Main Menu

برطانوی ہڑتالیں، مہنگائی اور بے حس حکمران تحریر: پرویز فتح ۔ لیڈز، برطانیہ

Spread the love

برطانیہ اِن دنوں مزدوروں و ملازمین کی ہڑتالوں کے بھنور کی طرف بڑھ رہا ہے۔ خوراک، انرجی اور روزمرہ استعمال کی بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ عوام میں بے چینی، عدم استحکام اور بے چینی کا سبب بن رہا ہے۔ جون 2022ء میں ریلوے کے 40 ہزار مزدوروں کی جانب سے تین روزہ ہڑتال سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ اب اشرافیہ نواز، عوام دشمن حکومتی پالیسیوں کے خلاف تحریک کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اشرفیہ کی نمائندہ کنزرویٹو حکومت نے ہڑتالی ملازمین کی تنظیموں کے ساتھ مذاکرات کرنے کی بجائے بلیک میلنگ اور دھمکیوں کا راستہ اپناتے ہوئے غیر جمہوری آئینی ترمیم کر کے ان ہڑتالوں کو کچلنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ اِس وقت جو آمرانہ آئینی تبدیلیاں زیرِ غور ہیں اُن کے تحت ہڑتالی ملازمین کو دورانِ ہڑتال کام پر جبراً بلانے کے اختیارات سے لے کر ملازمت سے برخواست کرنے جیسے غیر جمہوری ھتھکنڈے شامل ہیں۔ اُدھر ایک کے بعد دوسرا ادارہ حقوق کی اِس جدوجہد میں شامل ہو رہا ہے اور ہڑتالوں کی کال، جنہیں برطانیہ میں انڈسٹریل ایکشن کہا جاتا ہے، کا راستہ اپنانے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ حکومتی ہٹ دھرمی کی بدولت اب یہ برطانوی تاریخ کی سب سے بڑی ہڑتالیں بن چکی ہیں، جِن میں ملکی تاریخ میں پہلی بار نیشنل ہیلتھ سروس کی تین لاکھ اکیس ہزار نرسوں کی شمولیت اور سکولز، کالجز اور یونیورسٹیوں کے پانچ لاکھ سے زیادہ اساتذہ و لیکچرارز کی شمولیت نے حکومتی ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ تین لاکھ بیس ہزار پوسٹل ورکرز تو پہلے مرحلے میں ہی اِن ہڑتالوں کا حصہ بن چلے تھے۔ اب تو ایمبولنس ورکرز، ریلوے ملازمین، فزیوتھراپسٹ، بارڈر کنٹرول فورس، ایمیگریشن ورکرز، ہوم آفس ورکرز، بارڈر فورس، رورل پے منٹس ایجنسی، ڈیپارٹمنٹ فار ورک اینڈ پنشن، نیشنل ہائی ویز ورکرز، لِفٹ ورکرز، بس ڈرائیورز، ٹرین ڈرائیورز، سیکورٹی گارڈز اور ڈرائیونگ ایگزامینر کے طور پر کام کرنے والے افراد کے علاوہ 124 سرکاری اداروں کے لاکھوں ملازمین ان ہڑتالوں کا حصہ بن چکے ہیں۔ اب تو اِن ہڑتالوں میں لاکھوں کی تعداد میں سول سروس کے بابو لوگ بھی شامل ہو گئے ہیں، اور اُن کا دِنوں کی بجائے ہفتوں اور مہینوں کا شیڈول آ چکا ہے۔ سکول، کالجز اور یونیورسٹیاں اساتذہ کے بغیر اور ہسپتال نرسوں کے بغیر چل رہے ہیں۔ اِس طرح برطانیہ ایک خطرناک بحران کے طرف بڑھ رہا ہے۔

۔ بظاہر تو یہ ملازمین روز مرہ استعمال کی چیزوں میں ہوشربا اضافہ، سماجی بہبود کے فنڈز میں بڑھتی ہوئی کٹوٹیاں، کوویڈ کی وبائی مرض کے وقت سے تنخواہوں کا منجمد ہونے، اور بڑہتے ہوئے افراطِ زر کی وجہ سے تنخواہوں میں مناسب اضافہ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن ان ہڑتالوں کا اصل محرک سرمایہ داری نظام کا بڑھتا ہوا بحران ہے، جِس میں اشرفیہ امیر سے امیر تر اور ملازمت پیشہ عوام بنیادی ضرورتوں سے محرام ہوتے جا رہے ہیں۔ سامراج کی مسلط کردہ جنگیں، بڑھتے ہوئے جنگی اخرجات، اداروں اور فیکٹریوں میں چھانٹیاں، محنت کشوں اور محنت کار عوام میں بڑھتا ہوا عدم تحفظ، تنخواہوں کا منجمند کیا جانا، پبلک سروسز میں انڈر انویسٹمنٹ، اور خوراک اور روزمرہ استعمال کی اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتیں وہ اہم عوامل ہیں، جن سے محنت کشوں و محنت کار عوام اور عام شہریوں کا جینا دوبھر ہو گیا ہے۔

دُنیا، بالخصوص یورپ اور امریکہ میں اس وقت بحرانی صورت حال پیدا ہو چکی ہے۔ خوراک نایاب ہے، یا پھر عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو چکی ہے۔ روز مرہ کے اخراجات ناقابلِ برداشت ہو چکے ہیں، جِس سے عوام کا جینا دوبھر ہو گیا ہے۔ کوویڈ کی وبائی مرض نے ایک طرف ارب پتیوں کو کھرب پتی بنا دیا تو دوسری طرف اس عرصہ میں محنت کشوں اور عام ملازمت پیشہ عوام کی تنخواہوں کو اشرافیہ نواز حکمرانوں اور سرمایہ داروں نے فریز کر دیا گیا ٹھا۔ کوویڈ وباء کے خوف ناک حالات میں ایک طرف محدود ورک فورس نے کام سنبھالے رکھا، تو دوسری طرف سرمایہ داروں اور اشرافیہ کی نمائیندہ حکومتوں نے اسے بنیاد بنا کر اداروں کی ماڈرنائزیشن کے نام پر چھانٹیاں اور کم افراد سے کام چلانے کی روش اپنا لی۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت ترقی یافتہ ممالک میں بے روزگاری عروج پر پہنچ چکی ہے۔ ہر ادارہ اپنے اخراجات کم کرنے اور منافع بڑھانے کے لیے چھانٹیاں کر رہا ہے، جس نے ملکی محنت کشوں اور ملازمت پیشہ عوام میں عدم استحکام کو جنم دیا ہے۔ اِس سب کا عوامی ردِ عمل لازم تھا، جو اب اِن ہڑتالوں کی صورت میں نمودار ہو رہا ہے۔

سامراجی ممالک کی مسلط کردہ جنگیں ایک طرف عالمی امن کو تباہ کر رہی ہیں، اور ترقی پزیر ممالک کے وسائل کی لوٹ کو بڑھا رہی ہیں، تو دوسری طرف کھانے پینے اور روز مرہ استعمال کی اشیاء کے ترسیل کو متاثر کر کے دُنیا بھر میں مصنوعی قلت کے ذریعے مہنگائی کا نہ ختم ہونے والا طوفان برپا کر رہی ہیں۔ یورپین یونین کے قیام، سنگل کرنسی کی کامیابی، اور یورپی ممالک کے درمیان ٹیکس فری باہمی تجارت نے امریکی اشیاء کی یورپی ممالک میں فروخت محدود کر دی، تو برطانوی رولنگ الیٹ نے امریکی سامراج سے اپنی وفاداری نبھاتے ہوئے یورپین یونین سے علیحدگی اختیار کر کے اُسے کمزور کرنے کی کوشش کی۔ اس کی لابنگ کے لیے کارپوریٹ میڈیا کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے برطانوی عوام کو جھوٹ پر مبنی سبز باغ دکھائے گئے اور جھوٹ کو اِس تواتر کے ساتھ بولا گیا کہ وہی سچ نظر آنے لگا۔ بالاخر ایک ریفرنڈم کے ذریعے برطانیہ یورپین یونیں سے علیحدہ ہو گیا، جِسے بریگزایٹ کہا جاتا ہے۔ اِس کا لازمی اثر برطانوی معیشت پر پڑا جو پہلے مرحلے میں ہی ملکی ایکسپورٹ کے 58 فیصد سے کم ہو کر 42 فیصد، یعنی 267 بلین پونڈز پر آ چکی تھی اور اب یورپین یونین کا حصہ نہ ہونے کی وجہ سے نئے ٹیکسز کی زد میں آ کر مزید سکڑ کر رہ گئی۔ بعد ازاں معیشت کو کوویڈ کی وبائی مرض سے بھی نقصان پہنچا، لیکن رہی سہی کسر روس یوکرین جنگ نے پوری کر دی۔ یورپ میں کھانے پینے کی اشیاء سے لے کر سستا تیل اور گیس روس سے ہی آتا تھا، اور روسی گیس پر یورپین صنعت کا مکمل طور پر انحصار تھا، جو پائپ لائن کے ذریعے ارزاں نرخوں پر شہروں، گلی محلوں سے لے کر فیکٹریوں تک بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچ رہی تھی۔ اب برطانیہ کی کار سازی کی صنعت بھی بند ہونے کی طرف بڑھ رہی ہے، جِس کا دارومدار یورپین ممالک اور روس سے پرزہ جات کی بروقت ترسیل پر تھا۔ اِن حالات کا لازمی اثر معیشت پر پڑے گا، بے روزگاری بڑھے گی، سرکاری اداروں کی نج کاری ہو گی، اداروں کی لُوٹ سیل اور بندر بانٹ ہو گی، اور عین ممکن ہے کہ برطانوی سرکار بنیادی سروسز، بالخصوص صحت اور تعلیم جیسے اداروں کو نجی شعبے کر حوالے کر کے اپنی ذمہ داریوں سے سُبقدوش ہو جائے۔

عالمی معاشی ماہرین کے مطابق دُنیا اِس وقت خطرناک معاشی بحران کی جانب بڑھ رہی ہے۔ برطانوی اسٹیٹ بینک کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ملکی معیشت کی شرع نمو روان سال میں ایک فیصد تک گرنے کا خدشہ ہے، جو آنے والے برسوں میں خطرناک صورتِ حال اختیار کر جائے گی۔ اگلے برس 2 فیصد اور اُس سے اگلے دو برس اڑھائی فیصد تک گرنے کا امکان ہے۔ اس بحران کی بنیادی وجہ تو روس یوکرین تنازعہ ہی ہے، جو سامراجی ممالک نے اپنی عالمی بالادستی اور استحصال کو بڑھانے کے لیے خود ہی پیدا کیا ہے۔ اصل تنازعہ تو یوکرین کا نیٹو اتحاد کا حصہ بن کر روس سے ملحقہ بارڈر پر امریکی میزائل نصب کرنا تھا، جو بلا شعبہ روس کی سالمیت کو چیلنج کرنے کے مترادف تھا۔ جونہی یورپی ممالک امریکی سامراج کی سازش سے شروع کی گئی روس یوکرین جنگ کی مدد کے لیے کودے تو روس نے انہیں گیس کی قیمتں امریکی ڈالر کی بجائے روبل میں ادا کرنے کا حکم صادر کر دیا۔ اس اعلان نے امریکی ایوانوں میں ہلچل مچا دی کیونکہ امریکی سامراج کے لیے یورپین ممالک کی تجارت کی روسی روبل میں ادائیگیاں یقیناً ایک بڑا دھچکا تھا اور اس نے دباؤ ڈال کر روسی تیل اور گیس کی خرید کم کر کے امریکہ اور دیگر ممالک سے مہنگے داموں خریدنے کی ترغیب دی۔ اس سے دنیا بھر میں، بالخصوص یورپ اور امریکہ میں مہنگائی کا ایک نیا طوفان آ گیا، جس نے عوام کا معیار زندگی اس قدر گرا دیا کہ وہ سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہو گئے۔

سرمایہ دار ممالک اور اُن کے زیرِ سایہ پنپنے والی اجارہ دار سرمایہ داری اِس وقت ایک خوفناک صورت اختیار کر چکی ہے۔ حال ہی میں عالمی اقتصادی فورم کے موقع پر عالمی خیراتی اداروں کے گروپ آکسفیم کی طرف سے جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق اس وقت دُنیا میں انتہائی امیر افراد کی دولت میں یومیہ 2 ارب 70 کروڑ ڈالر کا اضافہ ہو رہا ہے، اور اِس طرح دُنیا بھر میں پیدا ہونے والی نئی دولت کا دو تہائی حصہ صرف ایک فیصد امیر ترین افراد کے ہاتھوں میں جارہا ہے۔ گذشتہ ہفتے عالمی انرجی کمپنی شیل نے اپنی سالانہ رپورٹ برائے 2022ء شائع کی تو انکشاف ہوا کہ اُن کا منافع ایک سال میں ہی ڈبل ہو کر 32 بلین پونڈز سے تجاوز کر گیا ہے۔ ایسی ہی سالانہ رپورٹ اِس ہفتے برٹش پیٹرولیم نے شائع کی ہے اور اُن کا منافع بھی ایک برس میں دو گنا سے بھی زیادہ بڑھ کر 27 بلین سے زیادہ ہو گیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ منافع گذشتہ برس بھی کوویڈ وباء کے باوجود اسی تناسب سے بڑھا تھا۔ آکسفیم کی رپورٹ میں یہ بھی واضع کیا گیا ہے کہ 2020ء کے بعد، یعنی کوویڈ کے وبائی مرض کے بعد سے پیدا ہونے والی دولت کا کل حجم 420 کھرب ڈالر ریکارڈ کیا گیا ہے، جس کا 63 فیصد حصہ یعنی 260کھرب ڈالر دنیا کے انتہائی امیر افراد کے ہاتھوں میں چلا گیا، جو عالمی آبادی کا صرف ایک فیصد ہیں۔ جبکہ باقی 160کھرب ڈالر یعنی 37 فیصد دولت دنیا کی باقی ماندہ 99 فیصد آبادی کے پاس جا رہی ہے۔ اس وقت دنیا کے 10 فیصد امیر ترین افراد کو چھوڑ کر دنیا کی 90 فیصد آبادی میں شامل ہر ایک فرد کی ایک ڈالر کمائی کے مقابلہ میں دنیا کے انتہائی امیر افراد میں سے ہر ایک کی کمائی 17 لاکھ ڈالر ہے۔گزشتہ سال خوراک اور ایندھن کی قیمتوں میں تیزی سے اضافے سےایک طرف دُنیا بھر کی عوام اناج کو ترس رہی ہے، تو دوسری طرف انتہائی امیر طبقہ کی دولت میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ ہے سرمایہ داری نظام کا مکروہ چہرہ اور نیا عالمی معاشہ بحران، جو کمزور ممالک اور غریب عوام کا خون نچوڑنے میں اِس قدر پاگل ہو چکے ہیں کہ اُنہیں دولت ہتھیانے کے سوا کچھ نظر نہیں آ رہا۔

اقوامِ متحدہ کے مطابق دُنیا بھر کے عوام کو مہنگائی کے اِس عالمی طوفان سے نکالنے کے لیے روس سے اناج کی فراہمی اشد ضروری ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے گزشتہ دنوں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ دُنیا بھر میں خوردنی اجناس کی قیمتوں میں ہوشرباء اضافہ اور عالمی سطح پر بڑہتی ہوئی مہنگائی میں کمی کے لیے روسی اجناس کی دُنیا بھر میں ترسیل ناگزیر ہے۔ روس پر امریکہ اور یورپین ممالک کی معاشی پابندیوں کا ذکر کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ اس کی زد میں پٹرولیم مصنوعات سمیت اجناس کی درآمدات بھی آتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور یورپین یونین کے ممالک کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں اور ان ممالک کو خوراک کے عالمی بحران پر سنجیدگی سے سوچنا ہو گا۔ اُنہوں نے روس یوکرین جنگ کے فوری خاتمہ پر زور دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر اقوامِ عالم نے جنگ کو ختم کروانے کی سنجیدہ کوششیں نہ کیں اور خوراک کے عالمی بحران پر سنجیدگی نہ دکھائی تو غریب ممالک میں قحط کے حالات پیدا ہو جائیں گے، جو نئے انسانی المیے کو جنم دے سکتے ہیں۔

ہڑتالوں پر نکلے برطانوی مزدور اور ملازمت پیشہ عوام ملک میں بڑھتے ہوئے افراط زر کے تناشب سے تنخواہوں ہیں اضافہ کا مطالبہ کر رہے ہیں، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ گذشتہ 12 برس سے مسلط ٹوری حکومت کی جانب سے ایک عشرے سے فنڈ میں کی جانے والی کمی سے این ایچ ایس، سکول، کالج، یونیوسٹیاں اور سماجی بہبود کے بنیادی ادوارے زبردست بحران کا شکار ہیں اور فنڈز کی کمی ایک گھمبیر شکل اختیار کر چکی ہے۔ کم ملازمین سے کام چلانا روزمرہ کا دستور بن چکا ہے، جِس سے ان اداروں کے ملازمیں مسلسل ذہنی دباؤ کا شکار ہیں اور مینٹل ہیلتھ جیسے مسائل کا شکار ہو رہے ہیں۔ ہڑتالی مزدور و ملازمین مہنگائی اور افراطِ زر کے تناسب سے تنخوہوں میں اضافہ اور روزگار کے تحفظ کا جائز مطالبہ کر رہے ہیں اور راقم سمجھتا ہے کہ اِن ہڑتالوں سے حکومت کو یہ واضح پیغام جائے گا کہ وہ منصفانہ تنخواہوں کے مطالبے کو مسلسل نظر انداز نہیں کرسکتی۔ اب وزیراعظم اور چانسلر کو ہیلتھ سروس، تعلیم، دیگر سرکاری، نیم سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے ملازمین کے دیرینہ مسائل حل کرنے پر توجہ دینی ہو گی۔ اب انھیں اپنا وقت غیر جمہوری ہتھکنڈوں کے ذریعے ہڑتال کے حق پر قدغن لگانے کے بجائے عوام کے مسائل حل کرنے پر صرف کرنا ہو گا۔






Related News

بنگلہ دیش کی صورتحال: بغاوت اور اس کے بعد۔۔۔ بدرالدین عمر

Spread the love(بدرالدین عمر بنگلہ دیش اور برصغیر کے ممتاز کمیونسٹ رہنما ہیں۔ وہ بنگلہRead More

بلوچ راجی مچی ڈاکٹر شاہ محمد مری

Spread the love ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور اُس کی بلوچ یک جہتی کمیٹی نےRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *