Main Menu

احمد نظامی مظلوم، محکوم اور پسے ہوئے طبقات کی آواز تھے

Spread the love

بری، 3 جون ۔ (رپورٹ: پرویز فتح) ۔ احمد نظامی مظلوم، محکوم اور پسے ہوئے طبقات کی آواز تھے۔ وہ برطانیہ اور پاکستان میں کسانوں اور مزدوروں کو منظم کر کے ترقی پسند جمہوری معاشرے کے قیام کے لیے کوشاں رہے۔ وہ رنگ، نسل، مذہب اور فرقےکی تفریق ختم کر کے سماج برابری اور انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔ اپنے عہد طالب علمی میں ترقی پسند نظریات اپنائے اور اپنے آخری سانس تک اُس پر کاربند رہے۔ بری، گریٹر مانچسٹر کی نو منتخب میئر کونسلر شاہینہ ہارون کی صدارت میں نامور ترقی پسند ادیب، صحافی اور عوامی ورکرز پارٹی نارتھ برطانیہ کے سابق صدر احمد وارث نظامی کی پرسی۔ تقریب سے شیڈو منسٹر افضل خان، پی ایم اے کے صدر پروفیسر ڈاکٹر اشرف نظامی، کونسلر شاہینہ ہارون، انعام الرحمان سحری، ڈپٹی لیڈر بری کونسل تیمور طارق، عوامی ورکرز پارٹی نارتھ برطانیہ کے صدر و سینئر صحافی محبوب الہی بٹ، ڈاکٹر لیاقت ملک، محمد ضمیر بٹ، پریس کلب آف پاکستان برطانیہ کے صدر پروفیسر پرویز مسیح مٹو، خالد سعد قریشی، نجیب الرحمان، ڈاکٹر ظفر رامے، نامور پریزنٹر شاہین بٹ، انور شاد، چوہدری سعید اللہ، ڈاکٹر یونس امین، فاروق نظر، ابرار شیخ، ایفی خان، جگتار سنگھ شہری، خواجہ وسیم الطاف، ملک مقبول، محمد سعید، سہیل ہاشمی اور چوہدری محمد یوسف شامل تھے۔ تقریب سے احمد نظامی کے بھائی و پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر کے صدر پروفیسر ڈاکٹر اشرف نظامی خصوصی طور پر پاکستان سے آئے تھے۔
پروفیسر ڈاکٹر اشرف نظامی نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ رہ میرے بڑے بھائی ہی نہیں، بلکہ باپ کی طرح تھے۔ ہمارا گھرانا مجموعی طور پر مذہبی تھا لیکن ہمارے بڑے بھائی غلام صابر نظامی کالج گئے تو اُس زمانے میں دُنیا بھر میں زرعی اصلاحات اور صنعتوں کو قومی تحویل میں لینے کے تحریکیں چل رہی تھیں۔ ترقی پسند نظریات عروج پر تھے اور بھائی صابر نظامی اُس کے ازیر بن کر ٹریڈ یونین تحریکوں کو منظم کرنے لگ گئے۔ وہیں سے ہم سب بھائی ملک کے مظلوم، محکوم طبقات، کسانوں، مزدوروں کی سیاست سے منسلک ہو گئے اور محنت کشوں کو منظم کرنے لگ گئے اور آج تک اپنے نظریات کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ۔ مقررین نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ احمد نظامی برطانیہ میں انسانی حقوق کے علم بردار، ریسزم مخالف کمپینر اور سماجی برابری کے لیے کوشاں تھے، برسوں تک کینسر جیسی جان لیوا بیماری سے لڑتے لڑتے گزشتہ برس5 فروری کو ہم سے جدا ہو گئے تھے۔ وہ عوامی ورکرز پارٹی نارتھ برطانیہ کے صدر اور اور جلیانوالہ باغ سانحہ کے خلاف 2019 میں بننے والی صد سالہ کمپین کمیٹی مانچسٹر ریجن کے کوارڈینیٹر تھے۔ ستمبر 1952 میں اوکاڑہ میں پیدا ہونے والے احمد نظامی نے ابتدائی تعلیم اوکاڑہ سے، انٹرمیڈیٹ ساہیوال سے اور گریجویشن لاہور سے کی۔ تعلیم مکمل کر کے لاہور میں ہی روزنامہ آفاق سے صحافتی سفر کا آغاز کیا۔ کچھ عرصہ بعد کراچی چلے گئے اور روزنامہ جنگ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر رہے۔ بعد ازاں روزنامہ امن سے وابستہ ہو گئے۔
احمد نظامی ایک کمیٹڈ نظریاتی اور سیاسی انسان تھےاور انہوں نے برطانیہ میں نسل پرستی کے خلاف ساؤتھ ایشین کمیونٹی کو اکٹھا کرنے، انقلابی سیاست میں عملی طور پر شراکت کے علاوہ جلیانوالہ باغ خونی سانحہ کے سو سال مکمل ہونے پر 2019 میں عوامی سطح پر شعور اجاگر کرنے اور برطانوی سرکار کی جانب سے اس وحشیانہ بربریت پر ریاستی سطح پر معافی مانگنے کے مطالبے سمیت مختلف کمپینز میں حصہ لیا اور ان کی قیادت کی۔
مارچ 1970 میں احمد نظامی ابھی 17 برس کے تھے جب ٹوبہ ٹیک سنگھ میں تاریخی کسان کانفرنس ہو رہی تھی اور انہوں نے اوکاڑہ سے لاہور پہنچ کر مولانا بھاشانی کے ساتھ اس خصوصی ٹرین میں سفر کیا تھا جس کا نام کسان ایکسپریس رکھا گیا تھا اور جو ہزاروں ترقی پسند ادیبوں، صحافیوں، کسانوں مزدوروں، طالب علموں اور خواتین کو لے کر ٹوبہ ٹیک سنگھ گئی تھی۔ اس کانفرنس میں شرکت کے بعد احمد نظامی نے نیشنل عوامی پارٹی میں باقاعدہ طور پر شرکت اختیار کر لی۔ تعلیم مکمل کر کے وہ صحافت کے پیشے سے منسلک ہو گئے تھے۔ اس دوران 5 جولائی 1977 کو انہوں نے نیشنل بینک میں ملازمت کر لی، لیکن دوسرے لوگوں کے جائز و ناجائز سرمائے کا حساب رکھنا ان کے مزاج کے خلاف تھا اور چار ماہ میں ہی ملازمت چھوڑ کر دوبارہ صحافت سے منسلک ہو گئے۔
پاکستان میں ڈکٹیٹر ضیاء کے دور میں صحافیوں پر بے پناہ تشدد ہوا، اور احمد نظامی بھی اُس تشدد کا نشانہ بنے۔ بعد ازاں وہ 1989ء میں برطانیہ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تو اُس وقت تک اُن کے باہیں اور ٹانگین تشدد کے زخموں سے چُور تھیں اور اُسی کی وجہ سے اُنہیں یہاں سٹے ملنے میں آسانی ہو گئی تھی۔ وۃ یہاں آ کر مانچسٹر میں آباد ہو کر اردو صحافت کے ساتھ اپنا رشتہ برقرار رکھا۔ یہاں ان کے قریبی رفقاء میں محبوب الہی بٹ، محمد ضمیر، پروفیسر امین مغل اور ہمراز احسن، ڈاکٹر لیاقت ملک شامل تھے۔ مانچسٹر میں اپنی صحافتی اور سیاسی سرگرمیوں کے باوجود اُنہوں نے اپنا قیام بری میں رکھا۔ چند ماہ مانچسٹر میں روزنامہ جنگ میں جونیئر رپورٹر کی حیثیت سے کام کیا اور پھر انہیں روزنامہ آواز میں سب ایڈیٹر کر جاب مل گئی۔ جلد ہی وہ ایک تجربہ کار ایک منجھے ہوئے سیاسی تجزیہ نگار، ٹیلی ویژن کے میزبان، خبروں اور کرنٹ افیئر شوز کے اینکر بھی بن گئے۔ انہوں نے یہاں آ کر وکالت میں ڈپلومہ کر کے کچھ عرصہ برطانوی امیگریشن امور میں کمیونٹی کی رہنمائی کی۔ برطانیہ آمد کے چند برس بعد ہی وہ مانچسٹر کے پہلے برطانوی پاکستانی صحافی بن گئے جنہوں نے مانچسٹر سے ہفتہ وار اخبار اردو اور انگریزی، دو زبانوں میں شائع کیا۔ بعد ازاں انہوں نے انگریزی، اردو، پنجابی اور بنگالی چار زبانوں میں اخبار نکالا۔ احمد نظامی نے 90 کی دہائی میں گریٹر مانچسٹر سے پہلی ایشین بزنس ڈائریکٹری شائع کی جس نے آج کے بہت سے کامیاب منصوبوں کی راہ ہموار کر دی جو اب برطانوی ایشینز بالخصوص پاکستانی کمیونٹی کی ضروریات کو پورا کر رہے ہیں۔
احمد نظامی کی زندگی ایک سرگرم کمیونٹی کارکن کے طور پر خدمات سے بھری پڑی ہے اور انہوں نے ہمیشہ برطانوی پاکستانیوں کی مدد کے لیے جدید طریقے تلاش کیے۔ جب 2005 میں مانچسٹر میں پہلا برطانوی پاکستانی سیٹلائٹ ٹیلی ویژن چینل ڈی ایم ڈیجیٹل لانچ کیا گیا تو احمد نظامی کو نان ایگزیکٹو ڈائریکٹر مقرر کیا گیا اور وہ خبروں اور کرنٹ افیئر پروگراموں کی نگرانی کرتے رہے۔ اکتوبر 2009 میں احمد نظامی نے باقاعدہ طور پر نیشنل ورکرز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ بعد ازاں نیشنل ورکرز پارٹی نے بکھرے ہوئے ترقی پسندوں کو اکٹھا کرنے اور بائیں بازو کی پارٹیوں کے انضمام کا سفر جاری رکھتے ہوئے 2010 میں ورکرز پارٹی اور 2012 میں عوامی ورکرز پارٹی کی بنیاد رکھی تو فروری 2013 میں عوامی ورکرز پارٹی نارتھ برطانیہ کے بریڈ فورڈ میں منعقد ہونے والے فاؤنڈنگ اجلاس میں احمد نظامی کو پارٹی کا سینئر نائب صدر منتخب کر لیا گیا۔ بعد ازاں رشید احمد سرابھا علیل ہو گئے تو وہ صدر بن گئے۔ احمد نظامی نے مانچسٹر اور گرد و نواح میں انقلابی تحریک کو منظم کرنے اور تقریبات منعقد کرنے میں قائدانہ کردار ادا کیا۔
فیض احمد فیض کی صد سالہ تقریبات 2011 میں منانے کے لیے برطانیہ بھر کے ترقی پسندوں کو ملا کر نیشنل کوارڈینشن کمیٹی بنی تو احمد نظامی اس کے رکن اور مانچسٹر کمیٹی کے آرگنائزر منتخب ہوئے۔ سب سے پہلی تقریب بھی 5 مارچ 2011 کو مانچسٹر ہی میں منعقد کی گئی جو شہر کی تاریخ کی بہترین تقریب تھی جس میں 400 سے زیادہ لوگوں نے شرکت کی تھی۔
2019 میں سانحۂ جلیانوالہ باغ کو سو سال مکمل ہونے تھے تو 2018ء کے آخر میں ہی ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کے ترقی پسندوں نے مل کر جلیانوالہ باغ سینٹینری کمیٹی تشکیل دی۔ 23 دسمبر 2018 کو احمد نظامی نے مانچسٹر سٹی کالج کے ہال میں مانچسٹر ریجن کا فاؤنڈیشن اجلاس بلا لیا۔ اجلاس میں ریجنل کمیٹی بنی تو احمد نظامی اس کے کنوینئر منتخب ہوئے۔ انہوں نے کمیٹی کی مدد سے مانچسٹر میں دو تقریبات منظم کیں جو اس قدر کامیاب رہیں کہ اس سے متاثر ہو کر ایک تقریب روزنامہ مارننگ سٹار، یونائیٹ یونین اور کمیونسٹ پارٹی برطانیہ نے مانچسٹر میں منعقد کی اور ایک فرینج میٹنگ برطانیہ کے سکولوں کالجوں اور یونیورسٹی کے اساتذہ کی کی تنظیم جسے نیشنل ایجوکیشن یونین کہتے ہیں، نے مانچسٹر میں اپنی کانفرنس کے دوران منعقد کی۔
احمد نظامی 2009 میں بیرون ملک مقیم پاکستانی صحافیوں کے لئے کام کرنے والی ایک تنظیم جو اوورسیز پاکستانی جرنلسٹس کونسل (او پی جے سی) کے فاؤنڈنگ صدر منتخب ہوئے تھے۔ وہ اپنی آخری سانس تک خلش میگزین اور خلش آن لائن کے ناشر اور ایڈیٹر بھی رہے۔ انہوں نے اپنا آن لائن ٹیلی ویژن چینل این ایس ٹی وی بھی بنایا، جس میں کرنٹ افیئرز، کتاب میلہ اور ادبی پروگرام دریچے قابل ذکر ہیں۔ کرنٹ افیئرز کے پروگرام وہ خود ہوسٹ کرتے تھے جبکہ کتاب میلہ نامور ادیب سرور غزالی اور دریچے نامور

شاعرہ محترمہ بختاور شاہ شفق ہوسٹ کرتی تھیں۔

احمد نظامی نے برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں رہتے ہوئے، جہاں پر آسائش زندگی کے مواقعے موجود ہیں، انقلابی سیاست اور پاکستان میں مظلوم، محکوم اور پسے ہوئے طبقات، کسانوں اور مزدوروں کی زندگیوں میں بہتری لانے کا ہی انتخاب کیا۔ وہ ایک انتہائی سنجیدہ، با علم، با عمل اور تجربہ کار سیاسی کارکن تھے جو ہمہ وقت سیاسی سرگرمیوں کے لیے تیار رہتے تھے۔ وہ جب بھی کوئی ٹاسک لیتے تو اسے بروقت پورا کرتے اور ساتھیوں کے بھروسے پر پورا اترتے تھے۔ سماجی تبدیلی، مساوات اور انصاف پر مبنی سماج کے قیام کا جو خواب انہوں نے اپنے زمانہ طالب علمی میں دیکھا تھا، اپنی آخری سانس تک اس پر کاربند رہے۔ ایسے درویش صفت اور نایاب انسان تحریکوں کی صورت میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *