Main Menu

رياست جموں کشمير اور خونی کاروبار تحرير: عامر صادق

Spread the love

رياست جموں کشمير کے مسہلے کو چوہتر سال ہوگۓ اور رياستی عوام کے خون اور عزتوں کے ايندھن سے جاری اس خونی کاروبار کو اڑتيس سال ہو چکے۔ ان اڑتيس خونی سالوں ميں ہزاروں نوجوان شہيد کر ديے گۓ، ہزاروں ماؤں اور بہنوں کی عصمتيں تار تار کی جا چُکيں، ہزاروں لوگ جعلی مقابلوں ميں مارے گۓ ہزاروں لوگوں کو ہندوستان اور پاکستان کے ادارے “غاہب” کر چُکے۔ گاؤں کے گاؤں يتيموں اور بيواؤں کے، نيم بيواؤں کے، مفلس اور اپاہج انسانوں کے پورے گاؤں کے گاؤں۔ غريب عوام کے خون پر جہاد کے نام سے کاروبار کرنے والے “امير المجاہدین “ مقدس اور صاحب عزت۔ پاکستانی متحدہ جہاد کونسل کی چھتری کے نيچے يا باہر خود اور اپنی اولادوں کو اس کاروبار سے عملًا دُور رکھ کر دنیا داری کے باقی کاروبار کی اور اچھی تعليم کی ترغيب ديتے ہيں ۔ جبکہ عام عوام کو انکے اس گھناونے کاروبار کے لئے زندگی ختم کرنے کی سند “تُم کو اللہ نے اس عظيم مقصد کے لئے چُن ليا” کی تختياں بانٹتے ہوۓ يہ خونی بھيڑيے رياست جموں کشمير ميں ہندوستان اور پاکستان کی سہولتکاری کرتے ہوۓ رياست جموں کشمير ميں قبرستانوں کی بڑھوتری اور غلامی کو طوالت دينے کی قابضين کی متعين کردہ ڈيوٹی سرانجام دے رہے ہيں۔ اس سارے کشت و خون، شہادتوں اور تار تار عزتوں کا نتيجہ ہندوستان اور پاکستان کی اُنکے اپنے مقاصد کے لئے مذاکرات کی ميز سجانا ہے۔ رياستی عوام تو آج تک اپنے ہی مسہلہ کے فريق تک نہيں۔ سری نگر ميں کسی ماں کی عزت لُٹتی ہے يا گلگت کا کوئ نوجوان پابندِ سلاسل ہو يا جموں کے خطے سے کسی رياستی شہری کو ہندوستان اور پاکستان کے “نامعلوم” ادارے اغواء کر ليں ، پيلٹ گن کا کوئ گہرا زخم کہ داغدار عصمت ہر چيز ہر جنازہ ہر لُٹی ہوئ عصمت اور زخم يہ سہولتکار مقامی اور عالمی اداروں ميں ہندوستان اور پاکستان کے پیسوں کی خاطر بيچتے ہيں اس کا کاروبار کرتے ہيں ۔حتی کہ رياست جموں کشمير ميں”آزادی” کے خوابوں تک کا کاروبار ہر روز سرِ عام ہوتا ہے۔ اس سارے قضیے ميں رياستی عوام يہ ديکھنے اور سمجھنے سے پتہ نہيں کيوں قاصر ہيں کہ ان کی زندگيوں اور لاشوں پہ ہندوستان ،پاکستان اور اُنکے دلال کاروبار کر رہے ہيں اپنی دوکانيں چلا رہے ہيں۔ پاکستان اپنے زير قبضہ علاقوں کو پہلے ہی تقسيم کر کے اپنی ضرورت کے مطابق استعمال کر رہا ہے۔

گلگت بلتستان سے رياستی باشندہ قانون دہاہيوں پہلے معطل کر چُکا اور کسی کے کان پہ جُوں تک نہيں رينگی ۔ اپنے حقوق کی آواز اٹھانے پہ 90 سال تک کی سزاہيں دی جا رہی ہيں اور دوسری طرف پاکستان کا پسنديدہ بھائ ملک ہندوستان بھی اپنے زير قبضہ علاقے کو پاکستان کی پُوری معاونت سے ہندوستان ميں ضم کر چُکا۔ دونوں ممالک پوری رياست پر قابض اور وسائل کی لُوٹ گھسوٹ ميں اپنے سہولتکاروں سميت مصروفِ عمل مگر قومی آزادی کی بجاۓ مذہبی نعرہ لگايا جاتا ہے جو کہ رياستی عوام کو محض تقسيم ہی کرتا ہے متحد کسی قيمت نہيں کرسکتا۔ اب رياستی نوجوانوں کو پھر جہاد کے نام پر ورغلا کر ہندوستان سے مروانے کی سازش تيار کی جا رہی ہے۔ يہ وہ سازش ہے جس ميں پاکستان اور ہندوستان مل کر ہمارا قتل عام بھی کرتے ہيں اور ہمدردياں بھی جتلاتے ہيں۔ پاکستان نوجوانوں کو ورغلا کر مقتل سجاتا ہے اور ہندوستان قتل کرتا ہے۔ کالعدم جماعتوں کو پہلے ہی کُھلی چھوٹ اور رياستی مدد ميسر ہے۔ مگر ديکھنا يہ ہے کہ اس بندوق بردار تحريک جو کہ ہندوستان اور پاکستان کی پراکسی وار ہے کو ان اڑتيس سالوں ميں سمجھنے ميں کيا چيز مانع ہے؟؟

رياست جموں کشمیر کے مسہلہ کو قومی آزادی کی بجاۓ مذہبی اور علاقائ مسہلہ بنانے والے آخر کس کی ايماء پر يہ راگ الاپ رہے ہيں؟ پراکسی وار کے جملہ سہولتکار اور کالعدم جماعتيں ہماری قومی آزادی کے لئے کيا کر رہے ہيں؟ آخر کب تک پاکستان اور ہندوستان کی ڈُگڈگی پہ اُنکی غلامی کو آزادی آزادی کہتے رہيں گے؟ يہ وہ بنيادی سوال ہيں جو رياست جموں کشمير کے ہر شہری کو سوچنے ہونگے ورنہ ہندوستانی اور پاکستانی پراکسی وار کے لئے اور اُنکی مذاکرات کی ميزيں اپنی عزتوں اور خون سے سجاتے رہنا اور بے کار کی موت مر جانا مقدر بن جاۓ گا۔

اُٹھو تُم سب جو غلام نہيں ہو گے!!






Related News

توہین مذہب یا سیاسی و سماجی مخاصمت اظہر مشتاق

Spread the love پاکستان اور اس کے زیر انتظام خطوں میں گذشتہ دہائی میں توہینRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *