Main Menu

کشمیر قلم اور تلوار ؛ تحرير: راجہ خضر رفيق

Spread the love

مظلوم کی گردن میں کب تک خم رہیں گے،بازُوِ قاتل کتنی خون ریزی اور کرسکے گا؟ یہ وہ سوال ہےجو ہر زندہ ضمیر کوآرام سے سونے نہیں دیتا اور ہمیشہ بےچینی کاباعث رہتاہے۔ میراایمان ہے کشمیریوں کے خون میں ہندوستان ڈوب کررہے گا۔ میرے پاس اگرطاقت ہوتی تو میں تلوار اٹھالیتاقلم ہرگزنہیں۔ دنیا میں ہونے والی ناانصافی اور ظلم کی فصل قلم سے نہیں تلوار اور طاقت سے کاٹی جاسکتی ہے،قلم سے نوحے لکھے جاسکتے ہیں غزلیں اور گیت لکھے جاسکتے ہیں،کسی مظلوم کوانصاف مگرنہیں دلایاجاسکتا۔
ایک وقت ایسا بھی تھا جب قلم کوتوپ سے زیادہ طاقتور سمجھاجاتاتھامگر وہ آغاشورش کاشمیری،مولانامحمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خان، حسرت موہانی، فیض احمد فیض اورچراغ حسن حسرت کاقلم تھا اب توقلم مصلحت کاشکارہوچکا۔ دنیامیں جن کے پاس طاقت ہے وہ الفاظ کی مالا نہیں پروتے وہ اپنی بانہوں کے کس بل دکھاتے ہیں اور تہلکہ مچاتے ہیں۔کشمیر اور شام میں ہونے والا قتلِ عام دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ دنیا پر لفنگوں اور اوباشوں کی بادشاہت قائم ہوچکی،انسانی جسم کاکچلا ہوا گوشت بھی عالمی ضمیر کومتوجہ نہ کرسکے توکونساحربہ کارگرثابت ہوگا؟
ہرخطے کااوباش ہتھیلی پے سرسوں جمارہاہے،ظالم ہرجگہ کمزور سے گریباں گیر ہے اور مظلوم چاک گریباں کی دھجیاں سمیٹ رہاہے،دُنیا کابازار صرف ایک ہی زبان سمجھتا ہےوہ ہے سکوں کی کھنک اور منافع کی دوڑ،جذبات احساسات آہیں سسکیاں قصہِ پارینہ بن چکیں،ہم پرہی موقوف نہیں،سارے سنسار کی حیا مرچُکی،اِنسانیت کی آنکھوں سے پانی تک ختم ہوچکا،حرام ہے مہذب دنیاترس کاایک ٹسوا ہی بہالے، ملک، قوم،اقوامِ متحدہ زمین جنبد نہ جنبد،گُل محمدکےمصداق،مظلوم کے حق میں بولنے سے قاصر گویاکہ زبان پے چھالے پڑگئے۔دنیا کی آنکھوں پرمفادات کی پٹی چڑھ چکی،انسانی حقوق بھی دنیاکووہیں نظرآتے ہیں جہاں مفادات ہیں ورنہ پتھرہضم لکڑ ہضم۔
ہمارے ہاں ایک نمائشی بیان کامیزایل چھوڑا جاتاہے جوواپس آکر ہمارے ہی منہ پے لگتاہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہمیں پکے راگ سیکھنے ہوں گے اور مفروضوں کی یخنی ترک کرناہوگی،میں بچپن سے ایسے بیانات سنتاآرہاہوں تحریکِ آزادیِ کشمیر نازک مرحلے میں داخل ہو گئ ہے۔ہم نے تمام اقدامات تحریکِ آزادی کے وسیع ترمفاد میں اٹھانے ہیں،تحریکِ آزادی کواجاگر کرناہماری بنیادی ذمہ داری ہے۔کشمیری تو تھیا تھیاکررہے ہیں اور بڑی سخاوت سے گرما گرم خون کانزرانہ پیش کر رہے ہیں مگر سیاست کا مداری ان قربانیوں سے اپنی شہرت کشید کررہا ہے۔
کشمیرکازکوذاتی پروموشن کیلیے کیسے استعمال کیاجاے فقط اتنا تعلق خاطر ہے ہمارا اس کازکے ساتھ اللہ اللہ خیر سلہ،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریکِ آزادی کشمیرآزادکشمر اور پاکستان میں جلوس نکال کے اجاگرہوگی یادنیابھر میں سفارتی جدوجہد اور لابنگ سے اجاگرہوگی؟ یاد رہے سفارت کاری اب اقتصادیات سے مشروط ہے،معاشی طور پے آپ جتنے فربہ ہوں گے آپ کا بیانیہ کواتنی ہی اہمیت اور توجہ ملے گی بصورتِ دیگر خالی خولی اصولی موقف سننے کے لیے کسی کہ پاس وقت نہ ہے۔ دنیا میں،دنیا ہوسِ ملک گیری اور دولت کے مراکز پرقبضے کےلیے تمام اخلاقی اور انسانی جزبات کااحترام تج چکی ہے،دولت کی ہوس میں پاگل ہوے جانور کی مانند دنیا سے یہ توقع رکھناکہ وہ مظلوم کے جزبات کااحترام کرے گی دیوانگی کہ سوا کچھ بھی نہیں۔

ہندوستان کی ثقافتی یلغار،ڈیجیٹل اور نشریاتی اداروں پرگرفت ڈھیلی کرنے کےلیے اُتنی ہی پیش رفت کرکے توازن قائم کرناہوگا تب جاکر ہم تحریکِ آزادیِ کشمیر کواجاگر کرپائيں گے،آزادکشمر کے روزنامے تحریک کو اندرون ملک تواجاگرکررہے ہیں،مزا تواس میں ہے کہ ہم سی این این اور بی بی سی جیسے عالمی نشریاتی اداروں کاوقت خرید کر ہندوستان کر مکروہ چہرے کوبےنقاب کرتے ۔ مگریہ کام تووہ لوگ کرتے ہیں جنہیں قومی اہداف اور مقاصد جاں سے عزیز ہوں،محض نعرے بازی کا غوغہ کشمیریوں کو مروا تو سکتا ہے آزاد مگرنہیں کرواسکتا۔ آے روز نوجوانوں کے لاشے دیکھ کر میرے اندر آزادی کا جزبہ گرتی ہوئی دیوار کی طرح بیٹھ جاتاہے کہ جب کشمیری ہی نہیں رہیں گے توآزادی چہ معنی دارد؟آخرکتناکـس بل ہوسکتاہے انسان کی بانہوں میں،بہرکیف آزادی کے لیے پاپڑ بیلنے پڑرہے ہیں کشمیر کو،انشاءاللہ کشمیرکی ناو پارلگے گی،انسان کاگرم گرم خون نمرود کی خدای کو متوجہ نہ کرسکا توکیاغم،حقیقی خدا کی ذات تو سب تماشہ دیکھ رہی ہے،کشمیری جگرکے چاک سِل جاہیں گے یہ ہماراایمان ہے،البتہ ہمیں اپنی تدبیر کوموثر کرناہوگا،ارتقا کاپہیہ گھوم کر تقاضات کوجہاں تک پہنچاچکا ہے ہمیں وہاں تک پہنچناہوگا مبادا کے ہمارے خون اور گوشت کاتماشہ دنیا کے لئے تفریح کاسامان بن جائے۔

دنیامیں بچھی ہوی سیاست کی بساط کو اگر بغور دیکھاجاے تو،سطح کے نیچے جو لاوا بہہ رہا ہے وہ خاصے زلزلے اور آگ کا طوفان اپنے اندر سمیٹے ہوے ہے۔ بڑی طاقتوں میں سے کسی ایک کی انااور ضد اگرریڈ لائن ٹچ کرگئ توجنگِ عظیم دنیاکومکمل طور پرآگ اور خون کی ہولی میں دھکیل سکتی ہے۔ بات آگے چلی جائے توایٹمی اور بائلوجیکل ہتھیار نسلِ انسانی کی اینٹ سے اینٹ بجا سکتے ہیں،اس قدر پیچیدہ بساط پراپنے مفاد اور بیانیے کوفروغ دینا جوے شیرلانے کے مترادف ہے،نعرہ بازی اور جزباتی استحصال انیسویں اور بیسویں صدی کہ ہتھکنڈے تھے،اکیسویں صدی اُس دئیے کی ہے جس میں جان ہے،اس لیے ہمیں ازسرِنواپنی حکمتِ عملی پرنظرثانی کرناہوگی اور سطع سے نیچے جولاوا بہہ رہا ہے اپنے بیانیے کواُس سے ہم آہنگ کرکے کشمیر یوں کہ حقِ خُود ارادیت کی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرناہوگا ۔جمعے کی دعاوں اور اپنی گلیوں میں جلوس کےذریعے بھی کشمیر کوآزاد کرانے کی پالیسی جاری رکھنے میں کوی حرج نہیں۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *