لیتا رہا، البتہ جب بھی اُس کے ساتھ میٹنگ ہوتی تو وہ مذھبی جماعتوں، بائیں بازو اور تحریک انصاف کے انضمام سے ایک نیم مذھبی، نیم جمہوری سیاسی جماعت کے قیام کے ہی خواہاں تھے۔ اُن کی گفتگو میں نہ تو کبھی موجودہ معاشی ڈہانچے کو توڑنے کی حمائیت ہوتی تھی اور نہ ہی بیرونی قرضوں اور امریکی سامراج سے خلاصی حاصل کر کے مستحکم نظام پیدا کرنے کی سوچ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جب نیشنل ورکرز پارٹی نے دیگر بائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ انضمام کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے 2010ء میں ورکرز پارٹی اور 2012ء میں عوامی ورکرز پارٹی کی بنیاد رکھی تو اس عمل میں شامل تمام جماعتوں نے عمران خان کی تحریک انصاف سے مزید گفتگو کو رد کر دیا۔
بدلتے ہوئے حالات میں عمران خان کے پاس ماسوائے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ناطے بڑھانے اور اُس کا دشتِ شفقت حاصل کرنے کے اور کوئی چارہ نہ رھا۔ پھر اچانک عمران خان کے لیے مثبت اثرات اُس وقت ظاہر ہونے لگے جب اسٹیبلشمنٹ کی اشیرباد سے رولنگ الیٹ سے تعلق رکھنے والے سرکاری درباری الیکٹ ایبلز تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کرنے لگے۔ ایسا کرنا اسٹیبلشمنٹ کے لیے اس لیے بھی ضروری ہو گیا تھا کہ وہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان ہونے والے چارٹر آف ڈیموکریسی سے نالاں تھی، اور تیسری سیاسی قوت کو اقتدار کے کھیل میں شامل کر کے ھنگ پارلیمنٹ کے ذریعے پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کو کنٹرول کرنے کا آپشن استعمال کرنا چاہتی تھی۔ ادھر عمران خان نے طالبان سے مذاکرات اور ڈرون حملوں کے خلاف واضع موقف پر عمل کرتے ہوئے مذھبی ووٹ کو اپنی جانب کھینچا اور اس طرح مئی 2013ء میں ہونے والے انتخابات میں 30 ممبران قومی اسمبلی کی جیت اور خیبر پختون خواہ میں صوبائی حکومت بنانے کا اعزاز حاصل کر لیا۔ انتخابات کے تقریباً ایک سال بعد عمران خان نے یہ کہہ کر اسلام آباد کے لیے ایک ریلی کی قیادت کی کہ 2013ء کے انتخابات کو دھاندلی ذدہ تھے اور انہوں نے وزیراعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا۔ یہ وہی عرصہ تھا جب امریکی سرکار پاکسان اور چین کے بڑھتے ہوئے معاشی اشتراک، بالخصوص چائینہ پاکستان اکنامک کاریڈور کی وجہ سے پاکستانی سرکار سے نالاں تھی، اور دوسری طرف حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان دفاعی بجٹ اور اندرون ملک امن عامہ کے لیے رینجر و فوج بھیجنے کا معاوضہ وصول کرنے پر فوجی قیادت کے ساتھ چپکلش چل رہی تھی۔ طاقتور اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے درمیان جاری رسا کشی اس حد تک بڑھ گئی کہ وزیرِ اعظم نواز شریف کو سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کے دوران اقامہ کی بنیاد پر نااہل قرار دے دیا گیا۔
جب 2018ء کے انتخابات ہوئے تو عمران خان نے اکثریت حاصل کر لی، البتہ تمام دیگر سیاسی جماعتوں نے اسے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے سیاسی انجنیرڈ انتخابات قرار دیتے ہوئے دھاندلی کا الزام لگا دیا۔ اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان نے ایک طرف وسیع قرضے لے کر اسٹیبلشمنٹ کو خوش رکھا تو دوسری طرف چائینہ پاکستان اکنامک کاریڈور پر جاری پیشرفت کو محدود کر کے اور مذید منصوبوں پر بات چیت کھٹائی پیں ڈال کر امریکی اشیرباد بھی حاصل کر لی۔ مزید برآں، عمران دور میں ملکی نظام کو چلانے کا کنٹرول طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہی رہا اور عمران خان کی جانب سے جمہوری اداروں کو مضبوط بنادوں پر استوار کرنے کی بجائے ملکی نظام کو اسٹیبلشمنٹ کی بل بوتے پر ہی چلانے پر اکتفا کیا گیا۔ حزبِ اختلاف کے خلاف کرپشن کے تمام تر دعوؤں اور مقدمات کے برعکس اُن کے اپنے دور میں بھی شفافیت کی کوئی جھلک نظر نہ آئی۔ عمران خان کے چار برس سے بھی کم عرصہ میں لئے گئے قرضوں کا حجم پاکستان کی 70 سالہ تاریخ کے قرضوں کے کل حجم کا 76 فیصد تھا، لیکن اِس سب کے باوجود اُس کے دور میں کوئی بڑا اقتصادی منصوبہ یا انفراسٹرکچر قائم ہوا۔ ملک میں اس قدر فاشسٹ انداز میں حکمرانی کی گئی کہ جو سیاست دان یا صحافی آواز اٹھاتا، اُسے یا تو اُٹھا لیا جاتا، یا پھر نیب مقدمات بنا کر لمبے عرصہ کے لیے جیلوں میں ڈال دیا جاتا۔ بالآخر 18 اگست 2018ء کو قائم ہونے والی عمران خان کی حکومت کولیشن پارٹنرز کو ساتھ نہ رکھ پائی اور 10 اپریل 2022ء کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اپنے انجام کو جا پہنچی۔ ہاں اِس میں کوئی شق نہیں کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی کولیشن جاری رہتی تو حکومت میں شامل کولیشن پارٹنرز بھی ساتھ نہ چھوڑتے۔
تحریک عدم اعتماد کے دوران عمران خان نے ملکی آئین کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے اقتدار چھوڑنے سے انکار کر دیا، اور ایک سفارتی سیفر کو لہراتے ہوئے اپنے اقتدار کے خلاف امریکی شازش کارفرما ہونے کا نکشاف کرتے ہوئے ایسیا بیانیہ بنایا کہ عقل دنگ رہ گئی۔ یہ سب بھی اُنہوں نے اپنی گرتی ہوئی ساکھ کے پیشِ نظر، ملک میں پائے جانے والے امریکہ مخالف جذبات کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کے لیے کیا۔ مزید برآں اُس نے مذہبی کارڈ کو اِس کثرت اور مہارت سے استعمال کرنا شروع کر دیا کہ جیسے روحانی پیشوا ہونے کا دعویٰ کرنے والے ہوں۔ جب عمران خان نے اپنے دورِ اقتدار میں سیاسی مخالفین کے خلاف وسیع پیمانے پر نیب میں مقدمات بنائے تھے تو اقتدار جانے کے بعد اُن کے خلاف مقدمات بننا غیر متوقع نہیں تھا۔ لہٰذا، ان کے خلاف بھی مقدمات کی بھرمار ہو گئی اور 9 مئی 2023ء کو اُنہیں نیشنل اکاونٹینسی بیورو (نیب) نے القادر ٹرسٹ سکینڈل میں گرفتار کر لیا۔ اِس گرفتاری کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے ہوئے اور متعدد جگہوں پر پُر تشدد مظاہرین نے سرکاری و نجی املاک، بلخصوص ملٹری املاک کو نقصان پہنچایا۔ ایسا یقیناً اُنہوں نے طاقت ور ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈال کے اُس کی حمائیت حاصل کرنے کے نظریے سے کیا تھا، لیکن کچھ زیادہ ہی ہو گیا اور لینے کے دینے پڑ گئے۔ اب ہزاروں کی تعداد میں اُن کے پُر تشدد فینز کی گرفتاریاں ہو چکی ہیں اور ان کے خلاف ملٹری ایکٹ 1952ء اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923ء کے تحت مقدمات چلانے کی باز گشت ہے۔ اِس کے باوجود کہ عمران دور میں ترقی پسند دانشور ادریس خٹک کے خلاف ملٹری ایکٹ کے تحت مقدمات چلائے گئے تھے، لیکن پاکستان کے تمام ترقی پسند ملک کے سویلینز کے خلاف ملٹری ایکٹ اور سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمات چلانے کی بھرپُور مخالفت کرتے ہیں۔
اپنے تمام تر کرپشن کے بیانیئے اور اپنی ایمان داری و شفافیت کے دعوؤں کے باوجود عمران خان کا دور بھی کرپشن کے الزامات، بے ضابطگیوں، سکینڈلز، اور مینجمنٹ کے فقدان سے بھرا پڑا تھا۔ ان کی کابینہ کے وزرا پہلے گندم اور شوگر ایکسپورٹ کر کے مارکیٹ میں شارٹ کرتے اور اربوں کماتے رہے اور پھر ایمپورٹ کر کے اربوں کماتے رہے، اور اوپر سے سبسیڈیز بھی لیتے رہے۔ ایسے ہی سکینڈلز اُن کے مشیروں کی جانب سے ادویات کی قیمتوں کے تعین اور ایمپورٹ سے متعلق مشہور رہے۔ جب اسمبلی اور میڈیا میں شور مچتا تو عمران خان انکوائری کمیٹی بنا کر ایشو کو ٹھنڈا کرتے اور پھر رپورٹ کو کبھی منظرِ عام پر نہ آنے دیتے تھے۔ سب سے زیادہ چرچے وہ اپنے ملین ٹریز کے منصوبے کے کرتے رھے، لیکن اس منصوبے میں بھی ان کی صوبائی کابینہ کے ارکان نے جی بھر کر مال بنایا اور جب انکوائری ہونے لگی تو پیشہ ور چوروں کی طرح ریکارڈ رومز میں آگ لگا کر نام و نشان ھی مٹا دیا۔ اُدھر پشاور بس ریپیڈ ٹرانسپورٹ (بی آر ٹی)، جو تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کا منصوبہ تھا، دنیا کے سب سے قیمتی فی کلومیٹر بننے والا ٹرانسپورٹ منصوبوں میں شمار ہوتا ہے، اور جنہیں وہ دن رات چور کہتا ھے، انہوں نے اس سے کہیں سستے ریپیڈ ٹرانسپورٹ منصوبے مکمل کئے۔ عمران دور کے ایسے بے شمار منصوبے کرپشن اور بے ضابطگیوں کے الزامات سے بھرے پڑے ہیں، لیکن مجال ہے کہ اُنہوں نے ان میں سے کسی ایک کی بھی شفاف طریقے سے تحقیقات کروا کر اُسے منطقی انجام تک پہنچایا ہو۔ اِس سب کے باوجود عمران خان کی جانب سے اپنے سیاسی مخالفین کو چور اور اپنے آپ کو دنیا کا ایماندار ترین حاکم ظاہر کرنا حیرت کی بات ہے۔
القادر ٹرسٹ کیس بھی دلچسپ ہے جو اِس وقت نیشنل اکاونٹینسی بیورو کے پاس زیر تفتیش ہے۔ یہ مقدمہ 2019ء میں پاکستان کے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے خلاف برطانیہ کی نیشنل کرائمز اتھارٹی کی جانب سے منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے دوران تصفیہ کے طور پر 190 ملین پونڈز کی جرمانہؕ، یا پھر ملک ریاض کی جابن سے کیس سیٹلمنٹ کی رقم تھی، جو برطانوی قوانین کے مطابق پاکستانی حکومت کو دینے کا فیصلہ ہوا۔ عمران خان نے اس رقم کو وصول کرنے کے لیے قانونی طریقہ اپناتے ہوئے وزارت خزانہ کے سپرد کرنے کی بجائے اپنے ایڈوائزر کے ذریعے بالواسطہ طور پر ملک ریاض ہی کو دے دی۔ ملک ریاض کے بحریہ ٹاؤن کراچی نے وسیع پیمانے پر سرکاری اراضی ہڑپ کر کے اُسے رہائشی کالونی بنا کر بیچنے پر مقدمہ کا فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے اُنہیں 490 ارب روپے جرمانہ کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس رقم کی وصولی کے لیے قسطوں پر ادائیگی کی منظوری دے دی تھی اور سپریم کورٹ کا بینک اکاونٹ کھول دیا تا کہ ملک ریاض قسطوں میں رقم ادا کر سکے۔ عمران خان نے برطانیہ سے ملنے والی 190 ملین پونڈز کی رقم، جو وہ 140 ملین پونڈز کہتے ہیں، اُس اکاونٹ میں جمع کروا دی اور اُس کے عوض ملک ریاض سے 13 ارب مالیت کی اراضی اپنے اور اپنی بیوی کے نام پر ٹرانسفر کروا لی۔ اب وہ ٹرسٹ بنا کر اسے اراضی دے دینے کا کہہ رہے ہیں، لیکن یہ سب کِس قانوں کے تحت۔حقیقت تو یہی ہے کہ جو رقم قانون کے مطابق سرکاری خزانے میں جانا تھی، وہاں نہیں گئی۔ کس نے کتنا کھایا اور کتنا مال بنایا، یہ سب تو تحقیقات سے ہی معلوم ہو سکے گا اور تحقیکات یقیناً شفاف انداز میں ہونی چاہیں۔ یہی وہ اپنے زمانے میں مخالفین کے بارے میں کہتے تھے کہ وہ نیب انکوائری مکمل ہونے دین اور ادالتوں کا سامنا کریں۔
عمران خان کا امریکہ مخالف بیانیہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ حقیقت تو یہی ہے کہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ قرضے لے کر پاکستاں کی غلامی میں عمران خان نے جو حصہ ڈالا ہے وہ سب سے نمایا ہے۔ سائفر والے واقعے کے چند ماہ بعد ہی اُنہوں نے امریکی سرکار کے ساتھ تعلقات کو نئے سرے سے استوار کرنے کے لیے امریکہ کی مشہور لابنگ فرم کو ہائیر کر لیا، تا کہ ان کی امریکی ایوانوں میں گرنے والی ساکھ کو دوبارہ بحال کیا جا سکے۔ اب تو اُنہوں نے اپنے مقدمات اور متوقع گرفتاری سے بچنے کے لیے امریکہ سے مدد کی اپیلیں کرنا بھی شروع کر دی ہیں۔ ایسی اپیلوں میں وہ پاکستان کے امیج کو ایسے مسخ کر کے پیش کرتے ہیں کہ یقین ہی نہیں آتا کہ وہ ایک اسٹیٹس مین رہ چکے ہیں۔
پاکستان کے ابھرتے ہوئے سیاسی منظرنامے کا بغور جائزہ لیں تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہ ہو گا کہ عمران خان کی سیاسی ساکھ کو ذبردست نقصان پہنچا ہے اور اُن کا سیاسی مستقبل مخدوش نظر آ رہا ہے۔ شائد اُن کو لمبے عرصہ کے لیے جیل جانا پڑ جائے یا پھر تاریخ کو دہراتے ہوئے اُنہیں جلا وطنی کی زندگی گزارنا پڑے۔








Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *