Main Menu

روس یوکرین جنگ اور سامراجی کھیل

Spread the love

تحریر: پرویز فتح ۔ لیڈز، برطانیہ

سوشلسٹ بلاک کے خاتمہ، وارسا پیکٹ کی تحلیل، سوویت یونین کے انہدام اور سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نیٹو کو بھی تحلیل کر دیا جاتا، کیونکہ اُس کے قیام کے وقت یہی بتایا گیا تھا کہ اس کے قیام کا مقصد سرمایہ دار ممالک، بالخصوص مغربی یورپ کے ممالک کو سوویت یونین کی جانب سے پیدا ہونے والے خطرات سے تحفظ فراہم کرنا ہے۔ لیکن اِس کے برعکس، امریکی سامراج نے اِسے نئی اُبھرنے والی عالمی قوتوں کو دبانے، اُن کی اُبھرتی ہوئی معاشی گروتھ کو روکنے، ترقی پذیر ممالک کے وسائل کو لوٹنے کے عمل کو جاری رکھنے اور اُن پر نئی جنگیں مسلط کر کے اُن کو کنٹرول کرنے کے لیے نہ صرف نیٹو کا وجود قائم رکھا بلکہ اُس میں مسلسل توسیع کا عمل جاری رکھا اور اب تک جاری ہے۔ روس یوکرین جنگ کو ہم اِس تناظر سے ہٹ کر دیکھیں گے تو نہ صرف ہم اِس کی وجوہات سمجھنے سے قاصر رہیں گے اِس کے خاتمہ کے امکانات، دُنیا کے وجود اور امن کو لاحق ہونے والے خطرات اور نئے اُبھرنے والے عالمی منظر نامے کو نہیں سمجھ پائیں گے۔

اِس وقت دُنیا بھر میں روس یوکرین جنگ نے خوف و ہراس پھیلا رکھا ہے۔ کارپوریٹ میڈیا، امریکہ بہادر اور مغربی ممالک کا میڈیا اِس جنگ کو بڑی مہارت سے روسی توسیع پسندی کا نام دے کر اِسے حسبِ معمول انسانی حقوق کی پامالی اور انسانیت کی تذلیل کا وسیع تر پراپیگنڈا کرنے میں مشغول ہے، اور اِسے اپنے معاشی و سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ انسانی ذہنوں کو کنٹرول کرنے کے لیے امریکی سامراج اپنے مغربی اتحادیوں سمیت دُنیا بھر کے کارپوریٹ میڈیا کو پوری طرح سے اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے، جبکہ ترقی پزیر ممالک کے میڈیا کو اپنے مسلط کردہ جدید نوآبادیاتی نظام کے تحت وہاں مسلط کی ہوئی حکمران اشرفیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے کنٹرول کر رہا ہے۔ ترقی پزیر ممالک کے یہ حکمران اپنے سامراجی آقاؤں کی ہدایات کے مطابق اپنے ممالک میں اعلاناً یا غیر اعلان شدہ سنسرشپ مسلط کئے ہوئے ہیں، اور ملکی میڈیا کو روزانہ کی بنیاد پر ہدایات جاری کرتے اور پلان کے مطابق کنٹرول کرتے ہیں۔

 کارپوریٹ میڈیا نے اِس جنگ کے متعلق دُنیا بھر کے عوام کے ذہنوں میں جو تصویر بٹھا دی ہے اُس سے تو یہی نظر آتا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے حکم کے مطابق روس نے 24 فروری 2022 کو یوکرین پر حملہ کیا، جِسے امریکی سامراج اور اُس کے مغربی اتحادی روس کی جانب سے کھلی جارحیت اور توسیع پسندی کہتے ہیں۔ بلا شعبہ اِس جنگ نے دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ میں سب سے بڑے پناہ گزینوں کے بحران کو جنم دیا ہے، اور مغربی میڈیا کے مطابق اب تک تین ملین سے زیادہ یوکرینی شہریوں نے اپنا ملک چھوڑ دیا ہے، اور لاکھوں افراد کو اندرونی طور پر بے گھر کر دیا ہے۔

 سامراجی ممالک کی جانب سے دُنیا بھر میں منظم اور کنٹرولڈ پراپیگنڈہ کے قطع نظر، آئیے زرہ اُن تاریخی اور جغرافیائی حالات و واقعات کی روشنی میں حقائق کا جائزہ لیتے ہیں، کہ روس نے یوکرین پر حملہ کیوں کیا؟ یا پھر امریکی سامراج اور اُس کے مغربی حواریوں نے روس کو اس حملے کے لیے مجبور کیسے کیا؟ سامراجی ممالک سرد جنگ کے زمانے اور بعد ازاں 26 دسمبر 1991 کو سوویت یونین کے انہدام کی تکمیل کے بعد سے لے کر آج تک روس کا شیرازہ بکھیرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ وہ روس کی معاشی و دفاعی قوت کو ملیامیٹ کرنے اور اُسے ایک عالمی قوت کے طور پر دوبارہ اُبھرنے سے روکنے کے لیے ایسے حالات پیدا کر رہے ہیں، جِس میں اُنہوں نے یوکرین کے صدر ولودومیر زیلینسکی جیسے لوگوں کو ٹریپ کر کے اُن کے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ اِس سارے منظر نامے کو سمجھنے کے لیے اس خطے کی تاریخ، بالخصوص دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کا اُبھرنے والا نقشہ، نیٹو کا قیام و مقاصد، اُس کے متبال وارسا پیکٹ کا قیام و مقاصد، سوشلسٹ بلاک کا خاتمہ، وارسا پیکٹ کی تحلیل، نیٹو کے وجود کو قائم رکھنا اور اُسے مزید وسعت دے کر روس کی سرحدوں کے اردگرد نیٹو ممالک، بالخصوص امریکی میزائیل سسٹم کی تنصیب کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے، جِسے سمجھے بغیر اس جنگ کے پسِ منظر، وجوہات اور مستقبل قریب میں اس خطے کے ابھرنے والے نقشے کو سمجھنا انتہائی مشکل ہے۔ بلا شعبہ ہمیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یوکرین کہیں سامراج کی اِسی توسیع پسندی کے کھیل کو سمجھے بغیر اس کا شکار تو نہیں ہو گیا۔

 دوسری عالمی جنگ تاریخ کی سب سے بڑی اور مہلک ترین جنگ تھی، جس میں 30 سے ​​زائد ممالک براہِ راست شامل تھے اور یہ تقریباً 50 ملین انسانوں کو نگل گئی۔ یہ جنگ نازی جرمنی کی جانب سے جمعہ 1 ستمبر 1939ء کو پولینڈ پر حملے سے شروع ہوئی، جو تاریخ کے انتہائی خون آلود 6 برسوں تک جاری رہی، تا وقت کہ اتحادیوں نے 1945ء میں نازی جرمنی، اٹلی اور جاپان کو شکست دے دی۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، دوسری عالمی جنگ کے واقعات پوری دنیا میں رونما ہوئے، البتہ زیادہ تر جنگی کاروائیاں یورپ، مشرقی ایشیا اور بحرالکاہل کے جزیروں میں ہوئیں؛ لیکن اس کو مڈغاسکر اور ایلیوٹین جزائر جیسی جگہوں پر بھی دیکھا گیا۔دوسری عالمی جنگ کے دوران ہی مشرقی یورپ کے بہت سے ممالک میں امن، برابری، سماجی انصاف اور قومی آزادی کے تحریکیں زور پکڑ چکی تھیں، اور اُن ممالک کے عوام میں فاشزم کے مقابلے کے لیے نیشنلزم بہت شدت سے جاگ گیا تھا۔ جنگ سے ہونے والی تباہی سے دُنیا بھر میں انفراسٹریکچر تباہ ہو گیا تھا۔ بھوک، ننگ، بےروزگاری اور بیماریوں میں بے پناہ اضافہ کر دیا تھا، اور لوگ فاقوں پر مجبور ہو گئے تھے۔ اپنی تباہ شدہ صنعت اور بدحال معیشت کو سہارا دینے کے لیے سامراجی ممالک نے اپنے نوآبادیاتی تسلط تلے محکوم ممالک میں ظلم، جبر اور استحصال کو بڑھا دیا اور اُسی استحصال سے اُنہوں نے اپنے ممالک کی تباہ شدہ معیشت کی تعمیرِنو کی۔ ایسٹرن یورپ کے ممالک کے پاس نہ تو اپنی تعمیرِ نو کے لیے ضروری وسائل تھے اور نہ ہی استحصال کے لیے محکوم ممالک۔ لہٰذا جنگ کی تباہی نے اُن ممالک کے عوام میں انقلابی تحریقوں کو جنم دیا اور اُن ممالک میں سوشلسٹ اور کیمونسٹ پارٹیاں مضبوط متبادل کے طور پر اُبھر کر سیاسی دہارے میں آ گئیں۔ اُن ممالک کے ترقی پسندوں اور قوم پرستوں نے سوویت یونین کی ریڈ آرمی کی کھل کر حمایت کی اور اُن کے شانہ بشانہ لڑ کر اپنے ممالک کو قابض جرمن فوجوں کے تسلط سے آزاد کروایا تھا۔ اِس سے 1949ء تک البانیہ، بلغاریہ، چیکوسلواکیہ، ہنگری، مشرقی جرمنی، پولینڈ، رومانیہ اور یوگوسلاویہ میں جنگ مخالف، کیمونسٹوں، سوشلسٹوں اور دیگر ترقی پسندوں کے متحدہ محازوں نے ایک ایک کر کے اپنے ممالک کا اقتدار سنبھال لیا۔ ہاں البتہ یونان اور آسٹریا میں ترقی پسند کمزور تھے اور وہاں قوم پرستوں نے اقتدار سنبھال کر سرمایہ دارانہ نظام کو قائم رکھا۔

 یورپ کے ابھرتے ہوئے نئے نقشے، سوشلزم کے ایک متبادل عالمی نظام کے طور پر اُبھرنے نے مغربی یورپ کے سرمایہ دار ممالک کے محنت کش عوام پر بھی براہِ راست اثرات ڈالے۔ سب سے اہم عمل جولائی 1945ء میں برطانیہ میں ہوا جب وہاں کی لیبر پارٹی نے برطانیہ کے الیکشن میں فتح حاصل کر کے حیران کُن طور دُنیا کو سرپرائز کر دیا۔ لیبر پارٹی نے ان انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی، اور اس کے منتخب  وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلی کی قیادت میں ایسی پالیسیاں اور اصلاحات نافذ کی گئیں، جو جنگ کے بعد اتفاق رائے کے نام سے مشہور ہوئیں۔ اُن اصلاحات میں سماجی خدمات اور پبلک سیکٹر کو بڑھایا اور بہتر کیا گیا، فلاحی ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا، ہو شہری کے مفت علاج کے لیے نیشنل ہیلتھ سروس قائم کیا گیا، اور  ریلوے، ڈاک خانہ، بجلی، گیس سمیت عوامی سہولیات اور اسٹیل انڈسٹری سمیت بڑی صنعتوں کو قومی ملکیت میں لے لیا گیا۔ یہ بنیادی ڈہانچہ تو سوشلسٹ نظام سے لیا گیا تھا، لیکن اُس کے ساتھ ساتھ نجی ملکیت کو قائم رکھ کر سوشلزم اور سرمایہ داری نظام کا درمیانہ راستہ اپنایا گیا۔ یورپ کے اس اُبھرتے ہوئے نئے نقشے نے سامراجی ممالک میں زبردست ہلچل مچا دی۔ ان حالات میں امریکی سامراج نے کینیڈا اور مغربی یورپ کے 10 ممالک کو ملا کر 4 اپریل 1949ء کو واشنگٹن میں نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن تشکیل دے دی، جسے عرف عام میں نیٹو کہتے ہیں۔ اُس وقت نیٹو میں بیلجیئم، کینیڈا، ڈنمارک، فرانس، آئس لینڈ، اٹلی، لکسمبرگ، ہالینڈ، ناروے، پرتگال، برطانیہ اور امریکہ شامل تھے اور نیٹو کے قیام کا مققصد یہ بتایا گیا تھا کہ اسے 1917ء کے روسی انقلاب اور بعد ازاں اگست 1945ء میں دوسری عالم جنگ کے خاتمے کے بعد وجود میں آنے والے سوشلسٹ بلاک سے مغربی یورپ کے ممالک کے وجود کو لاحق خطرات سے تحفظ فراہم کرنا ہے، اور یہ اتحاد ایک دفاعی لائن کے طور پر مغربی یورپ کے ممالک کا سوویت یونین سے دفاع کرے گا۔

بظاہر تو امریکی سامراج اور اُس کے اتحادی حواریوں  کی جانب سے یہ تاثر دیا جاتا تھا کہ یہ شمالی بحر اوقیانوس کے معاہدے کی تنظیم، سوویت یونین کی طرف سے لاحق خطرات کے جواب میں قائم کی گئی ہے۔ لیکن یہ صرف جزوی طور پر سچ تھا۔ کیونکہ نیٹو کی تشکیل امریکی سامراج کی جانب سے چار مقاصد کی تکمیل کے لیے ایک وسیع تر کوشش کا حصہ تھی، اول دُنیا میں سوشلزم کے بڑہتے ہوئے خطرے کو روکنا، دوئم براعظم یورپ میں امریکہ کی مضبوط موجودگی کے ذریعے یورپ میں اُبھرتی ہوئی قومی آزادی کی تحریکوں کو دبانا اور وہاں کے عوام میں قومی آزادی کے لیے بڑہتی ہوئی عسکریت پسندی کے احیاء کو روکنا، سوئم سرمایہ دارانہ سیاسی نظام کی حوصلہ افزائی اور اُن کی جانب سے ترقی پزیر ممالک کے وسائل کی لوٹ کو تحفظ فراہم کرنا، اور چہارم امریکہ کی دُنیا بھر میں، بالخصوص یورپ میں معاشی، سیاسی اور فوجی بالادستی کو تسلیم کروانا شامل تھے۔

 دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کا بیشتر حصہ اس طرح تباہ ہو چکا تھا جس کا تصور کرنا بھی اب مشکل ہے۔ اس تنازعہ میں تقریباً 37 ملین یورپی ہلاک ہو چکے تھے، جن میں سے 19 ملین سے زیادہ عام شہری تھے۔ بھوک، ننگ اور بیماریوں کا یہ عالم تھا کہ اِن ممالک میں نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح چار میں سے ایک تھی۔ لاکھوں یتیم بچے برسوں تک سابقہ ​​شہروں کے جلے ہوئے گھروں میں بھٹکتے رہے۔ صرف جرمن شہر ہیمبرگ میں نصف ملین افراد بے گھر تھے۔ اِس تباہی نے مغربی یورپ کے انتہائی ترقی یافتہ ممالک کی معیشت، صنعت اور سماجی نظام کو بھی بُری طرح تباہ کر دیا تھا، جِس سے ان ممالک میں وسیع پیمانے پر عوامی مذاحمت اُبھر کر سامنے آئی۔

 برطانیہ میں 1951ء میں لیبر پارٹی کے اقتدار کے خاتمے نے نیٹو ممالک کی جانب سے سوویت یونین اور مشرقی یورپ میں سیاسی مہم جوئی کا آغاز کر دیا تو سوویت یونین اور مشرقی یورپ کے سوشلسٹ ممالک نے اپنے دفاع کو یقینی بنانے کے لیے متبال تنظیم کے خدوخال پر غوروفکر شروع کر دیا۔ جب مغربی جرمنی نے 1955ء میں لندن اور پیرس میں ہونے والی 1954ء کی کانفرنسوں کی روشنی میں نیٹو میں سمولیت اختیار کر لی، تو مشرقی جرمنی میں متوقع مداخلت اور ملکی سالمیت کو درپیش خطرات کے پیشِ نظر سوشلسٹ ممالک نے 14 مئی 1955ء کو پولینڈ کے دارلحکومت وارسا میں سوشلسٹ ممالک کی کانفرنس منعقد کر کے وارسا ٹریٹی آرگنائزیشن، جسے وارسا پیکٹ بھی کہتے ہیں، قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔ وارسا معاہدے نے سوشلسٹ ممالک کو نیٹو کے مقابلے میں ایک متحدہ فوجی کمان اور دوسرے شریک ممالک پر مشترکہ گرفت مضبوط کرنے کی منظم صلاحیت فراہم کی۔ وارسا معاہدے کے ذریعے سوشلسٹ ممالک نے جنگ باز مغربی ممالک کے مقابلے میں ایک مضبوط دفاعی لائن کھینچ دی، تاکہ اس کے حمایت یافتہ نظریات کے پھیلاؤ کو تحفظ فراہم کیا جاسکے۔ سوویت یونین کے انحدام کا عمل شروع ہوا اور سرد جنگ کا خاتمہ ہونے لگا تو 1990ء میں مشرقی جرمنی نے مغربی جرمنی کے ساتھ دوبارہ الحاق کی تیاری کے دوران وارسا معاہدہ چھوڑ دیا۔ پولینڈ اور چیکوسلواکیہ نے بھی انخلاء کی شدید خواہش کا اشارہ دیا۔ بعد ازاں جون 1991ء میں سوویت یونین کے انحدام کے ساتھ ہی وارسا پیکٹ بھی اختتام پزیر ہو گیا۔

 سوویت یونین کو انحدام تک پہنچانے والے راہنما میخائل کورباچوف کا اقتدار بھی اُس کے ملک کے ساتھ ہی اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ اُس اثناء میں کورباچوف اور اُس کے بعد آنے والے حکمرانوں نے وارسا پیکٹ کے خاتمے اور سوویت یونین کے انحدام کی بنیاد پر نیٹو کو قائم رکھنے پر سوال اٹھائے، حتیٰ کہ رشین فیڈریشن کی نیٹو میں شمولیت کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔ نیٹو کے بعض رکن ممالک نے بھی ایسی تجاویز دیں، لیکن کوئی حتمی فیصلہ نہ ہو سکا۔ جب 1991ء میں مشرقی اور مغربی جرمنی کو یکجا کیا جا رہا تھا اور بعد ازاں متحدہ جرمنی نیٹو کا رکن بن گیا تو اُس وقت بھی روسی صدر نے سوال اٹھایا کی دیگر مشرقی یورپین ممالک کو اگر نیٹو کا رُکن بنایا گیا تو اس سے روس کی سلامتی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، اور روس یہ ہرگز برداشت نہیں کرے گا۔ امریکہ اور دیگر اتحادیوں نے یقین دہانی کروائی کہ سوویت یونین کے انحدام کے بعد نہ تو اُس سے علیحدہ ہونے والے ممالک کو نیٹو میں شامل کرنے کی ضرورت باقی رہی ہے، اور نہ ہی ایسا کیا جائے گا؛ بلکہ روس کی سلامتی کو یقینی بنایا جائے گا۔

 بعد ازاں 1999ء میں نیٹو ممالک نے اس فوجی اتحاد کو وسعت دیتے ہوئے پولینڈ، ہنگری، اور چیک رِپبلک کو نیٹو کا رکن بنایا لیا تو روسی قیادت کی جانب سے اس پر سخت ردِ عمل دیا۔ روسی صدر نے کہا کہ اگر آپ ایسا کریں گے تو اِس سے ہماری سیکیورٹی متاثر ہو گی اور ہمیں جواب دینا پڑے گا۔ امریکا اور اتحادیوں نے کہا کہ اچھا ہم نہیں کرتے، لیکن اُنہوں نے نیٹو کو وسعت دینے کا عمل جاری رکھا اور اُنہیں نیٹو کا ممبر بنا لیا۔ پھر 29 مارچ 2004 کو اُنہوں نے بلغاریہ، اسٹونیا، لتویا، رومانیہ، سلواکیہ اور سلوینیا کو نیٹو کا ممبر بنانے کا قدم اُٹھایا تو پھر روسی قیادت چلائی تو امریکہ نے کہا ہم نے آپ کو کیا لکھ کر دیا تھا؟ اگر لکھ کر دیا تھا تو دکھلاؤ۔ پھر 2009ء میں البانیہ اور کروشیا کو نیٹو میں شامل کر لیا تو احتجاج پر وہی جواب ملا، پھر 2017ء میں مونٹی نیگرو اور 2020ء میں نارتھ مَثڈونیہ کو نیٹو میں شامل کر لیا گیا اور اِن سب ممالک میں روس کے بارڈرز کے ساتھ ساتھ امریکی میزائلز نصب کر دیئے گئے۔ پھر 2021ء میںں اعلان کیا گیا کہ ہرزیگوینا، بوسنیا، جورجیا اور یوکرین نیٹو کے ممبر بن رہے ہیں۔ یوکرین کی جغرافیائی حیثیت کا جائزہ لیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ وہاں امریکی میزائیل لگانا یقیناً روس کی نیشنل سیکورٹی کو براہِ راست چیلنج کرتا ہے۔ اِسی لیے روس اور بیلاروس کی قیادت نے یوکرینی صدر زیلنسکی کو بڑے پیار سے سمجھانے کی کوشش کی کہ آپ مہربانی فرما کر نیوٹرل رہیں، نہ ہی نیٹو کے ممبر بنیں اور نہ کسی کی طرف داری کریں کیونکہ یہ ہم برداشت نہیں کر سکتے کہ امریکی میرائیل سسٹم ہمارے بارڈر پر نصب ہو جائے اور وہ آ کر ہمیں ماریں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے امریکہ ماضی میں یہ برداشت نہیں کر سکا  تھا کہ اُس کے قریب کیوبا میں سوویت یونین کے ہتھیار آئیں۔

روس یوکرین تنازعہ آٹھ سال قبل 2014ء میں اس وقت شروع ہوا تھا جب ماسکو کے حامی صدر وکٹر یانوکووچ کو مغرب اور امریکا کی جانب سے بغاوت کروانے کے بعد معزول کردیا گیا تھا، کیونکہ یانوکووچ نے یورپی یونین کے ساتھ قریبی تعلق اور نیٹو میں شمولیت کی پیشکش کو مسترد کر دیا تھا۔ یوکرین اس خوفناک تنازعہ میں ہرگز نہ کوُدتا اگر مغرب نے ان مظاہرین کی حمایت نہ کی ہوتی، جو وکٹر یانوکووچ کو ہٹانا چاہتے تھے، جو جمہوری طور پر یوکرین کے صدر منتخب ہوئے تھے، اور اپنی مدت پوری کرنے کے مستحق تھے۔ اُن نازیوں اور انتہائی دائیں بازو کے کارکنوں کے مظاہروں کے ذریعے ان کی حکومت کا تختہ الٹنے سے ماسکو میں شکوک و شبہات پیدا ہو گئے تھے۔ سامراجی ممالک کی جانب سے ایسے حالات پیدا کر دیئے گئے تھے، جنہوں نے روس کو کریمیا کا الحاق کرنے پر مجبور کیا، اور مشرقی یوکرین میں روس نواز علیحدگی پسندوں کی حمایت کی اور ڈونباس میں لڑائی ختم کرنے کے لیے جنگ بندی کا معاہدہ کیا گیا، لیکن ناکام رہا۔ اس کے بعد 2015 میں فرانس اور جرمنی کی ثالثی میں ایک اور معاہدہ ہوا۔ اس میں یوکرین کی طرف سے ملک کے روسی بولنے والے پسماندہ حصوں کو مکمل خود مختاری اور خصوصی حیثیت دینے کے لیے آئینی تبدیلیاں شامل تھیں، لیکن عمل درآمد نہ ہوا۔

نیٹو کی آڑ میں کام کرنے والی مغربی سامراجی طاقتیں مشرقی یورپ اور درحقیقت پوری دنیا میں باہمی جنگوں اور نفرت کی سیاست کی بنیادی ذمہ دار ہیں۔ سرد جنگ کے خاتمے کے تیس سالوں میں دنیا بھر میں دائیں بازو کی نسل پرستی شدت اختیار کر گئی ہے، کیونکہ مغربی سامراجی طاقتیں اور سب سے نمایاں طور پر امریکہ نے بین الاقوامی یکجہتی کے تمام اصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے۔ اپنے سامراجی مفادات کے حصول کے لیے امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں نے یوکرین کو نیٹو میں شامل ہونے کی دعوت دے کر اور خطے میں بڑے پیمانے پر اسٹریٹجک ہتھیاروں کی تعیناتی کے ذریعے وسیع تر اسلحے کی فروغت کی ہے، جِس نے روس کو مسلسل مجبور کیا ہے کہ وہ  بھی اپنے دفاع کے لیے متبادل اقدامات اُٹھائے۔

سرمایہ دار اور موقع پرست عالمی قوتوں نے اس حقیقت کو چھپانے کی کوشش کی ہے کہ عالمی سرمایہ داری کی بحالی کا مطلب مزدور طبقے اور محنت کش عوام  کی تاریخی کامیابیوں کو ختم کرنا ہے، اور سابق سوویت یونین کے عوام کو  طبقاتی استحصال اور سامراجی جنگوں کے دور کی طرف واپس لانا ہے۔ یوکرین کی صورتحال میں تبدیلیاں اجارہ دار سرمایہ داری کے ڈھانچے  کے اندر ہو رہی ہیں، جن کا تعلق امریکہ، نیٹو اور یورپی یونین کے اُن منصوبوں  سے اور اس خطے میں ان کی اس مداخلت سے ہے، جو کہ مارکیٹوں، خام مال اور خطے کے ٹرانسپورٹ نیٹ ورک پر قبضے کے لیے سرمایہ داری نظام ہی کے حامل ملک روس کے ساتھ اُن کے سخت مقابلے کے تناظر میں ہو رہی ہیں۔ گذشتہ دنوں یوکرین کی کیمونسٹ پارٹی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہم یوکرین میں فاشسٹ اور قوم پرست قوتوں کی سرگرمیوں کی جانب سے اپنے ہی ملک میں کمیونسٹوں پر ظلم و ستم کرنے کی، روسی بولنے والی آبادی کے خلاف امتیازی سلوک کرنے کی، ڈونباس میں لوگوں کے خلاف یوکرین کی حکومت کے مسلح حملوں کی بھی مذمت کرتے ہیں۔ ہم یوکرین کی رجعتی سیاسی قوتوں کو استعمال کرنے  کی مذمت کرتے ہیں، جن میں وہ فاشسٹ گروہ بھی شامل ہیں جنہیں یورو-اٹلانٹک طاقتیں اپنے منصوبوں کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے استعمال کررہی ہیں۔ نیٹو اور یورپی یونین کسی بھی سرمایہ دارانہ بین الاقوامی یونین کی طرح انتہائی رجعتی نوعیت کے شکاری اور جارحیت پرست اتحاد ہیں، جو عوام کے حامی نہیں بن سکتے اور محنت کشوں اور  دیگر لوگوں کے حقوق کی جدوجہد کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گے، کیونکہ سرمایہ داری سامراجی جنگوں کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔

روس اب ایک سرمایہ دار ملک ہے، اور اُس کا معاشی نظام یورپین ممالک کی طرح نجی ملکیت پر قائم ہے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکی اور مغربی یورپین ممالک کے بڑے سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں نے بورس یلسن کے ذریعے وسیع تر ریفارمز اور پرائیویٹائزیش کے عمل کے دوران روس کو جی بھر کے لوٹا اور ملکی کرنسی کو کریش کروا کر اُن کی صنعتوں اور بڑے کاروباری اداروں کو کوڑیوں کے بھاؤ خرید لیا۔ اِس لُٹ گھسوُٹ کی بدولت ملک میں غربت، مہنگائی، بھوک، ننگ اور بے روزگاری بڑھی تو بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہو گئے اور بالآخر 31 دسمبر 1999ء کو مسٹر یلسن کو استعفیٰ دے کر اپنے نائب ولادیمیر پوٹن کو اقتدار سونپنا پڑا۔ پوٹن نے معاشی ڈہانچے کو تو نہ بدلا، لیکن امریکی سامراج اور اُس کے مغربی حواریوں کی مداخلت کو بند کر کے اپنے ملک کی معیشت کا سنبھالا دیا۔ چونکہ روس معاشی اور فوجی طور پر ابھی بھی ایک مضبوط ملک ہے، اِس لیے پوٹن نے مقامی طور پر نیشنیلزم کو ابھار کر چین کے ساتھ الحاق کیا اور عالمی طور پر ایک متبادل بلاک قائم کرنے اور امریکہ کی عالمی طور پر بالادستی کو کمزور کرنے میں ایم کردار ادا کیا۔ سب سے بڑھ کو چین اور روس نے امریکی ڈالر کے مقابلے میں اپنی مقامی کرنسی میں دیگر ممالک کے ساتھ تجارت کا آغاز کر دیا، جِس نے سامراجی ایوانوں میں ایک بھنچال برپا کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی سامراج اور اُس کے حواری روس اور چین کا تمام اطراف سے گھراؤ کر کے اُنہیں گھُٹنے ٹیکنے پر مجبور اور اُن کی معیشت کو تباہ کر دینا چاہتے ہیں۔

روس تیل اور قدرتی گیس کے ساتھ ساتھ اہم خام مال  پیدا کرنے والا اپنے برِاعظم کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ عام روسی عوام بھی جنگ کے خلاف ہیں جیسا کہ حملے کے فوراً بعد، وہ سڑکوں پر نکل آئے اور حملے کے خلاف نعرے لگائے، کیونکہ اُنہیں خدشہ ہے کہ یہ ےتنازعہ ایک ایٹمی جنگ کی صورت اختیار کر سکتا ہے، جو ممکنہ طور پر انسانیت کے وجود کو بھسم کر سکتی ہے۔ ہمیں خطے کے تمام ممالک کے عوام سے توقع ہے کہ وہ  سرمایہ دارانہ طاقتوں کے اُس  پروپیگنڈے کے خلاف جدوجہد کریں گے جو عوام کو مختلف حیلے بہانوں سے سامراجی جنگ کی خون آشام چکی کی حمایت کی  طرف راغب کرتا ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ فوجی اڈوں کی بندش، بیرون ملک بھیجے گئے فوجیوں کی وطن واپسی، سامراجی منصوبوں اور نیٹو اور یورپی یونین جیسے اتحادوں سے  اپنے ملکوں کو الگ کرنے کی جدوجہد کو مضبوط کریں۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *