آخر کب تک ؟ تحرير: کامريڈ محمد الیاس
کسی بھی انسان کی ناگہانی موت کا کوئی نہ کوئی ضرور ذمہ دار ہوتا ہے اور کسی انسان کے قتل کا ذمہ دار قاتل ہوتا ہے۔ ایسی موت کے ذمہ دار کا تعین کرنا ریاست کا کام ہوتا ہے اور جو قتل چھپ کر کیا جاۓ اس کے قاتل تک پہنچنا اسے گرفتار کرنا اور سزا دینا بھی ریاست کا فرض ہوتا ہے۔
چونکہ ریاست شہریوں سے ٹیکس اس لیے لیتی ہے کہ ان کے جان و مال کی حفاظت کرے گی، اگر کسی نا گہانی موت کے ذمہ دار کا تعین نہیں ہوتا یا قتل کا سراغ نہیں ملتا تو پھر ایسی موت کی ذمہ دار اور ایسے قتل کی قاتل ریاست ہوتی ہے۔
نوید کے قتل کیس کو لیکر کیسے اور کس طرح کی پیش رفت ہوتی ہے لوگوں کی تمام تر توجہ ریاست کے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر مرکوز ہے۔
میت کی تدفین کے بعد نوید مرحوم کے والدِ محترم مجید صاحب نے پورے یقین کے ساتھ کہا ہے کہ میرا بیٹا نوید خود کشی نہیں کر سکتا۔
خاندانی زندگی میں نوید کی اپنی بیوی کے ساتھ بہت اچھی انڈر سٹینڈنگ تھی ان کے درمیان کبھی کسی بات پر ناچاکی یا اختلاف نہیں ہوا، میرے اور نوید کے درمیان کوئی ٹینشن ، کوئی اختلاف نہیں تھا اور نہ ہی اپنی ماں کے ساتھ ایسی کوئی ٹینشن یا اختلاف تھا ہم چار لوگوں کے علاوہ نوید کے دو چھوٹے معصوم بچے ہیں۔ میں واپڈہ سے ریٹائرڈ ہوں اور نوید واپڈہ کا حاضر سروس ملازم تھا۔ ہمارا مختصر سا خاندان ہے جس میں ہم بالکل پر سکون اور خوشحال زندگی گزار رہے تھے۔ علاوہ ازیں نوید نے کسی کا نہ کوئی قرض دینا تھا اور نہ کوئی مالی لین دین تھا جس کی اسے ٹینشن ہوتی، نوید کی کوئ معاشی و مالی مشکلات نہیں تھیں۔
میرۓ بیٹے کی زندگی میں کوئی ایسی بات تھی ہی نہیں جس کی بنیاد پر وہ خود کشی کرتا۔ نوید نے خود کشی نہیں کی ہے۔
نوید کو قتل کیا گیا ہے یہ قتل کس نے کیا؟؟ اور کیوں کیا؟؟ اس کا مجھے علم نہیں اور نہ ہی کسی پر شک کر سکتا ہوں۔ اس اندھے اور بیمانہ قتل کا سراغ لگانا انتظامیہ اور پولیس کا کام ہے ان کے اس کام میں میں ان کے ساتھ مکمل تعاون کروں گا۔
نوید محروم کے والد محترم کی اس گفتگو کے علاوہ پورا گاوں اور نوید محروم کے ساتھ کھیل کے میدان سے لیکر سماجی نوعیت کے تعلقات رکھنے والا ہر فرد پورے یقین کے ساتھ کہتا ہے کہ نوید نے خود کشی نہیں کی ہے بلکہ اس کا سو فیصد قتل ہوا ہے۔
اب اس قتل کا کوئی تو ذمہ دار ہے اس کا کوئی تو قاتل ہے اور اس قاتل کا تعین کرنا ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔ نوید اس ریاست کا شہری ہی نہیں بلکہ ریاستی ادارے میں ملازم بھی تھا۔ تمام لوگ یہ تواقع رکھتے ہیں کہ ریاست جلد از جلد نوید کے قاتل کو گرفتار کرے گی۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر نوید کی قاتل یہ ریاست ہو گی، چونکہ ایسی دردناک موت کا کوئی تو ذمہ دار ہوتا ہے اور جب ایسی موت کے زمہ دار کا تعین نہ ہو تو پھر ریاست ہی ایسی موت کی زمہ دار ہوتی ہے۔
یہاں اکثر ایسی اموات کے ذمہ دار کا تعین نہیں ہوتا۔ ہم پے در پے نوجوانوں کی لاشیں کندھوں پر اٹھاتے ہیں وقتی طور پر جذبات کا اظہار کرتے ہیں، میت کو دفناتے ہیں دعا خیر کرتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں کچھ عرصہ گزرنے کے بعد پھر جب لاشہ ملتا ہے تو نٸے جذبات کے ساتھ کندھا آگے بڑھا دیتے ہیں۔
ڈیڑھ سال پہلے اسی گریڈ اسٹیشن میں ذبح ہونے والے نوجوان کے قتل کو ہم بھول چکے تھے، گزشتہ سال قتل ہونے والے حمزہ امتیاز کے قتل کو ہم بھول رہے تھے کہ نوید کا قتل ہو گیا ہے اور سچ یہی ہے ہم مانیں یا نہ مانیں آج سے چھ ماہ بعد نوید کا قتل بھی قصہ پارینہ بننا شروع ہو جاۓ گا چونکہ ہمارا اجتماعی مزاج ایسی موت کے ذمہ دار کے تعین کی شدید مانگ کرنا نہیں ہے بلکہ ہمارا اجتماعی مزاج تدفین کرنا، سب اللہ کی مرضی، جنت میں اعلی مقام اور دعاۓ مغفرت کر کہ بھول جانے کا ہے اور ہمارا اجتماعی مزاج اگلے لاشے کے انتظار کا ہے، اس اجتماعی مزاج کو لیے ہم کب تک یہ جوان لاشے اٹھاتے اور دفناتے رہیں گے؟؟؟؟؟
کب تک ایسے درد ناک اور بیمانہ قتل کو خود کشی سمجھتے اور مانتے رہیں گے؟؟؟؟؟؟؟؟
کب تک نوجوانوں کی لاشیں موت کے زمہ دار کے تعین کے بغیر دفناتے رہیں گے؟؟؟؟؟ آخر کب تلک؟؟
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More