Main Menu

پانچ فروری يومِ يکجہتی کشمير : يومِ منافقت يا يومِ واردات ؟ تحرير: رضوان اشرف

Spread the love

رياست جموں کشمير کے ساتھ بے انتہا ہونيوالے مظالم ميں ايک ظُلم اور ميرا خيال ہے کہ سب سے بڑا ظلم يہ بھی ہُوا کہ رياست جموں کشمير کا مسئلہ درست بنيادوں پر تاحال نہ سمجھا جا سکا۔ مجموعی طور پر رياستی عوام آج 2021 ميں بھی اپنے ہی مسئلے کو سمجھنے سے مکمل قاصر ہيں اور قابض قوتوں کی طرف سے پيش کئے جانے والے مسئلہ کو ہی اپنا مسئلہ سمجھتے ہيں۔ نام نہاد آزادکشمير و گلگت بلتستان ميں اگر کوئ بھی شخص اپنے بنيادی انسانی حقوق کی بات کرتے ہوۓ يہ کہتا ہے کہ پاکستان ہم پہ ظُلم کر رہا ہے تو ايکدم سے ہندوستانی مقبوضہ علاقوں ميں ہونے والی بربريت و ظلم و تشدد کی بابت مثال دے کر بات کرنے والے شخص کا نہ صرف مُنہ بند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ انتہائ فراخدلی سے ہندوستانی ايجنٹ ہونے کا سرٹيفکيٹ بھی دے ديا جاتا ہے جو کہ باکل بے حقيقت اور جہالت پر مبنی نقطہ نظر ہوتا ہے۔ جب آپ دو علاقوں کے درميان تقابلہ کرتے ہيں تو اُن دونوں علاقوں کے عوام کی حالت، حکومتی کردار سميت جُملہ چيزوں کو خاطر ميں لاتے ہوۓ نتائج اخذ کرتے ہيں نہ کہ کسی ايک آدھ چيز کو لے کر ايکدم فيصلہ صادر فرما ديتے ہيں۔

ہندوستانی مقبوضہ علاقے ميں خاص کر وادی کشمير ميں (يہی وادی کشمير جہاں مذہب کو بنياد بنا کر اپنے مفادات کے لئے پاکستان نے آج تک اسے قربان گاہ بنا کر رکھا ہوا ہے اور دونوں ممالک اپنے مفادات کيليے رياستی عوام کے خون پر پراکسی جنگ جاری رکھے ہوۓ ہيں) ہندوستانی رياست کے خلاف درجن بھر اسلحہ بردار جماعتيں بندوق اٹھاۓ ہوۓ ہيں اور بندوق بھی پاکستان سے ليکر يعنی دشمن کا دشمن ہم نے دوست ہی نہيں اپنا مائ باپ بنايا ہوا ہے۔ مختصراً جب آپ رياست کے خلاف بندوق بردار تحريکيں چلا رہے ہيں تو زمينی حقائق کا اندازہ کر لينا زيادہ مشکل نہيں کہ رياست جواباً کيا رويہ رکھتی ہے۔ رياست کا رويہ بالکل اُسی طرح ہوتا ہے جيسے وادی کشمير ميں ہندوستان اور آج کافی عرصے سے اپنے ہی صوبے بلوچستان ميں پاکستان کر رہا ہے يعنی اُس علاقے کے لوگوں کا مسخ شُدہ لاشيں وصولنا، اغواہ کاری، اجتماعی قبريں ، کرفيو، جبر اور قتلِ عام روز کا معمول بن جاتا ہے۔ اب پھر تقابلہ کر ليجيے کہ پاکستان کے زير قبضہ رياست جموں کشمير کے علاقوں ميں پاکستان مخالف کتنی بندوق بردار جماعتيں برسرِ پيکار ہيں؟؟ تو جواب يہی ہے کہ پاکستانی زير قبضہ علاقوں ميں ايک بھی جماعت پاکستان کے خلاف بندوق برادر تحريک نہيں چلا رہی تو پھر دونوں مقبوضہ علاقوں کا اس ضمن ميں تقابلہ کيسا ؟؟؟

ہندوستانی زير قبضہ علاقے ميں اپنی پراکسی وار لڑنے کے لئے رياستی عوام کو ايندھن بنانے کا فيصلہ کرنے کے بعد ضياء الحق کے دور ميں بننے والے پاکستانی فوج کے “کشمير لانچنگ پيڈ” کے قيام کے بعد لبريشن فرنٹ اور بعد ازاں جماعت اسلامی و ديگر کو استعمال کرتے ہوۓ “جہادِ کشمير” کا ايک منظم کام شروع کيا گيا يعنی وادی کو قتل گاہ بنانے والے کرداروں کا تجزيہ کريں تو صاف نظر آتا ہے کہ پاکستان نے مذکورہ جماعتوں کے زريعے وادی ميں موت کا اسٹيج تيار کيا اور ہندوستان نے گولياں چلائيں اور ظُلم و بربريت کا ايک نہ رُکنے والا سلسلہ چل نکلا۔ گلگت بلتستان تو 1947 سے ہی نام نہاد آزادکشمير سے الگ رکھا گيا تھا اب لانچنگ پيڈ بنانے کے مقاصد ميں سے ايک مقصد يہ بھی تھا کہ پاکستانی مقبوضہ علاقوں کے لوگوں کی اسطرح سے ذہن سازی کی جاۓ تاکہ انہيں “مقبوضہ” صرف وادیِ کشمير ہی لگے۔

جماعت اسلامی کے اُس وقت کے پاکستانی امير قاضی حسين احمد نے پہلی دفعہ 5 فروری 1990 کو “يومِ يکجہتیِ کشمير “ مناتے ہوۓ پاکستانی حکومت سے اس دن کو سرکاری سطح پر منانے کا مطالبہ کيا جو کہ 1991 سے سرکاری سطح پر ہر سال پانچ فروری يہ کہتے ہوۓ منايا جا رہا ہے کہ ہم کشميريوں کے ساتھ يکجہتی کرتے ہيں۔ يہاں نام نہاد آزادکشمير ميں پاکستانی جماعتيں يہ کہتے ہوۓ مناتی ہيں کہ ہم سری نگر کے لوگوں سے يکجہتی کرتے ہيں۔ يعنی منافقت در منافقت۔ پاکستان نے ہندوستان کی معاونت سے اس علاقے کو قربان گاہ بنايا ہوا ہے تو پھر يکجہتی کيسی؟ چلو دومنٹ کو اسے حقيقی مان بھی ليں تو پاکستان ، افغانستان، ايران، چين، روس يا دُنيا کا کوئ بھی مُلک رياستی عوام سے يکجہتی کرے تو بات سمجھ ميں آتی ہے مگر ايک انسان کی اپنی ہی ذات سے کيسی يکجہتی؟؟ يعنی رياستی عوام اپنی ہی ذات کے ساتھ کس طرح يکجہتی کر سکتے ہيں؟؟

غلام قوميں اپنے قابضين کے خلاف قومی آزادی کے لئے جدوجہد کرتی ہيں اپنی ہی ذات کے ساتھ يکجہتيوں کا ڈھونک نہيں رچاتيں۔ يکجہتی کے نام پر پاکستان اپنے کاسہ ليسوں کی مدد سے اپنا منافقانہ چہرہ چھپانے کی ناکام کوشش تو کر رہا ہے مگر ریاست کے باشعور لوگ اور عالمی دُنيا جانتی ہے کہ رياستی قبضے و لُوٹ گھسوٹ ميں پاکستان و ہندوستان ايک ہی سِکے کے دو رُخ ہيں۔ يکجہتی کے ڈرامے کے زريعے رياستی عوام کو آج تک یہ تاثر دينے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ساری رياست غلام نہيں صرف ہندوستانی زير قبضہ علاقہ غلام ہے۔ مگر کوئ پوچھے کہ پاکستان زير قبضہ علاقوں ميں پاکستان کے خلاف کسی طرح کی تحرير و تقرير جُرم کيوں ؟ اپنے حقوق و اختيار کی بات کرنے پر اے ٹی اے، نيشنل ايکشن پلان، شيڈيول فورتھ فورا حرکت ميں کيوں؟ حالانکہ يہاں تو کوئ بندوق بردار جماعت بھی نہيں ہے مگر پھر بھی گولی و جيليں ليکن پاکستان کو قابض کہيں تو سری نگر کے جنازے نکال کر دکھانے والے ناسمجھ لوگ نہ صرف سہولتکاری کا کام کر رہے ہيں بلکہ اس بے بنياد اور غير حقيقی تجزيے کہ رياست پر صرف ہندوستان قابض ہے کو پھيلا کر عوام کو بے وقوف بنانے و عوام کو بے راہ روی کا شکار کرنے ميں قابض قوتوں کے مددگار بھی بن رہے ہيں۔

پاکستان ايک طرف خود رياست جموں کشمير پر ہندوستان ہی کی طرح قابض ہے تو دوسری طرف ہندوستان سے مصالحت و کاروباری تعلقات جاری رکھے ہوۓ ہے۔ پاکستان نے ہندوستان کو پہلے ہی“انتہائ پسنديدہ قوم” قرار ديا ہوا ہے اور دونوں ممالک کی اپنی سرحدوں پر صبح شام پرچم اتارنے و لہرانے کی تقريبات منعقد ہوتی ہيں ، مٹھائياں تقسيم کی جاتی ہيں، رقص و سرور کی محفليں سجتی ہيں ، سرحديں تجارت کے لئے کُھلی ہيں، عيد ، ہولی و ديگر تقريبات پہ تحفے تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے، مزاروں ، درگاہوں ، گردواروں کی زيارتوں و ياتراؤں کی کُھلی آزادی ہے اور اپنے ہاں مذہبی ہم آہنگی پيدا کرنے پہ سرمايہ کاری کی جا رہی ہے مگر رياست جموں کشمير ميں مذہبی منافرت کے ساتھ ساتھ رياستی سرحدوں پر آگ و خون کی ہولی کھيلنا ايسا معمول بنا ہوا ہے کہ سرحدی علاقوں کے شہری اب تنگ آ کر اپنی جان بچانے کے لئے بنکرز کی مانگ کر رہے ہيں۔ اس قبضے و منافقت کے ساتھ ساتھ يکجہتی کيسی؟؟؟

قابض قوتيں محکوم قوموں کے ساتھ يکجہتياں نہيں بناتيں بلکہ اپنے قبضے کی طوالت کو مختلف چاليں اور ہتھکنڈے استعمال کرتی ہيں اور يہ يکجہتی کا ڈرامہ اُن ہتکھنڈوں ميں سے اېک ہے۔ رياستی عوام کو اپنی ہی ذات کے ساتھ يکجہتی کے ڈرامے کا انوکھا اور گھٹيا کردار نبھانے کی بجاۓ باغيرت اور باشعور قوموں کی طرح اپنی آزادی کی جدوجہد کرنی چاہيے۔

تاريخی ، سائنسی و قومی تجزيے کے تناظر ميں پُوری ذمہ داری سے کہا جا سکتا ہے کہ يکجہتی کا ڈرامہ منافقت کے علاوہ کچھ نہيں اور رياستی عوام کے خلاف عقائد ميں لپيٹی ہوئ شعوری واردات ہے تاکہ پاکستانی زير قبضہ علاقوں کے لوگ صرف سری نگر ميں ہونيوالی بربريت (جو کہ پاکستان کی معاونت سے ہوتی ہے) کو ديکھتے ہوۓ صرف وادی کشمير کو مقبوضہ علاقہ سمجھيں اور خود کو پاکستانی سمجھتے ہوۓ ہندوستانی زير قبضہ علاقے کے لوگوں سے يکجہتی کريں يعنی رياستی عوام اپنی ہی ذات کے ساتھ يکجہتی کا انوکھا کارنامہ سر انجام ديتے ہوۓ خود کو رياستی شہری ہی نہ گردانيں اور کسی طور نہ اپنے مسئلے کو سمجھ سکيں اور نہ ہی اپنی آزادی کے لئے اُٹھ سکيں۔

يکجہتی کے نام پر کئے جانے والے اس پاکستانی ڈرامے کو ايک طرف رکھ کر رياستی عوام کو اپنے مسئلے کا حقيقی بنيادوں پر تجزيہ کرنا ہو گا۔ اس مسئلے ميں اب تک لاکھوں رياستی شہری اپنی جانيں و عزتيں قربان کر چُکے ہيں مگر عملًا صرف اس پراکسی وار ميں ايندھن ہی بنتے رہے اور آج تک اپنے ہی مسئلے کا حصہ ہی نہيں ہيں۔ رياست کا ہر وہ شہری جو باشعور ہے اور رياست کی وحدت پہ يقين رکھتا ہے کو ہر صورت ميں اب يکجہتی کے نام پر کئے جانے والے اس ڈرامے کو رد کرتے ہوۓ باقی عوام الناس کو اس حقيقت سے روشناس کروانے کی کوشش کرنی چاہيے کہ رياست جموں کشمير ناقابلِ تقسيم وحدت ہے اور اس پر قابض قوتوں کے اشاروں پر اپنی ہی ذات کے ساتھ يکجہتی کے فضول ڈراموں کی لاحاصل مشق کرتے ہوۓ اپنی غلامی و محروميوں کو طوالت دينے کی بجاۓ اپنی قومی آزادی و اختيار کی جدوجہد کرنا ہو گی۔يکجہتی کے ان ڈراموں سے عالمی دُنيا کو کسی طور کوئ دلچسپی نہيں اسليے انتہائ ضروری ہے کہ اپنے قومی حواس کو خاطر ميں لاتے ہوۓ اپنی آزادی کی جدوجہد کی جاۓ جو ہر لحاظ سے قانونی، انسانی و اخلاقی ہے اور اسے نہ صرف دُنيا تسليم کرتی ہے بلکہ اس کی حمائت بھی کرتی ہے۔

انقلاب رياست جموں کشمير کے عوام کی ميراث ہے، اُٹھو تم سب جو غلام نہيں ہو گۓ۔۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *