Main Menu

( AJK) پاکستان کے محاصرے میں الیکشن 2021 تحریر محمد الیاس خان جے کے پی این پی

Spread the love

پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر گلگت بلتستان کے حصے(آزاد جموں کشمیر ) کی اسمبلی کے الیکشنز 2021 کو بجا طور پر محاصرۓ کا الیکشن کہا جا سکتا ہے۔ یہ الیکشن بیرونی قبضہ گیر پاکستان کی فوج کی بندوق کی نوک کے محاصرے میں ہوا ہے۔ انتخابات کا معروف جمہوری رائج اصول یہ ھیکہ انتخابی سیاسی پارٹیاں اپنا انتخابی منشور عوام میں پیش کرتی ہیں اور اسی انتخابی منشور کی روشنی میں عوام ووٹ کے ذریعےاپنے نمائندے چنتے ہیں اور پھر منتخب نمائندے کابینہ بناتے ہیں یا حکومت تشکیل دیتے ہیں۔ پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر کے الیکشن 2021 پر اگر طاہرانہ نظر ڈالی جاۓ تو یہ مکمل طور پر محاصرۓ کا الیکشن ثابت ہوتا ہے۔
1۔ AJK الیکشن کی نسبت قوانین
اے جے کے میں ہمیشہ ایکٹ 1974 کی چھتری تلے الیکشن ہوۓ ہیں اور ایکٹ 1974 کے ذریعے پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر میں موجود آزادی پسند سیاسی پارٹیوں سے انتخابات میں حصہ لینے کا حق چھین لیا گیا ہے, ایکٹ 1974کے تحت کسی بھی نمائندے کے انتخابی عمل میں حصہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ وہ الحاق پاکستان کی شق پر دستخط کرۓ یعنی الحاق پاکستان کو تسلیم کرنے کا عملی ثبوت دۓ۔ جو لوگ ریاست جموں و کشمیر کی وحدت کی بحالی اور آزادی چاہتے ہیں ان سے انتخابات میں حصہ لینے کا حق ایکٹ 1974 کے ذریعے چھین لیا گیا ہے۔ یوں AJKکا الیکشن جمہوری نہیں رہ جاتا۔
2۔ الیکشن کمیشن کا بنایا گیا قانون:
الیکشن 2021 کے لیے جو قوانین بناۓ گے ان کی روح سے بطور پارٹی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے رجسٹریشن کے لیے ضروری قرار دیا گیا کہ سیاسی پارٹیاں اپنے بنیادی منشور میں الحاق پاکستان کو تسلیم کریں یعنی الیکشن کمیشن میں صرف وہ سیاسی پارٹیاں رجسٹرڈ ہونگی جن کی بنیادی احساس منشور میں الحاقِ پاکستان شامل ہو, یوں آزادی پسند پارٹیوں کے علاوہ بھی جمہوریت پسند سیاسی پارٹیوں سے یہ حق چھین لیا گیا کہ وہ انتخابات میں حصہ لے سکیں۔ یوں ان قوانین کی روشنی میں صرف اس سیاسی پارٹیوں کو بطور پارٹی الیکشن میں حصہ لینے کا حق دیا گیا جو قابض پاکستان کی فرنچائزڈ ہیں یا پھر قابص کی کٹھ پتلی اور سہولت کار ہیں۔ آزادی پسند قوتوں کو بطور پارٹی الیکشن کے جمہوری عمل میں حصہ لینے سے قانونی طور پر روک دیا گیا۔ یوں یہ انتخابی عمل قبضہ گیر کے سہولت کاروں اور کٹھ پتلیوں کے درمیان ایک دھنگل تھا۔
3۔ طہ شدہ انتخابات:
یوں تو ماضی کیطرح 25 جولائی 2021کو پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر میں قابض کی سہولتکار پارٹیوں کے درمیان ایک انتخابی عمل ہوا لیکن 25جولائی سے پہلے ہی قابض پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ اور بالادست حکمران طبقات نے پورے انتخابات اور نئی تشکیل ہونے والی کابینہ کے بارے میں طہ کر دیا تھا۔ جس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انتخابی مہم کے آغاز سے ہی جوڑ توڑ شروع ہوٸی۔اس جوڑ توڑ میں سب سے پہلے کٹھ پتلی وزیراعظم فاروق حیدر کی ن لیگ کو کمزور کیا گیا اسکی دو بنیادی وجوہات تھیں ایک تو پاکستان کے اندر جاری سیاسی بحران میں ن لیگ کا بیانیہ اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ ہے۔ بندوق برادر اپنے مخالف بیانیہ رکھنے والی قوتوں کو کبھی قبول نہیں کرتے۔ دوسرا کٹھ پتلی وزیراعظم فاروق حیدر نے اپنے دورِ حکومت میں بیرونی قابض کے بارے میں کچھ آدھا سچ بولا رونا دھونا کرتے ہوۓ کچھ ایسا موقف اختیار کیا جس میں اختیارات کے سوالات تھے یہی وجہ ہے کہ فاروق حیدر کو اکیلا کر کے ن لیگ کی آزادکشمیر میں موجود فرنچائز کو کمزور کرتے ہوۓ نئی فرنچائز پی۔ٹی۔آئی کو مضبوط کیا گیا اور فاروق حیدر کی حکومت میں موجود وزیروں کی اکثریت کو پی۔ٹی۔آئی میں شامل کیا گیا۔
4۔ سیاسی کارکنوں کی ذہنی, فکری اور سیاسی پسماندگی:
انتخابی عمل کے دوران قابض اداروں کی طرف سے جوڑ توڑ کے زریعے پی ٹی آئی کو مضبوط کرنے کے عمل میں معصوم عوام رات کو ن لیگ اور مسلم کانفرنس میں ہوتے ہوۓ سوۓ اور صبح جاگ کر معلوم ہوا کہ وہ پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے ہیں۔ کیونکہ ان کے رہنما کو خرید لیا گیا ہے یا پھر وہ موقع پرستی کا شکار ہو گیا ہے۔ راتوں رات اسکا بیانیہ بدل گیا ہے چونکہ ن لیگ اور پی ٹی آئی دونوں سرمایہ دار طبقے کی نمائندہ پارٹیاں ہونے کے باوجود موجودہ سیاسی بحران میں الگ الگ بیانیہ رکھتی ہیں۔
اس سارے عمل میں سیاسی کارکنوں کا کام ہوتا ہے کہ عوام کی رہنمائی کریں لیکن یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ سیاسی کارکن بھی ساری زندگی سیاست کو دینے کے باوجود سیاسی طور پہ اتنا جاہل ثابت ہوا کہ ٹبر، قبیلہ، برادری کی بنیاد پر اپنی سیاسی اپروچ کو ایک شخص کے پاس گروی رکھا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کی رہنمائی کرنا تو دور کی بات ہے سیاسی کارکن خود بھی شخصیت پرستی کا ایسا شکار ہے کہ وہ اس موقع پرستی اور سودا بازی پر سوالات اٹھانے کی بجائے راتوں رات ایک پارٹی کے پرچم کو چھوڑ کر دوسری پارٹی کے پرچم کو تھام لیتا ہے۔ یہ سیاسی کارکنوں کی ذہنی، فکری اور سیاسی پسماندگی کا ثبوت ہے۔

5۔ وزیرِ امورِ کشمیر کے خلاف شدید عوامی نفرت اور بے اختیار ادارے
وزیرِ امورِ کشمیر علی امین گنڈا پور نے جموں کشمیر کے عوام کے لیے توہین آمیز ذلالت بھرے گھٹیا الفاظ استعمال کیے جس کی وجہ سے عوام کے اندر وزیرِ امورِ کشمیر کے خلاف شدید غصہ تھا۔ کوٹلی سے لے کر مظفرآباد تک ہر جگہ عوام نے انڈوں اور ٹماٹروں سے وزیرِ امورِ کشمیر کا استقبال کیا اور باغ ہاڑی گہل کے مقام پر ایک جرت مند نوجوان زرنوش نسیم نے دوران جلسہ گنڈا پور پر جوتا پھینکا۔جب اس نوجوان کو گرفتار کیا گیا تو عوام نے تھانے کا گھراٶ کر لیا۔عوام نے قابض ریاست کے وزیر کے خلاف اپنی بھر پور نفرت کا اظہار کیا گو کہ یہ نفرت غیر منظم تھی لیکن یہ غیر منظم نفرت قابض قوتوں اور ریاستی اداروں کے لیے ایک چنوتی سے کم نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان نے جن جن جلسوں میں شرکت کی وہاں اسٹیج اور عوامی اجتماع کے درمیان 20 سے 40 گز کا فاصلہ رکھا گیا اور بہت سخت سیکیورٹی کا انتظام کیا گیا۔
لیکن الیکشن کمیشن کی طرف سے وزیرِ امورِ کشمیر پر الیکشن مہم میں حصہ لینے یعنی الیکشن کے دوران نام نہاد آزاد کشمیر میں داخل ہونے پر پابندی کے باوجود وزیرِ امورِ کشمیر دندھناتا پھرتا رہا۔ جو کہ الیکشن کمیشن کے اختیارات پر سوالیہ نشان ہے اور یہ ثابت ہوتا ہے کہ مقبوضہ علاقوں کے ادارے بے اختیار ہوتے ہیں۔
6۔ مذہبی ٹھیکیدار موقع پرستی کا شکار
دو دہائیوں تک جماعت اسلامی آزاد جموں کشمیر کے امیر رہنے والے جہاد کے نام پر دو نسلوں کا قتلِ عام کروانے والے مذہب کے خودساختہ ٹھیکدار عبد الرشید ترابی بھی بہتی گنگنا میں ہاتھ دھوئے بنا نہیں رہ سکے اور رب کی دھرتی پر رب کا نظام نافذ کرنے والے الفاظ سے عوام کو بے وقوف بنانے والے اس سہولت کار نے بھی ایک سرمایہ دار کے حق میں دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا۔ سرمایہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ تنویر الیاس کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے۔ پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کا نظریہ منشور میل نہیں کھاتا لیکن دونوں میں ایک قدر مشترک ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی دونوں دم چھلا ہیں یہی وجہ ہے کہ برگیڈ نے اس اتحاد کے لیے بہت اہم رول دیا اس کے لیے مستقبل کی پالیسیوں پر عمل درآمد کے لیے ہر حلقے سے بہترین سہولت کاروں کی ضرورت محسوس کی گٸی ہے۔ ان موصوف کو راقم نے خود بیس بگلہ ایک میچ کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے سنا کہ ہم آزاد کشمیر بیس کیمپ کا جواز کھو رہے ہیں اگر سری نگر کی آزادی کے لیے جہاد کو تیز نہ کیا گیا تو ہم بیس کیمپ کا جواز کھو دیں گے۔ تب آزاد کشمیر کے تینوں ڈویژنز کو راولپنڈی، ایبٹ آباد اور جہلم گجرات میں ضم کر دیا جائے گا۔یعنی وقت سے پہلے ہی انھوں نے اپنی سہولت کاری کی وضاحت کی کے اس عمل کے لیے مجھ جیسے سہولت کار بھی قابض کے پاس موجود ہیں۔ قابض کو ایسے سہولت کاروں کی ضرورت ہے اس لیے سہولت کاروں کو ایوان تک پہنچانے کے مختلف راستے اور مختلف حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔
7۔ آزاد کشمیر کو پاکستان میں ضم کرنے یا صوبہ بنانے کی پیش رفت میں رکاوٹ:
قابض ریاست کی فوجی اسٹیبلشمنٹ اور اقتداری پارٹی پی ٹی آئی نے جب پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر کے الیکشن کی حکمت عملی تیار کی تو وہ اس طرح کے سہولت کاروں کو حکومت میں لانے کی پالیسی تھی جن سے مستقبل میں پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر کے 4 ہزار مربع میل کا پاکستان میں انضمام کروایا جا سکے۔ لیکن اس دوران ایک تو کٹھ پُتلی وزیراعظم فاروق حیدر بھی اپنے مفادات کو دھچکا لگتے ہوئے محسوس کر کہ سچ بولنے لگا اور ساتھ میں ن لیگ نے اپنی الیکشن کمپین میں پی ٹی آئی کی جانب سے آزاد کشمیر کو صوبہ بنانے کی پالیسی کو رد کیا۔ مریم نواز کے خطاب بھی اسی دائرہ میں گھومتے رہے اور امین گنڈا پور کے خلاف شدید عوامی ردعمل اور پھر آزادی پسند قوتوں کا الیکشن کے حوالے سے غیر منظم مزاحمتی رول جو کہیں پر الیکشن لڑنے کی صورت میں اور کہیں پر بائیکاٹ کی صورت میں سامنے آیا اس سر عمل نے فوجی اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کو دفاعی پوزیشنوں پر مجبور کیا یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی الیکشن کمپئن کے دوران آزاد کشمیر کو صوبہ بنانے یا پاکستان میں انضمام کرنے کو زیرِ بحث نہیں لا سکی۔
8۔ الیکشن 2021 میں آزادی پسندٶں کا کردار
الیکشن 2021 کو لیکر آزادی پسندوں کا غیر منظم مزمتی کردار رہا ہے۔ کچھ آزادی پسند پارٹیوں کے نمائندوں نے آزاد امیدوار کی حثیت سے انتخابات میں حصہ لیا اور انتخابی منشور میں عوامی مسائل اور ریاستی تشخص کو جگہ دی جس کا واضح مطلب یہ تھا کہ عوام سے حکمران طبقات, پاکستان کی فرنچائز پارٹیوں کے خلاف ووٹ حاصل کیا جاۓ گا گو کہ بہت غیر منظم لیکن یہ مزمتی عمل تھا جس میں پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر گلگت بلتستان کو لیکر قابض پاکستان کی پالیسیوں اور کٹھ پتلی حکمرانوں کے 74 سالہ کردار کو عوام اور دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کی گئی۔ کچھ آزادی پسند تنظیموں نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا اور یہ بائیکاٹ بھی غیر منظم تھا لیکن اپنے جوھر میں الیکشن کے خلاف مزمتی عمل تھا جس میں آزادی اور غلامی کے فرق کو عوام کے سامنے لانے کی کوشش کی گئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس موقع پر تمام آزادی پسند قوتیں ملکر تمام حلقوں میں کاغذات نامزدگی جمع کرواتی الیکشن کے قوانین جو آزادی پسند قوتوں کے الیکشن لڑنے کے جمہوری حق میں رکاوٹ ہیں ان کو چیلینج کرتیں دنیا کو بتایا جاتا کہ ہم الیکشن لڑنا چاہتے ہیں لیکن ہمیں
انتخابات میں حصہ نہیں لینے دیا جا رہا قابض کے منہ پر سے نام نہاد جمہوریت کا لبادہ ہٹا کر اصل شکل دنیا کو دیکھاٸی جاتی اور اسی کے اوپر عوامی سیاسی تحریک کی بنیادیں ڈالی جاتیں۔ ایسا نہیں ہو سکا لیکن ایسا کیا جا سکتا ہے آج کی تاریخ سے اس پر کام کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔انتخابات کو لیکر عوام دوست اور آزادی پسند قوتوں کو آپسی مکالمے کا آغاز کرنا چاہیے چونکہ موجودہ وقت میں عوامی سیاسی تحریک کی بنیادیں ڈالنے کا سوال آب و تاب کے ساتھ موجود ہے اسے سنجیدگی کے ساتھ ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے۔
09.وزیرِ اعظم کے چناو کا طریقہ کار غلامی کا عکاس
جمہوریت کا معروف اصول ہے کہ عوام اپنے نماٸندوں کا چناو ووٹ کے ذریعے کرتے ہیں اور پھر عوامی نماٸندۓ اپنے سالار یعنی وزیراعظم کا چناو ووٹ کے ذریعے کرتے ہیں۔لیکن پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر میں وزیرِ اعظم کا چناو قابض ملک کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر وزیرِ اعظم پاکستان کرتا ہے۔الیکشن 2021 کے اختتام پر وزیراعظم کے لیے انٹرویوز بنی گالا میں ہوۓ۔جو پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر کا وزیرِاعظم بننا چاہتے تھے وہ بنی گالا میں سر بسجود ہوۓ۔دولت لین دین انٹرویوز سب کچھ بنی گالا میں ہوا جبکہ وزیرِ اعظم مظفرآباد اسمبلی کا بننا تھا۔وزیرِ اعظم کون بنا اس سے ہمیں غرض نہیں ہے کیونکہ وزیرِاعظم جو بھی بنے اس نے بیرونی قابض کی سہولت کاری ہی کرنی ہے۔لیکن وزیراعظم کے چناو سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ڈیڑھ سال کے اندر یہاں ایک سیاسی بحران کا آغاز ہو گا۔ریاست کے اس مقبوضہ حصے کے موجودہ اسٹیٹس کو تبدیلی کرنے کی پالیسی میں وقتی جو رکاوٹ پیش آٸی ہے آگے چل کر سیاسی بحران پیدا کر کہ سیاسی بحران کے دوران اس پر مزید پیش رفت کا آغاز کیا جاۓ گا۔سو پاکستان کے کٹھ پتلی وزیراعظم کے چناو کا طریقہ کار بد ترین غلامی کی عکاسی کرتا ہے۔
10.الیکشن 2021 میں حصہ لینے والے آزادی پسندوں کی حکمتِ عملیاں
الیکشن 2021 میں آزادی پسند رٸنماوں نے ایک بڑی تعداد میں حصہ لیا بالخصوص پونچھ ڈوثزن میں بھر پور حصہ لیا۔یاد رہے آزادی پسندوں کو اپنے پارٹی پلیٹ فارم سے الیکشنز میں حصہ لینے کی اجازت نہیں تھی چونکہ الیکشن قوانین کے مطابق پارٹی کی رجسٹریشن کے لیے ضروری تھا کہ پارٹی کے آٸین و منشور میں الحاق پاکستان کو اپنے سیاسی پروگرام کا حصہ بنایا جاۓ۔آزادی پسندوں نے بطور آزاد امیدوار انتخابات میں حصہ لیا۔جبکہ مختلف نماٸندوں نے الیکشن کمپین کے لیے مختلف حکمتِ عملی اپناٸی۔
ایک حصہ ان نماٸندوں پر مشتمل ہے جنھوں نے عوامی کمیٹیوں اور عوامی اتحادوں کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیتے ہوۓ سفید پرچم تلے اپنی انتخابی مہم چلاٸی اور دوران مہم اپنی پارٹی کا نام استعمال کرنے کے بجاۓ عوامی کمیٹیوں اور عوامی اتحاد کے نام کو استعمال کیا جبکہ
دوسرا حصہ ان نماٸندوں ہر مشتمل ہے جھنوں نے انتخابی مہم کے دوران اپنی پارٹی کا نام استعمال کیا اور سرخ پرچم تلے انتخابی مہم چلاٸی۔
یوں ایک ہی ملتے جلتے پروگرام اور موقف پر مختلف حکمتِ عملی کے ساتھ انتخابی کمپین چلاٸی گٸی۔
دوران مہم ان آزادی پسندوں میں داخلی طور پر ایک مثبت بحث جاری رہی جس میں قیادت کے علاوہ کارکنوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
اس بحث میں ایک طرف یہ موقف سامنے آیا کہ پارٹی اور سرخ پرچم کے بجاۓ عوامی کمیٹیوں یا عوامی اتحاد کو استعمال کر کہ بہتر نتاٸج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔اور عوام کی توجہ کو اپنی طرف مبزول کیا جا سکتا ہے۔
جبکہ دوسرا نقطہ نظر یہ تھا کہ پارٹی نظریے اور سرخ پرچم تلے انتخابی مہم چلا کر ذیادہ بہتر نتاٸج حاصل کیے جا سکتے ہیں ہمیں عوام کے پاس عوام کے نماٸندہ سرخ پرچم اور عوامی مفادات کی ترجمان پارٹی کے نام کو لیکر جانا چاہیے۔جس نظریہ تنظیم اور پرچم سے عوام میں ہماری پہچان ہے اسے ہی مہم کے لیے بنیاد بنانا چاہیے۔
بعد از انتخابات آخرالذکر موقف درست ثابت ہوا سرخ پرچم اور واضح تنظیمی و نظریاتی شناخت کے ساتھ انتخابات میں حصہ لینے والے نماٸندوں کے ووٹوں کی تعداد زیادہ بہتر آٸی۔
بہر حال یہ ایک مثبت بحث ہے جس کا تعلق مستقبل میں عوامی سیاسی تحریک کے ساتھ جڑتا ہے۔اس لیے انتخابات کے بعد اس بحث کو بند نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس بحث کو زیادہ جاندار طریقے سے کھولنے کی ضرورت ہے۔

11 قابض ادارٶں کی طرف سے لوکل ادارٶں اور عوام پر تشدد
نیلم شاردہ کے مقام پر قابض ریاست کی فرنٹیر کور(ایف سی) اہلکاروں کی طرف سے پبلک ٹرانسپورٹ سے عام لوگوں خواتین اور بچوں کو جبراَ اتارنے اور واپسی سفر کے لیے ان گاڑیوں کو زبردستی استعمال کرنے کی کوشش پر لوکل انتظامیہ کی مداخلت پر نوک جھوک گالی گلوچ شروع ہوٸی اس دوران عوام بھی جمع ہونا شروع ہو گٸے۔ایف سی اہلکاروں نے اندھا دھند فاٸرنگ شروع کر دی جس سے ایک آدمی موقع پر ہلاک اور 13لوگ زخمی ہوۓ۔اس واقع کے خلاف عوام نے ٹاٸر جلا کر سڑکیں بند کر کے احتجاج کیا۔پاکستانی قابض فوج،عمران خان اور قبضہ گیریت کے خلاف نعرۓ بلند ہوۓ اور آزاد و خودمختار وطن جیسے فلک شگاف نعرۓ گونجتے رہے۔
قابض ریاست کی بندوقوں سے نکلنے والی گولیوں سے قبضہ گیریت کو دواٸم بخشنے کی آوازیں گرج رہی تھیں۔قابضین کی گولیاں عوام کے لیے سوال چھوڑ گٸیں کہ جسے لوگ آزادی سمجھتے ہیں کیا وہ بد ترین غلامی ہے؟؟؟؟؟
شادرہ جیسے واقعات مستقبل میں واضح اور دوٹوک موقف اختیار کرنے کا تقاضا کرتے ہیں۔اب قابض کو کھل کر قابض کہا جاۓ۔غلامی کو غلامی کہا جاۓ اور سری نگر کی آزادی کی صداٸیں بلند کرنے کے بجاۓ پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر گلگت بلتستان پر قبضہ کرنے والے کو قابض کہا اور سمجھا جاۓ۔جو جس کا غلام ہے اس کے خلاف جدوجہد کرۓ کی بنیاد پر اس حصے پر پاکستانی قبضے کے خلاف سیاسی مزاحمتی تحریک کا آغاز کیا جاۓ۔قبضہ گیر کے قبضہ کے خلاف عوامی سیاسی مزاحمتی تحریک کی بنیادیں ڈالی جاٸیں۔

12. عوام کے درمیان آپسی نفرتیں سیاسی شعور پر سوالیہ نشان

جو عوام چار سال ایک دوسرۓ کے دکھ درد غم خوشی پریشانیوں میں حصہ دار ہوتے ہیں۔مشکلات اور تکالیف میں ایک دوسرۓ کے ساتھ کھڑۓ ہوتے ہیں۔جن کے تعلیمی ادارۓ۔ہسپتال،علاج،رہن سہن،ایک جیسا اور مشترک ہے وہی عوام دوران الیکشن آپسی نفرتوں کا شکار ہو گٸے۔یہاں تک کہ کٸی علاقوں میں قبل از الیکشن، پولنگ اسٹیشنوں پر الیکشن والے دن اور بعد از الیکشن بھی لڑاٸی جھگڑۓ ہو رہے ہیں۔ان آپسی لڑاٸیوں میں دو جانیں ضاٸع ہوٸیں جبکہ درجنوں لوگ زخمی حالتوں میں ہسپتال پہنچاۓ گٸے۔انتخابات ایک جمہوری عمل ہے جس میں ہر فرد کو اپنی مرضی سے ووٹ دینے یا نہ دینے کا جمہوری حق حاصل ہوتا ہے۔عوام کو تقسیم کرنے کے لیے گماشتہ حکمرانوں کے پیدا کردہ ٹبر قبیلہ برادری جیسے تعصبات کا شکار ہو کر عوام کے درمیان آپسی نفرتیں پسماندہ سیاسی شعور کو ظاہر کرتی ہیں۔بعد از الیکشن ان گماشتہ حکمرانوں نے عوام کے پاس نہیں آنا ہوتا عوام ہی ایک دوسرۓ کے دکھ درد اور مشکلات کے ساتھی ہوتے ہیں۔عوام اجتماعی طور پر غربت،جہالت،پسماندگی،لاعلاجی،بیروزگاری کو سہنے میں بھی ساتھی ہوتے ہیں۔ اجتماعی طور پر سیاسی کارکنوں کی یہ زمہ داری ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو موٹیویٹ کریں لیکن یہاں سیاسی کارکنان بہت سطحی اور پست سیاسی شعور کا شکار ہو کر عوام کے آپسی جھگڑوں میں فرنٹ مین کا کردار ادا کرتے ہیں۔انتخابات کو لیکر عوام کے آپسی جھگڑۓ اور ان جھگڑوں کی بنیاد پر آپسی نفرتیں اجتماعی سیاسی شعور پر سوالیہ نشان ہیں۔

حرفِ آخر
الیکشن 2021 کو زیرِ تحریر لانے کا مقصد اس پورۓ دھنگل کو سیاسی کارکنوں میں زیرِ بحث لانا ہے۔سیاسی کارکنوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اس ڈاکومنٹ پر مثبت اور تعمیری تنقید کریں تا کہ ہم اپنی خوبیوں کو سمیٹتے ہوۓ اور خامیوں کو دور کرتے ہوۓ آگے کی طرف پیش رفت کریں۔یہ انتخابات فوجی اسٹیبلشمنٹ اور پاکستانی حکمران پارٹی کی طرف سے جوڑ توڑ سے لیکر دولت کی ریل پیل،عوام کی آپسی نفرتوں،ایف سی اہلکاروں کی قبضہ گیریت کو دواٸم بخشنے کے توسیع پسندانہ عزاٸم کے ساتھ عوام پر گولیاں برسانے،رجعت پسند مذہبی قوتوں اور دولت کے بل بوتے پر طاقت حاصل کرنے والوں کے درمیان فوجی اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر اتحاد،اور نو منتخب وزیراعظم کے چناو کے طریقہ کار تک سارۓ عمل سے واضح طور پر محاصرۓ کے انتخابات تھے۔جو مکمل طور پر قابض کے محاصرۓ میں ہوۓ۔
محاصرۓ کے ان انتخابات کے بعد ریاست کے اس حصے کی شناخت کو تبدیل کرنے کا جو منصوبہ تھا فی الوقت وہ رکاوٹ کا شکار ہو گیا ہے لیکن اس منصوبے پر قابض کی طرف سے پیش رفت آہستہ آہستہ جاری رہے گی اس کو مدِ نظر رکھ کر مستقبل کی پیش بندی ضروری ہے۔مستقبل کی پیش بندی عوامی مزاحمتی سیاسی تحریک کی بنیادیں ڈالنے جیسے احداف کو لیکر کی جا سکتی ہے۔عوامی مزاحمتی سیاسی تحریک کی بنیادیں ڈالنے کے لیے ضروری ہے کہ
*سیاسی کارکنان اجتماعی طور ہر اپنا تعلق کتاب کے ساتھ جوڑیں،کتاب ہی بہتر رہنماٸی کر سکتی ہے۔
* ریاستی وساٸل پر عوام کے اختیار کا حق منظم طریقے سے مانگا جاۓ،ان وساٸل پر عوام کا اختیار نہ ہونے کی وجوھات کو عوام کے سامنے لایا جاۓ،اس غرض سے تحریری اور عملی کام ہونا ضروری ہے،
* عوامی مزاحمتی سیاسی تحریک کی بنیاد مزاحمتی لٹریچر کو بنیاد بنا کر ہی ڈالی جا سکتی ہے جس کے لیے نظریاتی سیاسی اور مزاحمتی لٹریچر زیادہ سے زیادہ تخلیق اور مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے لیے دانشورں،پروفیسر حضرات،طلبہ اور معاشرۓ کی دیگر با شعور پرتوں سے لکھاریوں کو اپنی زمہ داریاں نبھانا ہوں گی۔
* تعلیم،صحت،روزگار جیسے بنیادی عوامی مساٸل کی وجوھات اور ان کا حل عوام کے سامنے پیش کرنا ہو گا جس کے لیے اجتماعی طور پر سیمینارز۔مکالمے۔مباحثے اور عوامی احتجاج کے لیے واضح منصوبہ بندی اور حکمت عملی تشکیل دینا ہو گی۔
* یہ سمجھنا اور زیرِ بحث لانا از حد ضروری ہے کہ کٹھ پتلی حکمرانوں اور قابض کے درمیان تضاد کی نوعیت ہمیشہ غیر بنیادی تضاد کی ہوتی ہے۔چونکہ ان کے طبقاتی مفادات مشترک ہوتے ہیں۔یہ غیر بنیادی تضاد مل بیٹھ کر حل کر لیا جاتا ہے۔جیسے موجودہ وقت میں سابق کٹھ پتلی وزیراعظم فاروق حیدر اور قابض کے درمیان غیر بنیادی تضاد ہے۔
جبکہ قابض اس کے کٹھ پتلی گماشتہ حکمرانوں اور نو آبادیاتی و مقبوضہ عوام کے درمیان تضاد کی نوعیت بنیادی تضاد کی ہوتی ہے ۔بنیادی تضاد دو مختلف مفادات رکھنے والے طبقات کے درمیان تضاد ہوتا ہے جو ایک کی شکست اور دوسرۓ کی فتح پر ہی حل ہوتا ہے۔
* پی این اۓ کی تحریک کے دوران تضاد کی بنیادی اور غیر بنیادی نوعیت کو سمجھنے میں غلطی کی گٸی جس کی بنیاد پر یہ سمجھا گیا کہ کٹھ پتلی وزیراعظم فاروق حیدر کا تضاد قابض کے ساتھ گہرا ہو گا جس سے تحریک میں پیش رفت ہو گی موجودہ وقت میں ایک بار پھر ایسا ہی سمجھنے کی غلطی دوہراٸی جا رہی ہے۔یہ تضاد مشترکہ مفادات رکھنے والے طبقات کے درمیان ہے جس کی نوعیت غیر بنیادی تضاد کی ہے جسے مل بیٹھ کر حل کر لیا جاۓ گا۔ہمیں عوامی مساٸل اور ریاستی وساٸل پر عوام کے اختیار جیسے سوالات کو لیکر عوام اور قابض و اسکے گماشتہ حکمرانوں کے درمیان تضاد کو گہرا کرنے کی جدوجہد کرنا ہو گی اسی تضاد کی بنیاد پر یہاں ایک منظم عوامی سیاسی مزاحمتی تحریک کا آغاز ہو گا۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *