Main Menu

افغانستان پر سلامتی کونسل کا اجلاس: پاکستان کو بولنے کی اجازت نہ ملی پاکستان کا اظہار افسوس

Spread the love

پاکستان نے افغانستان کے معاملے پر سلامتی کونسل کے اجلاس میں موقف بیان کرنے کی اجازت نہ ملنے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں افغانستان کے حوالے سے ہونے والی صورتحال کو بغور دیکھ رہا ہے۔
خیال رہے کہ اگست کے مہینے کے لیے سلامتی کونسل کی صدارت انڈیا کے پاس ہے۔
سنیچر کو جاری تحریری بیان میں پاکستان نے کہا کہ یہ بہت افسوس ناک معاملہ ہے کہ افغانستان کے بطور قریبی ہمسایہ ملک جس کے جاری امن کے عمل میں کردار کو بین الاقوامی برادری نے سراہا ہے، اس کی جانب سے سکیورٹی کونسل کے صدر سے اجلاس میں افغان امن عمل اور اس معاملے کے حل کے لیے اپنا موقف بیان کرنے کی درخواست کو تسلیم نہیں کیا گیا۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ کونسل کے پلیٹ فارم کو پاکستان کے خلاف غلط بیانیہ پیش کرنے کے لیے فراہم کیا گیا۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں افغانستان کے نمائندے نے بین الاقوامی برادری کو پاکستان کے خلاف غلط معلومات کا پروپیگنڈا کیا ہے اور بے بنیاد الزامات عائد کیے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان برملا ان الزامات کو مسترد کرتا ہے اور اس معاملے پر پاکستان نے اپنی پوزیشن سکیورٹی کونسل کے ممبران سے شیئر کر دی ہے۔
پاکستان کا یہ بھی کہنا ہے کہ افغانستان میں جاری جنگ کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل ہی ملک میں پائیدار امن اور سلامتی کا واحد راستہ ہے۔

پاکستان نے کہا ہے کہ نیٹو اور امریکہ کی افواج کا انخلا مکمل ہونے کے قریب ہے ایسے میں اسے افغانستان میں بڑھتے ہوئے تشدد اور انٹرا افغان مذاکرات میں بنیادی پیش رفت نہ ہونے پر تشویش ہے۔
پاکستان نے افغان حکومت پر ایک بار پھر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان پر الزامات کی گیم میں پڑنے کے بجائے خطے میں امن اور استحکام کے لیے بامعنی انداز میں چیلنجز کو دیکھے۔
اس سے قبل نیویارک میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیراکرم نے بھارتی اور افغان سفارت کاروں کی طرف سے دہشت گردوں کے پاکستان سرزمین کو محفوظ پناہ گاہ کے طورپر استعمال کرنے کے الزامات پرافسوس کا اظہار کیا۔
پاکستان نے کہا ہے کہ وہ کبھی بھی اپنی سرزمین افغانستان میں عدم استحکام کے لیے استعمال ہونے کی اجازت نہیں دے گا اور افغانستان سے بھی اس کی توقع رکھتا ہے۔
منیراکرم نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ پاکستان کی سرحد پر باڑ لگادی گئی ہے اوراب لوگوں کی بلاروک ٹوک آمدروفت نہیں ہوتی۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان نے اپنی سرزمین سے دہشت گرد گروہوں کا خاتمہ کردیا ہے۔
اجلاس سے قبل پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے کہا تھا کہ پاکستان افغانستان میں طاقت کے زور پر اقتدار کے حصول کو تسلیم نہیں کرے گا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکہ کے دورے پر موجود معید یوسف نے واشنگٹن میں رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کابل حکومت کو اب عسکری فتح کی کوشش نہیں کرنی چاہیے اور مستقبل میں کسی بھی مذاکرات میں وسیع تر حلقوں سے افغان نمائندوں کو شامل کیا جانا چاہیے۔
’زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے کچھ نہ کچھ سمجھوتہ تو (کرنا) ہو گا۔۔۔ تشدد کو روکنا ہو گا۔‘
اُنھوں نے طالبان پر پاکستان کے مبینہ اثر و رسوخ کے استعمال کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ‘ہمارے پاس جو بھی محدود اثر و رسوخ تھا، ہم نے استعمال کر لیا ہے۔ اب (غیر ملکی) افواج کے انخلا کے بعد منطقی طور پر یہ اثر و رسوخ کم ہوا ہے۔’
اُنھوں نے کہا کہ دنیا کو بھی یہ چیز سمجھنی چاہیے کہ سیاسی سمجھوتے میں امریکہ کا مفاد ہے۔

(بی بی سی)






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *