Main Menu

سورج کبھی بوڑھا نہیں ہوتا اعجاز منگی

Spread the love


ایک غیور بلوچ جب بچہ ہوتا ہے
تب وہ اپنی ماں کے بادل جیسے آنچل میں
کوندتی بجلی کی طرح نظر آتا ہے
ایک غیور بلوچ جب جوان ہوتا ہے
تب وہ پتھروں پر رقص کرتے ہوئے
آبشار کی مانند دکھائی دیتا ہے
ایک غیور بلوچ جب بوڑھا ہوجاتا ہے
تب وہ اپنی سنگریز سرزمیں پر سربلند
پہاڑ کی صورت اپنا لیتا ہے
میں نے کامریڈ یوسف مستی خان کا
بچپن نہیں دیکھا مگر جب وہ جوان تھا
تب وہ مجھے بابائے بلوچستان
میر غوث بخش بزنجوکے پہلو میں
اس طرح دیکھا تھا نظر آیا تھا
جس طرح کسی پہاڑ کے سائے میں
چمکتا اور دمکتا سورج نظر آتا ہے!!
شاہ لطیف نے لکھا ہے”سورج کبھی بوڑھا نہیں ہوتا“
یوسف مستی خان کا جسم تو بوڑھا ہوا ہے مگر
اس کا کردار آج تک بوڑھا نہیں ہواہے
وہ سرکش سورج جو سیاست کی سیاہ راتوں میں
انگنت ستاروں کی صورت پہاڑوں پر بکھر جاتا ہے
وہ سورج کل کینسر سے لڑتے جھگڑتے ہوئے
گوادر کی ان گلیوں میں گشت کرنے لگا
جہاں بلوچستان کی بیٹیوں نے چادر کو پرچم بنایا
اور روشنی کا گیت گایا
کیا کوئی قانون سورج کو سلاخوں کے پیچھے قید کرسکتا ہے؟
کیا کوئی حکومت کرنوں پر حکم چلا سکتی ہے؟
کیا کوئی ریاست روشنی کو شکست دی سکتی ہے؟
یوسف مستی خان تو مست یوسف ہے
زلیخا جیسا زندان اسے قابو نہیں کرستا
اس کے کردار کا دامن آج بھی سلامت ہے
اس کا ہر لفظ آج بھی سرخ صداقت ہے
اس کا ہر دن میدان جنگ ہے
وہ جو ایک انسان ہے
وہ جو ایک امنگ ہے
آئیں! اس یوسف سے اظہار محبت کریں
جوشعور کی مشعل جلانے کا مجرم ہے
کون کہہ سکتا ہے کہ وہ ایک غم ہے؟
وہ تو اس آگ کا غصہ ہے
جو خانہ بدوش قبیلوں کے خیموں میں
مخالف ہواؤں سے لڑتی ہے
وہ آگ جو ایک لمحے کے لیے تو بظاہر بجھتی ہے
اور دوسرے لمحے بھرپور انداز سے بھڑکتی ہے!!
سلام ان آنکھوں کو جن میں شعلہ جلتا ہے
سلام ان سینوں کو جن میں سورج پلتا ہے






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *