Main Menu

آزادکشمير: سرکاری ملازمين کی سياست غير قانونی مگر قانون اور عوام دونوں خاموش

Spread the love

پونچھ ٹائمز رپورٹ

پاکستانی زير انتظام جموں کشمير کے علاقے آزادکشمير ميں سرکاری ملازمين کا سياست ميں حصہ لينا غير قانونی عمل ہے۔ آزاد جموں و کشمير سول سرونٹ ايکٹ 1976 کے مطابق کسی بھی سرکاری ملازم کی سياست ميں حصہ لينے يا سياستدانوں کی کسی بھی طرح کی حمائت کرنے کی سختی سے ممانت ہے۔ آزاد جموں و کشمير سول سرونٹ ايکٹ 1976 کہتا ہے کہ

۔۱- کوئ بھی سرکاری ملازم کسی بھی سياسی سرگرمی ميں حصہ نہيں لے گا اور نہ ہی کسی بھی طريقے سے آزادکشمير يا پاکستان ميں کسی سياسی تحريک کی حمائت و مدد کرے گا۔
۔۲- کوئ بھی سرکاری ملازم اپنے زير سرپرستی کسی فرد کو بھی کسی بھی سياسی سرگرمی ميں حصہ لينے يا اُسکی حمائت و مدد کی اجازت نہيں دے گا۔
۔۳- کوئ بھی سرکاری ملازم اپنے اثر و رسوخ کے استعمال و ديگر ذرائع سے آزادکشمير کے انتخابات ميں مداخلت نہيں کر سکتا۔ کوئ بھی سرکاری ملازم اگر ووٹ دينے کا اہل ہے تو وہ اپنا ووٹ دے سکتا ہے مگر کسی کی حمائت کا کوئ اشارہ نہيں دے گا۔

مگر ہم برسوں سے ديکھتے ہيں کہ آزادکشمير ميں سرکاری ملازمين عام سياسی جماعتوں کے کارکنوں سے زيادہ سياست کرتے ہيں بلکہ اصل صورتحال تو اب يہ ہو گئ ہے کہ سرکاری ملازمين ہی سياست کر رہے ہيں۔

سرکاری ملازمين کی سياست پر پابندی بے جا نہيں بلکہ اداروں کے استحکام و سماجی بہتری کے لئے ہے۔ آزادکشمیر ميں سرکاری ملازمين کا سياست ميں حصہ لينے کا نتيجہ اداروں کی حالت سے صاف نظر آ رہا ہے۔ آج آزادکشمير کا کوئ بھی ادارہ اپنی ذمہ دارياں پوری کر رہا ہے اور نہ ہی کسی طور کی عوامی خدمت بلکہ عوامی خدمت و ادارے کی بہتری کی بجاۓ سرکاری ملازمين سياستدانوں کے دُم چھلے بنے پھرتے ہيں اور ادارے نہ صرف غارت ہو چُکے ہيں بلکہ عوام پر بے جا بوجھ بن چُکے ہيں۔

دلچسپ بات يہ ہے کہ جب سرکاری ملازمين کی سياست پر پابندی ہے تو پھر قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عوام اس ضمن ميں کيوں خاموش ہيں ؟ سچ تو يہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے خود سے سياسی پارٹياں بنی بيٹھی ہيں اور عوام اس سارے معاملے سے خود کو الگ رکھے ہوۓ ہيں۔ شايد عوام يہ نہيں جانتے کہ سرکاری ملازمين کو ہر ماہ ملنے والی نخواہ و سہوليات سرکاری ملازمين کو کسی سياستدان يا سياسی پارٹی کی جانب سے تحفہ نہيں ملتی بلکہ سرکاری ملازمين کو ہر ماہ ملنے والی تنخواہ و مراعات عوام کے خون پسينے کی کمائ ہوتی ہے۔ اب سوال يہ ہے کہ عوام اپنے خون پسينے کی کمائ سرکاری ملازمين کی عياشيوں پر کيوں لُٹنے دے رہے ہيں ؟ عوام سرکاری ملازمين کو اپنی ذمہ دارياں پوری کرنے کی بجاۓ سياستدانوں کی چاکری کرنے پر خاموش کيوں ہيں ؟

يعنی ايک اُستاد ، ڈاکٹر، انجينر ، کلرک يا کوئ بھی سرکاری ملازم جس کو عوام کی خدمت کرنے کے لئے ملازمت ملی ہوئ ہے اور یہ سرکاری ملازم انہی خدمات کے عوض عوام سے تنخواہ لیتا ہے۔ مگر عمل ميں يہ اکثريتی سرکاری ملازمين کسی طور بھی اپنی ذمہ دارياں پوری کرنے کی بجاۓ سياستدانوں کے منظورِ نظر ہونے کی جدوجہد ميں مصروف رہتے ہيں اور مفت ميں عوام کی جيب سے تنخواہ بھی لئے جاتے ہيں۔ حد تو يہ ہے کہ سياستدان بھی لوگوں کو سرکاری نوکريوں پہ بليک ميل کر کے اُن سے اُنکی ہمدردياں خريدتے ہيں۔

يہ ايک انتہائ خطرناک رويہ ہے اور سرکاری ملازمين کی سياست ميں حصہ داری نہ صرف سرکاری اداروں کا بيڑہ غرق کر رہی ہی بلکہ آنے والی نسلوں کا بھی ستياناس کر رہی ہے۔

عوام کو حقائق بھانپتے ہوۓ سرکاری ملازمين کے اس عمل کی نہ صرف مذمت کرنی چاہيے بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا اس ضمن ميں گھيراؤ کرنا چاہيے تاکہ سرکاری ملازمين اپنی طے شُدہ قانونی ذمہ دارياں پوری کرتے ہوۓ اپنے ادارے کو مضبوط کريں اور معاشرہ ترقی کئ راہ پر چل سکے۔ اس معاملے کو نظر انداز کرنا نہ صرف قانونی اعتبار سے جُرم ہے بلکہ سماجی انحطاط و تباہی کا ذمہ دار بھی ہے۔ اسليے ضروری ہے کہ ذمہ دار اور باشعور شہری ہونے کا ثبوت ديتے ہوۓ سرکاری ملازمين کی سياست کے خلاف پہلے سے موجود قوانين پر عملدرآمد کروانے کے لئے حکومت کو مجبور کيا جاۓ۔






Related News

توہین مذہب یا سیاسی و سماجی مخاصمت اظہر مشتاق

Spread the love پاکستان اور اس کے زیر انتظام خطوں میں گذشتہ دہائی میں توہینRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *