Main Menu

آخر کب تک؟ تحریر : قمر عزیز

Spread the love

گزشتہ دنوں تنویر احمد کو دو سال سزا کا فیصلہ سنایا گیا مختلف لوگ مختلف تجاویز زیر بحث لا رہے تھے میرے زہن میں ایک ہی سوال تھا کہ اب کا جو اتحاد ہو گا اس کا کیا نام ہو گا ؟ کتنے دنوں مہینوں کا مہمان ہو گا؟ تنویر احمد کی سزا کی خبر سنتے ہی مجھے ماضی کے چند واقعات یاد آنے لگے پھر ان کے انجام پہ بھی نظر ڈالی عارف شاہد شہید کی شہادت کے فورا بعد اتحاد بنا کچھ دن اتحاد عارف شاہد کے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کرتا رہا پھر اچانک سے خبر آئی عارف شایہد شہید کو انصاف دلوانے والا اتحاد نہ رہا ۔ معیز اختر کے قتل کے اتحاد بنا مشترکہ جدوجہد ہوئی چند عرصے میں اتحاد ختم ہو گیا۔ علی مرتضی کی شہادت کے بعد اتحاد بنا کچھ احتجاج ہوئے کچھ عرصے بعد علی مرتضی کا نام لینے والا کوئی نہ تھا۔ نعیم بٹ شہید کی شہادت کے بعد بھی اتحاد بنا احتجاج دھرنے مارچ ہوئے آج نعیم بٹ کی عزیز و اقارب ان چہروں کو تلاش رہے ہیں جو نعیم بٹ کے خون کا بدلہ لینے والے تھے ۔

یہ مخض چند واقعات نہیں یہ ہماری تاریخ ہے۔ 5 اگست کے بعد طویل غور و فکر کے بعد مشترکہ جدوجہد کا فیصلہ ہوا اکثریت سوچ رہی تھی اب کی بار شاید یہ اتحاد طویل المعیاد ہو فیصلہ کن مرحلے تک جدوجہد کرے لیکن وہ اتحاد بھی غیر فعال ہو گیا۔ مہنگائی کے خلاف تاریخی احتجاج ہوئے مشترکہ جدوجہد ہوئی لیکن دو چار احتجاج کے بعد وہ جدوجہد بھی دم توڑ گئی۔ آج کل پونچھ میں بے نام اتحاد کی خبریں ہیں جو شاید چند دنوں کوئی ریلی بھی منعقد کر رہا ہے یہ بھی مخض سیاست بچانے کی ایک کوشش ہے جو چند دنوں بعد ملیامیٹ ہو جانا ہے ۔ تنویر احمد کی رہائی کے لیے بھی ایک اتحاد دہلیز پہ کھڑا ہے نہ جانے کس لمحے جذبات کو روندنے اتحادی کمیٹی، اتحاد بن جائے۔ پھر وہی ہو گا جو ماضی میں ہوا کچھ وقت کسی کو قیادت کسی کو سیاست اور کسی کو اسٹیج مل جائے گا۔ گلے پھاڑ تقریریں ہونگی فلک شگاف نعروں کی گونج میں یہ اتحاد بھی جام شہادت نوش کر جائے گا۔

ہمارے ہاں دو پارٹیاں ہونگی ان کا تیسرا اتحاد ہو گا اور دونوں پارٹیاں کوشش میں ہونگی کے کب کس کو کس طرح سائڈ لائن کرنا ہے یہاں نہ مشترکہ مقاصد ہیں نہ جدوجہد یہاں صرف سیاست ہے، سٹیچ چاہیے ہے ، عام لوگوں کو بے وقف بنانا ہے ۔ ماضی کے تقریبا تمام واقعات حادثات اس کی نظیر ہیں۔ قوم پرست ترقی پسند نہ جڑت قائم کر سکتے ہیں نہ ہی کرنا چاہتے ہیں اور اگر جڑت بن بھی جائے کچھ عرصے کی مہماں ہو گی۔ تنویر احمد کا عمل درست تھا اس کی رہائی کے لیے طریقہ کار نہ پہلے درست تھا نہ آنے والے دنوں میں درست ہو گا کیونکہ یہاں اصل مسئلے سے زیادہ اہم سیاست ہو چکی اگر اتحاد جڑت کچھ کر سکتے تو عارف شاہد کو کم از کم یاد ضرور رکھتے نام لیوا ضرور ہوتے علی مرتضی معیز اختر نعیم بٹ کی روہیں نہ تڑپ رہی ہوتی مسائل نہ ہوتے۔
گزشتہ کل بھی مفادات کی سیاست تھی آنے والا کل بھی اس سے مختلف نہیں ہو گا۔ تنویر احمد اگر اس آس میں ہوۓ کہ قوم پرست مجھے آزادی دلواں دیں گے تو یہ اس کی خوش فہمی ہو گی شاید وہ سمجھنے سے قاصر ہے یہ خود آزاد نہیں کسی کو کیسے آزادی دلوائیں گے ؟ یہ تقریر، نعروں، تعریفوں ،چار کالمی خبروں کے مارے ہیں اس سے بڑھ کر نہ ماضی میں کچھ دیکھا نہ حال میں اور مستقبل اس سے بھی بھیانک ہے۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *