Main Menu

سیاست عظیم مقدس فریضہ ہے ؛ تحریر : محمّد پرویز اعوان

Spread the love

ہم اکثر کچھ مخصوص جملے سنتے ہیں سیاست بے رحم کھل ہے، ریسٹورینٹوں میں لکھا ہوتا ہے سیاسی گفتگو منع ہے۔
جب کسی آدمی سے نہ بنتی ہو طنزیہ کہا جاتا ہے بڑا سیاسی بندہ ہے یعنی ہیرا پھیری کو بھی سیاست کہا جاتا ہے پھر سرکاری ملازمینکے لئے سیاست قانونی ممنوع قرار دی گئی ہے ایسا کیوں ہے ؟
کیونکہ ایسا اس لئے کہ روایتی قابض حکمران طبقہ کے خوش آمدی درباری صحافی ادیب دانشور سیاست کا ایسا نقشہ پیش کرتے ہیں
سیاست کو باہمی انتشار نفرت تعصب کے رنگ میں پیش کرتے ہیں شخصی قبائلی مذہبی فرقہ وارانہ گروہی فروہی تعصبات کو پروموٹکرتے ہیں جس کی بنا پر شریف النفس انسان اس سے كنارا کشی ہو جاتے ہیں اور عام لوگوں میں لا شعوری طور پر یہ سوچ پروانچڑھتی رہتی ہے کہ سیاست گند ہے۔ جس کے نتیجے میں حکومت کھڑ پینچوں مفاد پرستوں موقع پرستوں کے ہاتھ میں رہتی ہے۔
اگر سیاست گند ہے تو پھر جب نام نہاد انتخاب ہوتا ہے تو ہر شخص کیوں متحرک ہو جاتا ہے ہر صحن ہر کچن میں کیوں گفتگو ہوتیہے وجہ لوگوں کی سوچ کوئی سماجی بہبود یا معاشرتی فلاح نہیں ہوتی اکثریت تو ان الفاظ سے ہی نا واقف ہوتی ہے اس کی سوچاپنے ہی محلے قبیلے برادری رشتہ دار سے مخاصمت ہوتی ہے وہ کسی ایک کو سپورٹ کرتا ہے تو دوسرا اس کی مخالفت میں کھڑا ہوتاہے یا کسی مامے چاچے پھوپھا کی آن کیلئے متحرک ہوتا ہے سرکاری ملازمین کو سیاست میں کردار کا حق نہیں تو ووٹ دینے کا حقکیوں ہے اس سے ووٹ بھی نہ لیا جائے۔
حقیقی سیاست در اصل ہیومین ازم یعنی اعلی انسانی اقدار کی سماجی کردار ہے انسان دوستی انسانی فلاح انسانیت کی تکریم اعلیاخلاقی فلاحی سماجی تعمیر کی فکر سیاست ہے تہذیب و تمدن کی ترقی علم و ہنر کی ترقی کیلئے شعوری جدو جہد سیاست ہے شرف انسانیکا آعلیٰ ترین سماجی کردار سیاست ہے شعور کے ارتقآئی عمل کا سماج پر نفاذ سیاست ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ عام شہری کو سیاست کے بنیادی اصولوں کا علم ہو اور پڑھے لکھے لوگ اس عمل کا حصہ بنیں اورسیاسی جماعت کی تعمیر کریں جو حقیقی سیاسی جماعت ہو اور کل عوام کو اس سے جوڑا جائے جو اپنی سیاسی بصیرت سے اپنےنمائندے چنیں جو ان میں سے ہوں اور مل کر تعمیری کردار ادا کریں جو عظیم مقدس فریضہ ہے۔
آپ سیاست میں دلچسپی نہ بھی لیں سیاست آپ میں دلچسپی لے رہی ہوتی ہے اپ متحرک ہوں گے تو سماج کی مجموئی ترقی میںاپکا حصہ ہو گا ورنہ چند خاندانوں گهرانوں کی چکا چوند دولتمندی کا ایندھن آپ ہوں گے۔

روایتی یا پاور پالیٹکس جو کے در اصل پالیٹکس ہے ہی نہیں اس میں عوام کا استحصال کر کے جو دولت جمع کی ہوتی ہے اسی کو لگاکر جو لوگ حکمران بننتے ہیں وہ قطعی عوام کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے وہ لاکھوں لگا کر کروڑوں بنانے آتے ہیں کروڑوں لگا کر اربوں کمانے آتے ہیں اسی لئے وہ عوامی سیاسی شعور کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں تب ہی وہ ایسے قوانین ضابطے بناتے ہیں کہ طلبہ مزدورکسان ملازمین منظم نہ ہو سکیں یونین نہ بنائیں تا کہ وہ لوٹ مار استحصال جاری رکھ سکیں اہل علم سیاست میں دلچسپی نہیں لیں گےتو جاہل آقا بن جائیں گے۔
تھوڑا نہیں زیادہ سوچیے






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *