Main Menu

ہمایوں پاشا: میرپور شہر کا دبنگ مُصلح اور عاشق رسول صلم؛ تحرير: شمس رحمان

Spread the love

انفرادی اصلاح کاری ہر معاشرے میں انسانی تاریخ کے اولین ادوار سے موجود چلی آرہی ہے۔ اس کا مطلب ہوتا ہے کسی فرد کی طرف سے گرد و پیش کے ماحول میں معاشرے کے لیے نقصان دہ رسموں رواجوں اور حرکات و سکنات پر آواز اٹھانا اور ان پر روک لگانا ۔ ویسے تو یہ فریضہ کسی بھی معاشرے میں ریاست اور اس کے متعلقہ با اختیار احکام کا ہوتا ہے تاہم جب ریاست اور متعلقہ احکام اور ادارے اپنے فرائض سے غفلت برتتے ہیں یا ان میں اتنی سکت اور توفیق نہیں ہوتی کہ وہ اپنے فرائض خوش اسلوبی سے نباء سکیں تو کچھ افراد اپنے طور پر آواز بلند کرتے اور کبھی تو عملی طور پر یعنی ہاتھوں سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میرپوری سماج میں یہ رسم کوئی نئی نہیں اور نہ ہی ہمایوں پاشا کوئی پہلا فرد ہے جس نے انفرادی صلاح کاری کا راستہ اختیار کیا ۔ میرپور میں ہر نسل یعنی ہر پیڑھی میں ایسے انفرادی صلاح کار گذرے ہیں جو مختلف سماجی مظاہر کو ناپسندیدہ سمجھ کر ان کو روکنے کے لیے شور مچاتے یا کبھی ڈنڈا چلاتے تھے ۔ اس کے لیے پرانے میرپور شہر میں مولوی ڈنڈے کا نام اکثر سُننے کو ملتا ہے جن کی خاصیت یہ تھی کہ عورتیں اول تو بازار میں آئیں ہی نہ اور اگر آئیں تو پردے میں ہوں۔ اسی طرح صوفی زمان ایک اور مقامی مصلح تھے جو تن تنہا سرکاری افسروں یا دوکانداروں یا دیگر زورآوروں کی من مانیوں کے خلاف بے خوف و خطر آواز اٹھاتے اور اکثر مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے ۔
ہمایوں پاشا بھی اسی طرح کے ایک مقامی شہری ہیں جو میرپور کالج میں طالب علمی کے زمانے سے ایک سرگرم طالب علم رہنما تھے ۔ لیکن بعد میں وہ میرپور ڈویژن کے لاکھوں افراد کی طرح برطانیہ ہجرت کر گئے جہاں انہوں نے کئی سالوں تک مختلف کام کیے اور پھر واپس میرپور جا کر رہنے لگے۔ میرپور میں انہوں نے شہر کی مختلف سیاسی اور سماجی تنظیموں اور سرگرمیوں میں شرکت کے ساتھ ساتھ انفرادی طور پر کچھ مخصوص مسائل کو اُجاگر کرنے کا ذمہ اپنے اوپر لے لیا۔ ان کی اس مُہم میں مرکزی حیثیت شہر کی صفائی ستھرائی کے معاملے کو اُجاگر کرنا تھا ۔ اس کے لیے انہوں نے فیس بک کا بھرپور استعمال کیا اور شہر میں گندگی اور غلط پارکنگ ، بڑے بڑے بل بورڈوں، نامکمل پروجیکٹس جیسے چک ہریام پل کو لے کر حکومت اور متعلقہ اداروں پر خوب تنقید کی۔ اس کے نتیجے میں کچھ بہتری بھی پیدا ہوئی اور کچھ مقامی افسران نے بھی ان کے کام کر سراہا۔ لیکن یہ آخری سکڈ پاشا صاحب کا غلط چل گیا۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمایوں پاشا کا ایک مسئلہ ہے۔ وہ جو حق سمجھتا ہے اس کا ‘قدرتی’ انداز میں اظہار کردیتا ہے۔ یعنی وہ اس کو اپنے اندر لگی ہوئی اُس معاشرتی چھانی میں چھانتا نہیں جو انسان کی افزائش کے ساتھ ساتھ اس کے دماغ میں پرورش پاتی ہے۔ جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ معاملے کے تناظر اور ممکنہ اثرات کو پیش نظر رکھ کر اظہار کا قابل قبول انداز اختیار کیا جائے۔ پاشا شہریوں کی اس قبیل سے تعلق رکھتا ہے جو شاید اس انداز کو منافقت قرار دے گا ۔ تاہم ایسے سماج جہاں ‘جمہوریت’ سرمایہ داری سے پہلے آ جاتی ہے وہاں سرمایہ دارانہ جمہوریت کے طریقوں کو سمجھنے کی صلاحیت نہ تو ‘رعایا’ میں ہوتی ہے اور نہ ہی ‘ نوابوں اور بادشاہوں’ میں ۔ یہاں جمہوریت اور ‘شہری حقوق و فرائض’ کی گاڑیاں ایسے ہی چلتی ہیں جیسے دوسری گاڑیاں ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر ‘ اُٹکتی اور پٹختی’ رہتی ہیں۔
ہمایوں پاشا کا بنیادی مقصد تو شہر کی صفائی تھا اور وہ سمجھتے ہیں کہ سرکاری عمارتوں پر اشتہارات غیر قانونی اور شہر کو آلودہ کرتے ہیں۔ لیکن یہاں انہوں نے دو غلطیاں کیں جن کی وجہ سے وہ کچھ ہوا جو ہوا۔
ایک یہ کہ اشتہارات میں جو میلاد اور عرسوں کے اشتہارات ہوتے ہیں وہ عام سیاسی جماعتوں کے اشتہارات سے مختلف ہوتے ہیں ۔ جن پر درحقیقت ‘ ہینڈل ودھ کئیر’ لکھا ہونا چاہیے ۔ بلکہ ایکسپلوزوو میٹریل مطلب دھماکہ خیز مواد لکھا ہوا ہونا چاہیے۔
دوسرے یہ ہمایوں پاشا بھی اپنے پیش رو صلاح کاروں کی طرح دبنگ ہیں اس لیے ان کی تحریروں اور تقریروں میں جہاں مقامی مسائل اور معاملات اُجاگر کیے جاتے ہیں وہاں ان کے الفاظ اور انداز سخت ہی نہیں بلکہ ہتک آمیزی کو چھو رہے ہوتے ہیں۔ اب یہ وہ رویہ اور انداز ہے جو ہمارے ہاں اکثر مصلح کاروں اور انقلابیوں اور آزادی پسندوں میں نظر آتا ہے کہ سماج کو بدلنے کے لیے سخت اور جارحانہ رویہ اختیار کیا جانا چاہیے۔ تاہم وہ یہ بھول گئے یا اس کو خاطر میں نہیں لایا کہ ہتک کسی کی بھی کی جائے وہ ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں کیونکہ ہتک کی چوٹ انا پر پڑتی ہے اور انا ردعمل کرتی ہے۔ اور دوسری حقیقت جو انا سے بھی بڑی ہے اور عرس و میلاد کے اشہتارات سے متعلق ہے وہ یہ ہے کہ میلاد اور عرس صرف عباداتی تقریبات ہی نہیں ہیں بلکہ وہ مقامی سماجی روایات ہیں اور ان کے ساتھ ایسی معاشی سرگرمیاں جڑی ہوتی ہیں جن سے سینکروں لوگوں کا روزگار وابستہ ہوتا ہے۔ اور اب تو تحریک لبیک نے معاشرے کے اس اب تک سیاست بیگانہ طبقے کو سیاست سے بھی منسلک کر دیا ہے۔ اس لیے اب ان کی یہ سرگرمیاں حق اظہار میں شمار ہوتی ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غیر قانونی اشتہارات لگائے کیوں گئے تھے تو اس سلسلے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ اشتہارات ہائی کورٹ کی عمارت پر لگے ہوئے تھے اور شہری صلاح کار کی حیثیت سے پاشا صاحب کو ہائی کورٹ کے احکام کی توجہ اس دلانی چاہیے تھی تاکہ وہ خود سرکاری پر غیر قانونی اشتہاروں کو اترواتے۔ پاشا صاحب نے اشتہار غیر قانونی سمجھ کر نیک نیتی سے اُتارے اور کسی بھی طرح سے انہوں نے ناموس رسالت ﷺ کی توئین نے کی ۔ تاہم ان کے رویے کی وجہ سے جو ان اشتہارات سے منسلک شہریوں اور شاید پولیس والوں کی انا پر چوٹ پڑی تو انہوں نے ناموس رسالت کا جھنڈا لے کر جوابی حملہ کر دیا۔
اب ان پر کٹے پرچے کا کیا ہو گا اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ میرپور کے احکام انتقامی انداز اختیار کرتے ہیں یا مدبرانہ۔ میں ذاتی طور پر جتنا کچھ پاشا صاحب کو جانتا ہوں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ پاشا صاحب نے نبی کریم ﷺ کی توئین نہیں کی اور نہ وہ اس کا سوچ سکتے ہیں۔ وہ خود بھی عاشق رسول ہیں ۔ تاہم انہوں نے اپنے رویے سے لوگوں کی توئین کی ہے۔ جو ان کے اس فیس بک سٹیٹس سے ثابت ہے جو انہوں نے اشتہارات اتارنے کے لیے جانے سے پہلے لکھا تھا۔ اب اس کا حل یہ بنتا ہے کہ لوگ اور پولیس والے پاشا صاحب کو معاف کر دیں کیونکہ درحقیقت پاشا کی ڈانٹ والد یا بڑے بھائی کی اپنی خالصتاً میرپوری ڈانٹ ہے جو ہمیشہ ڈانٹ کا نشانہ بننے والوں کے بہترین مفاد میں کی جاتی ہے۔
پولیس کو پرچہ خارج کر دینا چاہیے اشتہارات کے لیے مخصوص کی گئی جگہوں کے سواء کہیں لگانا غیر قانونی قرار دے دیا جانا چاہیے اور یہ بھی اشتہار لگانے والے کی ذمہ داری قرار دی جائے کہ مذہبی اشتہارات لگانے والے تقریب منعقد ہوجانے کے بعد وہ اس کو اتاریں اور اگر نہ اتاریں تو ان کو جرمانہ کیا جائے ۔ اب یہ نہ کہنا کہ پرچہ کٹ گیا اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ بابا جان اور ان کے ساتھیوں کو جیل سے رہا کر دیا گیا بغیر کسی مشکل کے۔ اگر اس مسئلے کو توئین رسالت کا مسئلہ بنایا گیا تو شہر میں موجود جنونیت میں شدت آئے گی جس سے معلوم نہیں محمد عربیﷺ کی ناموس میں اضافہ ہو گا یا نہیں لیکن میاں محمد بخش رحمتہ اللہ کا میرپور جذباتی طور پر مزید آلودہ ہو جائے گا۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *