Main Menu

فرق کیا ہے ؟ تحرير : کامريڈ آفتاب احمد مرحوم

Spread the love

جب کسی تحریک کی فکری و نظری بنیادیں نہ ہوں وہ درست اور غلط ,دوست اور دشمن ,عوام اور حکمران میں امتیاز نہ رکھتی ہو ,وہ سماج میں بربریت بن کر رہ جاتی ہے.جموں کشمیر کے قومی سوال کے نام پر غاصب ممالک اور ان کے گماشتہ حکمرانوں نے ستر برس سے اس قدر ابہام پھیلا رکھے ہیں کہ قومی آزادی اور خود مختاری کی حامی قوتیں ابھی تک ان سے باہر نہیں نکل سکی ہیں.وہ بھی عمل میں وہی راستہ اختیار کرتی ہیں جو غاصب حکمران اور ان کے گماشتہ مقامی حکمران اختیار کرتے ہیں.وہ بھی انھی عالمی سامراجی اداروں سے توقعات رکھتے ہیں .جو دنیا بھر میں قومی و طبقاتی جبر کو برقرار رکھنے کے لیے سامراج کو قانونی تحفظ مہیا کرتے ہیں.اس کی بنیادی وجہ ابہام ہے.جب تک ابہام کا خاتمہ نہیں ہو گا لاحاصل جدوجہد کی وجہ سے بیگانگی اور مایوسی کا شکار ہو کر یہ قوتیں حکمران طبقہ کا ایندھن بنتی رہیں گئی.ابھی تک یہ سمجھا جارہا کہ آزادی کوئی ایسی پروڈکٹ ہے .جو عوام کو کسی بیرونی قوت کی مدد سے مخصوص لوگ تحفہ میں لے کردیں گئے.اور اس کے لیے عوام کی سرگرم شرکت کی ضرورت نہیں ہے.یہی وجہ ہے کہ ابہام کے باعث عوام پر انحصار کرنے کی بجاے سامراجی ممالک کے اداروں کے اہلکاروں کے ساتھ فوٹو سیشنز کو قومی آزادی کا نام دے دیا گیا ہے.جمود کا شکار سوچیں فرد کے تاریخی کردار سے آشنا نہ ہونے کے باعث تبدیلی کو اوپر سے مسلط ہوتا دیکھتی ہیں جبکہ تبدیلی بتدریج نیچے سے اوپر کی جانب سفر کرتی ہے.جمود کا شکار سوچیں بیرونی طاقت کے ذریعے سماجی تبدیلی کا خواب دیکھتی ہیں .اور اپنے عوام پر انحصار اس لیے نہیں کرتیں کیونکہ وہ سماجی تبدیلی کی جدوجہد میں عوام کے کردار پر یقین نہیں رکھتی ہیں .وہ اس ابہام کا شکار ہوتی ہیں کہ دنیا میں سائنس و ٹیکنالوجی سمیت جتنی ترقی ہوئی ہے شاید یہ انسانی محنت اور شرکت کے بغیر ہوئی ہے .کسی غیر مرئی قوت نے نصب کر دی ہے.وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ دنیا کی بلند ترین عمارتیں ہوں یا عجوبہ نما سڑکیں ,ہوائی جہاز ہو یا بحری جہاز,انفارمیشن ٹیکنالوجی ہو یا کوئی اور شعبہ اگر اس میں سے انسانی محنت نکال دی جاے تو یہ خام مال رہ جاتا ہے .جمود کا شکار سوچ شعوری طور پر انسان کے کردار کاتعین نہیں کر پاتی اس لیے اس کا یقین اور اعتماد بھی عوام پر نہیں ہوتاہے .گزشتہ دنوں اس حوالے ایک نشست میں کچھ اس طرح کی تجاویز اور سوالات کا سامنا کرنا پڑا.پہلا سوال یہ تھا کہ فلاں پارٹی کا وفد ہر سال یواین کے فلاں ادارے میں خطاب فرماتاہے آپ کی پارٹی کیوں نہیں کرتی؟

ہم نے حسب عادت جوابی سوال پوچھا کہ آپ کی معلومات کے مطابق کوئی ایسا ملک یا قوم ہے جس نے خود آزادی کی جدوجہد نہ کی ہو اور اقوام متحدہ نے اسے آزادی دلا دی ہو؟ جواب آیا کہ نہیں۔ تو ہم نے کہا کہ پھر ایسے عمل کو آپ آزادی کی جدوجہد کیسے قرار دیتے ہیں؟ دوسرا سوال یہ تھا کہ چین قومی سوال پر غاصب قوم کی حمایت کرتا ہے اور محکوم قوم کی مخالفت کرتا ہے ، چین روس جیسا کردار ادا نہیں کرتا۔ ہم نے پھر جوابی سوال پوچھا کہ چین نے کونسی قومی تحریک کی مخالفت کی ہے؟ تو انہوں کہا کہ وہ کشمیر کی قومی تحریک کی حمایت نہیں کرتا۔ ہم نے پھر پوچھا کہ کشمیر کی قومی تحریک کہاں موجود ہے ؟ تو کہنے لگے کہ یہ جو تھوڑی بہت ہے .ہم نے کہا کہ اس کی حمایت آپ کے اور میرے محلے والے نہیں کرتے تو چین کیوں کرے؟
ایک سوال یہ بھی آیا کہ آپ کی پارٹی ہاؤس آف لارڈ ,یورپین پارلیمنٹ ,برطانوی پارلیمنٹ میں مسلہ کشمیر کو اجاگر کیوں نہیں کرتی ؟ تو ہم نے پوچھا کہ 47 تک بر صغیراور کشمیر کس کی عمل داری میں تھے تو جواب ملا کہ برطانیہ کی .تو ہم نے پوچھا کہ کیا وہ اگاہ نہیں ہیں ؟ تو جواب ملا کہ وہ اگاہ ہیں۔ توہم نے کہا کہ آپ یا میں انھیں کیا اگاہ کریں گئے؟
آخر میں سوال آیا کہ جموں کشمیر پی این پی کے نزدیک کونسا راستہ ہے ؟ جس کاجواب ہم نے یوں دیا کہ جب تک قومی سوال کا حل یا قومی آزادی عوام کا مادی مسئلہ نہیں بنے گی اور اس کے حل کی جدوجہد میں عوام کی سرگرم شرکت نہیں ہوگی اس وقت تک یہ حل نہیں ہوگا۔ اس لیے معروضی حالات کے مطابق جو فکری ابہام ہیں ان کو ختم کیا جاے اوراندرون ملک عوام کے طبقاتی مسائل کو حکمت عملی کے ساتھ قومی سوال کے ساتھ جوڑا جاے۔ ان میں توازن پیدا کیا جاے۔ خلاء میں اچھل کود سے مسائل حل نہیں ہوتے۔
پھر یہ سوال آیا کہ آپ کے نزدیک یواین کے اداروں سمیت ہاوس آف لارڈ، پارلیمان یہ سب راستے یہاں کے حکمران طبقے استعمال کرتے ہیں توآزادی پسندوں کو کونسے طریقےاستعمال کرنے چاہیے؟ ہم نے کہاکہ دنیا کے ہر ملک میں محنت کش عوام اور ان کے معروض کے مطابق ان کی نمائندہ سیاسی قوتیں موجود ہیں آپ ان کے سامنے اپنے قومی سوال کو اجاگر کیجیے اوران سے عوامی حمایت لیجیے۔ ورنہ حکمران طبقہ اور ان کی نمائندہ سیاسی قوتیں تو سرکاری مراعات ہڑپنے کے لیے کرتے ہیں تاکہ عوام کو بے وقوف بنا سکیں کہ وہ مسلہ کشمیر اجاگر کررہے تھے۔
یہ تو آج ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے.وہ تو کاروبار کررہے ہیں اور آپ صرف ٹائی کوٹ والی تصویر کے لیے کرتے ہیں۔ فرق تو کوئی نہیں ہے۔ ایک دوست نے کہا کہ دیکھیں فلاں شخص نے بیرون ملک کتنا کام کیا ہے وہ اپنے کام کو اخبارات میں تشہیر کے لیے اشہارات دیتا ہے وسائل خرچ کرتا ہے۔ ہم نے کہا کہ ہاں ایسا تو ہے، ہر انسان ذات کا اظہار چاہتا ہے .وہ اس نام سے ذات کا اظہار کررہا ہے۔ عوام یا قومی سوال کی جدوجہد کا طریقہ مختلف ہے۔ ہم نے نوجوانوں سے پوچھا کہ کیا آپ کی نظریاتی تربیت کی ضرورت نہیں؟ کیا کسی تحریک کو درست سمتوں میں لیجانے کے لیے دانشوروں،سماجی سائنس دانوں، تجزیہ نگاروں، شاعروں افسانہ نویسوں ادیبوں کی ضرورت نہیں ہے ؟ تو کہنےلگے ہے.۔۔۔جو اس عمل کے لیے ,جو لٹریچر کے لیے اپنے حصے کا وقت اور وسائل کی قربانی دینے کے لیے تیار نہیں.وہ یواین کے اداروں میں جاکر کونسی عوامی آزادی لے گا؟؟

اس لیے آپ کم از کم حکمران طبقہ کے زیر اثر رہ کر سوچنا اور سمجھنا چھوڑو.آ پ سماج کی سائنس پڑھو ، سائنٹیفک تجزیہ کرو۔ عوام بن کر عوامی طریقے سے سمجھو اور عوامی راستے اور طریقے اختیار کرو۔ عوام اور حکمران میں فرق کرو، عوام اور حکمران کی طرز زندگی، طور طریقوں,ثقافت، شعور اور رحجانات میں فرق کرو ۔
تبھی جا کر آپ اندرون و بیرون ملک جدوجہد اور اس کی حکمت عملی سمجھو اور بناو گے ورنہ یوں ہی اپنی توانائیاں ضائع کر کے بیگانگی کا شکار ہو کر حکمران طبقہ کا ایندھن بنتے رہو گئے۔

يہ تحرير کامريڈ آفتاب کی پرانی لکھی گئ تحريروں سے منتخب کی گئ ہے۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *