Main Menu

راجہ تنویر احمد کیس اور آزادی پسند جماعتوں پر تنقید؛ تحریر : توصیف علی جرال ایڈووکیٹ

Spread the love

معروف کشمیری محقق اور بین الاقوامی صحافی راجہ تنویر احمد پر قائم بے بنیاد جھنڈا کیس جو گزشتہ 6ماہ سے ریاستی جبر کا شکار ہے یہ کیس نہ صرف اپنی نوعیت میں ریاست جموں کشمیر عالمی سطح پر تسلیم شدہ ایک مقبوضہ اور متنازعہ خطہ ہونے کے تناظر میں انتہائی اہم کیس بھی ہے بلکہ ریاستی عوام کی شعوری سطح اور آزادی پسند جماعتوں کا ایک ٹیسٹ کیس بھی ہے اس لیئے یہ کیس کس انجام کو پہنچے گا یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن ریاست جموں کشمیر کی تاریخ میں یہ کیس اپنی منفرد اور گہری چھاپ ضرور چھوڑے گا ۔

میری اس تحریر کا مقصد چند ایک ابہام اور سوشل میڈیا پر اول روز سے بے جا اور ایک مذموم تنقید سے متعلق ہے ۔ ایک بات شروع دن سے تاحال دیکھی جارہی ہیکہ جذباتی نوجوانوں اور چند ایک مخصوص افراد کی طرف سے یہ مہم مسلسل جاری ہیکہ آزادی پسند جماعتیں اس سلسلہ میں نہ صرف مکمل ناکام ہوئی ہیں بلکہ یہ لوگ صرف اپنی سیاست چمکانے کے چکر میں ہیں اس کے علاوہ دیگر بے شمار ایسی غیر معیاری اور حقیقت سے دور باتیں جو یہاں لکھنا مناسب تو نہیں سمجھتا لیکن ایسی باتیں لکھنے اور کرنے والے افراد حقیقت سے مکمل ناآشنا ہیں ۔

اسلیئے انتہائی ضروری سمجھا کہ اس معاملہ پر تحریر کروں تاکہ ایک مخصوص ایجنڈا کے تحت پھیلایا گیا ابہام دور کرنے کی بھی کوشش کرسکوں اور اس کیس سے متعلق آئیندہ کی جاندار منصوبہ بندی اور کردار کا تعین کیا جاسکے ۔

دیگر بہت ساری باتوں میں الجھے بغیر اسی معاملہ پہ بات کروں گا کہ راجہ تنویر صاحب کی گرفتاری کیبعد کوئی بھی آزادی پسند جماعت ایسی نہیں جو باقاعدہ تحریک کا حصہ بننے اندرون ریاست اور ڈائسپورا میں میدان عمل میں نہ نکلی ہو یا نکلنے کیلئے آمادہ نہ ہو ۔ آزادی پسند جماعتوں نے اپنے سابقہ طے شدہ غیر مشروط رہائی کے مطالبہ کی روایت کے مطابق ہی اس کیس کو احتجاجی تحریک کے ذریعہ انجام تک پہنچانے کی حکمت عملی پر کام شروع کیا تھا ۔ کٹھ پتلی اور بدترین نوآبادیاتی نظام کا غلام ریاستی سیٹ اپ اور اس کی کنٹرولڈ عدالتوں سے آزادی پسندوں نے کبھی بھی امید قائم نہیں رکھی ۔

لیکن اس کیس کے مرکزی کردار راجہ تنویر صاحب ان کی رہائی کے لیئے انکی فیملی اور قریبی دوستوں کی طرف سے بنائی گئی کمیٹی نے اس معاملہ کو عدالت میں لے جانے کا فیصلہ کیا جس کا مقصد ان کے نزدیک یہ تھا کہ ایک تو اس عدالتی نظام کو ایکسپوز کیا جانا مقصود ہے دوسرا اس کیس سے متعلق ٹرائل کے دوران تمام معاملہ ریکارڈ پر درج کروانا چاہتے ہیں ۔ اس عمل سے اختلاف یا اتفاق اپنی اپنی جگہ ضرور ہوسکتا ہے لیکن اس عمل میں آزادی پسند جماعتوں کا احتجاجی کردار بالکل غیر متعلقہ ہوجاتا ہے ۔ جب مقدمہ میں الزام کا شکار شخص خود عدالتی نظام کے ذریعہ معاملہ کو اگے بڑھانا چاہتا ہو تو وہاں کسی بھی اور سیاسی اور احتجاجی طریقہ کار سے مقدمہ کو عدالت سے باہر نمٹانا بالکل احمقانہ سی بات ہے ۔

تنوير احمد جو پاکستانی جھنڈا اُتارنے کی جُرم ميں پابندِ سلاسل ہے۔

اس لیئے ایسی صورتحال میں آزادی پسند جماعتوں نے اس سلسلہ میں شروع کی گئی احتجاجی تحریک کو مناسب وقت تک معطل کیا اور اس معاملہ پہ اعلانیہ تحریک کے بجائے اسے اپنے روٹین احتجاجی پروگرام میں شامل کیا جیسا کہ آزادی پسندوں کے اس دوران ہر احتجاج جلسہ جلوس میں راجہ تنویر صاحب سے اظہار یکجہتی اور رہائی کا مطالبہ شامل رہتا ہے ۔

اس دوران تنویر صاحب کے مقدمہ کی عدالتی کاروائی میں آزادی پسند جماعتوں کی مکمل سپورٹ جاری رہی ہے ۔ اگر کسی کو یہ بات سمجھ آنے مین دشواری ہے تو راجہ تنویر صاحب کے مقدمہ کو لے کر چلنے والی کمیٹی کے سربراہ راجہ قیوم صاحب اور دیگر ممبران کی معلومات حاصل کرلی جائے تو آپ کا یہ ابہام دور ہوجائے گا کہ وکلاء سے لے کر کمیٹی ممبران اور ہر عدالت پیشی پر عدالت کے باہر احتجاجی کیمپ لگانے والے افراد کا تعلق انہیں آزادی پسند جماعتوں سے ہے بلکہ یہ افراد اپنی اپنی جماعتوں کے انتہائی اہم زمہ داران ہیں ۔ جنکو اس سلسلہ میں اپنی اپنی جماعتوں کی طرف سے مکمل اعتماد حاصل ہے ۔

لہذا یہ پروپیگندہ کہ راجہ تنویر صاحب کے کیس میں آزادی پسند جماعتیں اپنی زمہ داریاں پوری نہیں کررہیں یہ بالکل بے بنیاد اور خلاف حقائق بات ہے ۔ عدالت میں مقدمہ جانے سے قبل احتجاجی تحریک اور بعد ازاں عدالتی کاروائی کے دوران اس معاملہ میں آزادی پسند جماعتیں ہی عملی طور پر برسرپیکار ہیں ۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ آزادی پسند جماعتیں جج سے زبردستی فیصلہ لکھوا کر یا عدالت کو آگ لگا کر یا پھر جیل توڑ کر راجہ تنویر صاحب کو رہا کیوں نہیں کروا رہیں تو ایسا ممکن نہیں ہے۔

ہاں آئیندہ مراحل میں دوبارہ احتجاجی تحریک منطم کیئے جانے کیساتھ ہی آزادی پسند جماعتوں کا عملی احتجاجی کردار پھر سے بڑھ جائے گا جس کیلئے منظم منصوبہ بندی کی انتہائی ضرورت ہے ۔

گزشتہ دنوں میرپور میں فری راجہ تنویر کمیٹی کے ممبران سے ملاقات ہوئی جنہوں نے دوبارہ احتجاجی تحریک فعال کرنے کی گذارش کی جس سلسلہ میں ان کے زریعہ میں نے کمیٹی کی جانب چند تجاویز ارسال کئیں جس پر کمیٹی کے 23 فروری ڈڈیال میں منعقدہ اجلاس میں ان تجاویز کی روشنی میں باقاعدہ پریس ریلیز کے ذریعہ تمام آزادی پسند جماعتوں کو احتجاجی تحریک کے سلسلہ میں مدعو کیا گیا، جماعتوں کے قائدین سے ملاقاتوں اور آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اظہار کیا گیا جو کہ ائیندہ چند دنوں میں تاریخ کے متوقع اعلان کے بعد منعقد ہوگی ۔

اس سلسلہ میں راجہ تنویر صاحب کے تمام ہمدردان سے مودبانہ گزارش ہیکہ راجہ تنویر صاحب کو اس سارے معاملہ میں کبھی اکیلا نہیں چھوڑا گیا لہذا اس طرح کی ابہام کا شکار اور لوگوں کو مزید ابہام کا شکار کرکے ان کی حمایت کیلئے عملی کردار سے دور کرنے کی مہم کا غیر دانستہ یا دانستہ حصہ بننے سے باز رہا جائے ۔ تنویر صاحب کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے نہ کہ انتشاری مہم چلا کر لوگوں کو تقسیم کرتے ہوئے معاملہ سے دور کر کے خود تنویر صاحب کو ہی اکیلا کردیا جائے ۔

لہذا اس سلسلہ میں اپنی زمہ داریوں کو سنجیدگی کیساتھ سمجھیں اور اپنی ہمدردری کو عملی کردار کی صورت میں اس تاریخی مقدمہ میں مثبت طریقہ سے طاقت بنائیں ۔

کالم نگار جموں کشمير لبريشن فرنٹ آزاد کشمیر گلگت بلتستان زون کے چیف آرگنائزر ہيں۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *