Main Menu

بائيس اکتوبر 1947 قبائلیوں کی آمد کا پس منظر اور تاریخی حقائق ؛ تحریر : راجہ زکی جبار ایڈووکیٹ

Spread the love

ہمارے ہاں یہ روایت پختہ ہو چکی ہے کہ ایک بار کوئی افسانہ گھڑ لیا جائے تو اسی کو مستند مان کر برسوں تک مبالغہ آرائی کیساتھ پیش کیا جاتا ہے،مستند مطالعے اور تحقیق کا رحجان نہ ہونے کے برابر ہے،نئی نسل میں تو یہ عنصر تقریبا ناپید ہے اوپر سے سوشل میڈیا پہ چھوڑے جانے شگوفے مزید معیار خراب کر دیتے ہیں ۔بعض تاریخی جھوٹ اس تسلسل سے بولے جاتے ہیں کہ لا علمی میں بڑا طبقہ انھی کو سچ مان لیتا ہے ۔

بائيس اکتوبر 1947 کو جموں و کشمیر اور ریاست کے دیگر علاقوں میں ڈوگرہ فوج، آر ایس ایس اور اکالی دل کے ظلم و ستم کے رد عمل میں قبائلی مظفرآباد کے مقامی عمائدین کی درخواست پر مدد کو آئے، جس کو پاکستان مخالف طبقہ توڑ مروڑ کر تقریبا وہی موقف پیش کرتا ہے جو اس واقعے پر ہندوستان کا سرکاری موقف رہا ہے۔۔۔اس واقعے پہ پاکستان مخالف طبقہ ان واقعات کے پورے تسلسل کو نظر انداز کرکے لڑائی میں مارے جانے والے ” جوابی مکے ” کو ايکسپلائٹ کرتا ہے ۔

اس تحریر میں اپنی رائے شامل کیئے بغیر نوجوان نسل کی معلومات کے لئے مارچ اپریل 1947 سے لیکر 22 اکتوبر تک کے واقعات کا تاریخ وار تسلسل پیش کرنے کی کوشش ہے۔یہ واقعات اس بات کا مستند ثبوت ہیں کہ کشمیر ہندوستان کی جھولی میں ڈالنے کے لیے انگریز نے پوری پشت پناہی کی،جبکہ کانگرس کی قیادت نے شیخ عبداللہ کی معاونت سے کشمیر پہ قبضے کا مربوط منصوبہ بنا رکھا تھا۔اپریل 1947 سے ہی مہاراجہ کی فوج کو آر ایس ایس اور اکالی دل کی معاونت حاصل تھی، اور ہند یونین کی افواج( جن میں فرید کوٹ،پٹیالہ, کپور تھلہ اور دیگر ریاستوں کے دستے شامل تھے،جو ہند یونین کا حصہ تھے) 22 اکتوبر سے پہلے سے ہی سرینگر پہنچ چکی تھیں ۔اس ساری فوجی سرگرمی کو دہلی سے مانیٹر کیا جا رہا تھا ۔( کشمیر کو ہندوستان کی جھولی میں پھینکنے کے لیئے انگریز نے کانگرس کی پوری معاونت کی،اس موضوع پہ الگ تحریر لکھوں گا )۔

اس تحریر میں سردار محمد ابراھیم خان اور سردار عبدالقیوم خان کی کسی کتاب کا حوالہ نہیں دیا تا کہ ” کمیونسٹ نواز بریگیڈ ” کو جانبداری کا بہانہ نہ مل سکے ۔اگر کوئی اس تحریر کا جواب دینا چاہے تو مستند اور غیر جانبدار حوالے سے بات کرے تو اس کو خوش آمدید کہوں گا ۔

الیسٹیئر لیمب نے اپنی کتب میں تقسیم برصغیر کی تقسیم سے قبل اور تقسیم کے دوران حکومت ہند سے متعلق خفیہ ریکارڈ سے استفادہ کیا ہے، یہ ریکارڈ ٹرانسفر آف پاور کے نام سے برٹش انڈیا لائبریری لندن میں موجود ہیں جو 1983 تک شائع ہو گیا تھا ۔

اپریل سے 20 اکتوبر 1947 تک ڈوگرہ حکومت کے اقدامات

فوج سے سینئر مسلم افسروں کی چھانٹی
نئے فوجی یونٹ اور جدید اسلحہ سے لیس
ریاست کشمیر اور متصلہ ہندو ریاستوں کی نیم فوجی تنظیموں کے کثیر تعداد جتھے درآمد کر کے ان میں سرکاری اسلحہ تقسیم کیا گیا،
مسلمانوں سے اسلحہ ضبط،ہندو اور سکھوں کو مذہبی لوازمات کے نام پہ مسلط کیا گیا ۔
پاکستان سے ملنے والی سرحدوں پہ نئی فوجی چوکیاں اور فوجی یونٹ قائم،
پونچھ اور میر پور میں مارشل لاء کا نفاظ ۔

1946:ہندو راجھیہ سبھا کا اجلاس اچانک مظفرآباد منعقد کیا گیا، مہاویر دل اور مہاسبھا کو سرکاری سر پرستی میں اسلحہ ایکٹ کی آڑ میں مسلح کیا گیا، لیکن مسلمانوں کو جلسہ کرنے کی اجازت نہ تھی ۔

مارچ 1947: ہندوؤں اور سکھوں نے ہندوستان، بلخصوص پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کے قتل عام کی مہم شروع کر دی ۔آر ایس ایس،ہندو مہاسبھا،اور اکالی دل کو کھلی چھوٹ، جب کہ مسلم لیگ نیشنل گارڈز پر پابندی عائد کر دی گئی ۔

اپریل 1947: مہاراجہ کی بھمبر،کوٹلی،راولاکوٹ آمد،کرنل محمد خان کی سربراہی میں سابق مسلمان فوجیوں کی سلامی،مہاراجہ اتنی بڑی تعداد میں مسلمان فوجیوں سے مرعوب ہو گیا،اس کے بعد پونچھ میں نئی ڈوگرہ یونٹوں کی تعیناتی اور مسلم عوام کیساتھ ظلم و زیادتی ،مسلمانوں سے ہر قسم کا اسلحہ واپس لیکر ہندو اور ڈوگرہ نیم فوجی تنظیموں اور انتہا پسند گروپوں کا مسلح کیاگیا ۔۔۔

29 اپریل: 1947: لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے برطانوی سیکٹری آف سٹیٹ فار انڈیا لارڈ لسٹول سے اور بعد میں نہرو سے گلگت کے مسئلے پر مشاورت کی، لیکن اس دوران قائد اعظم سے کوئی مشاورت نہیں کی۔۔۔

17 مئی 1947: کانگرس کے صدر اچاریہ جے بی کرپلانی کی سری نگر آمد،مہاراجہ اور نیشنل کانفرنس کی قیادت سے ملاقاتیں، بیع نامہ امرتسر کو دستور وقت کا تقاضا قرار دیا ۔اس کے فورا بعد فرید کوٹ پٹیالہ اور کپور تھلہ کے مہاراجوں نے بھی کشمیر کا دورہ کیا ۔( وسط اکتوبر تک انھی ریاستوں کے فوجی دستے سرینگر ایئرپورٹ کو سنبھال چکے تھے ۔)

مئی 1947 : سرحد میں ریفرنڈم کے موقع پر مسلم کانفرنس مظفر آباد کے رہنماء غلام رسول پنڈت، سید قلندر شاہ، خواجہ عثمان پنڈت، خواجہ عبدالرحمان، چوہدری شمس الدین، اور شیخ عبدالرحمان سمیت دیگر نے الحاق پاکستان کی مہم میں حصہ لیا ۔

جون 1947: پونچھ سے بیرسٹر سردار ابراہیم کی ضلع بدری۔دریائے جہلم کیساتھ پنجاب سے منسلک راستے بند کر دیئے گئے اور ان راستوں پر مزید فوجی چوکیاں قائم کر دی گیئں، تا کہ آر پار رابطے مکمل منقطع ہو سکیں ۔

 نو جون 1947: لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے حیدر آباد اور کشمیر میں تعینات برطانوی ریذیڈنٹ ان کشمیر کو کہا کے وہ ریاست کے سربراہان پہ زور دیں کہ وہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی مشاورت سے پہلے کوئی فیصلہ نہ کریں۔۔۔۔

 چودہ جون 1947: لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو کرشنا مینن کا خط ملا،جس ميں کہا گیا کہ ” اگر ریاست جموں و کشمیر کا الحاق پاکستان سے ہوا تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے ۔” خط میں مزید یہ بھی کہا کہ ماؤنٹ بیٹن اس خط کو ضائع کر دے،لیکن بعد میں یہ خط لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے محفوظ کاغذات سے برآمد ہوا(ايليسٹر ليمب ).

سترہ جون 1947: لارڈ ماؤنٹ بیٹن سرینگر آیا چھ دن بعد دہلی واپس گیا ۔۔۔17 جون کو کشمیر روانگی سے قبل نہرو کا خط لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو موصول ہوا،جسمیں نہرو کا کہنا تھا کہ شیخ عبداللہ کی وجہ سے کشمیر کے لوگ ہندوستان کے حق میں فیصلہ کریں گے، مسلم کانفرنس کا اثر کمزور ہے ۔۔۔

اکيس جون 1947: لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا سرینگر کا دورہ،مہاراجہ کو مسلم عوام کی اکثریت کی خواہش کے برعکس آزادانہ فیصلے کی صورت میں مکمل فوجی تحفظ کی یقین دہانی کرائی ۔

” جب جون 1947 میں ماؤنٹ بیٹن کشمیر آیا تو اس نے مہاراجہ کو صلاح دی کہ اس کی آبادی کی ترکیب یوں تو پاکستان کیستاھ الحاق کا تقاضا کرتی ہے، مہاراجہ نے ہچکچاہٹ دکھائی تو اس پر ماؤنٹ بیٹن نے کہا پھر ہندوستان کے ساتھ الحاق کر دو تو پیادا فوج کا ایک ڈویثرن فورا یہاں بھجوا دوں گا تا کہ کسی کو شرارت نہ سوجھے ۔” ( آتش چنار، صفحہ 275.)…

اکتيس جولائ 1947
کانگرس کے طاقتور ترین اور انتہا پسند رہنما سردار ولبھ بھائی پٹیل نے مہاراجہ ہری سنگھ کو خط لکھا کہ وہ بلا تاخیر ہندوستان سے الحاق کرے ۔

جولائی 1947 تک مظفر آباد کے سرکردہ مسلم کانفرنسی کارکنوں کو ضلع بدر کیا گیا، اور بعض کے موت کے وارنٹ جاری ہو چکے تھے، شہر کی تجارت پہ ہندو مہاجنوں کا قبضہ تھا،۔۔اس وقت بہانے سے قصبہ مظفرآباد میں سکھوں کا ایک اجتماع کروایا جا رہا تھا، عید کے موقع پر مظفرآباد میں قتل عام کر کے مظفرآباد کو مسلمانوں سے خالی کروانے کا منصوبہ تھا،اس غرض سے دیہات بھی بانٹ لیئے گئے تھے۔
خطرے کے پیش نظر مسلمانوں کا وفد خواجہ غلام دین وانی، حاجی لسہ جو میر،غلام رسول پنڈت اور دیگر لوگوں کی سربراہی میں قبائلی عمائدین کے پاس گیا ۔۔۔عید کے مجوزہ منصوبے کے پیش نظر نیلم پل کو ڈائنا مایئٹ سے اڑانے کا منصوبہ تھا،اس مقصد کے لئے تار کا سوئچ دو میل فوجی ہیڈ کوارٹر میں نصب تھا تا کہ قتل عام کے موقع پر مسلمانوں کو دریا پار سے امداد منقطع ہو سکے ۔مولوی عبدالرحمان خطیب جامع مسجد سلطانی نے کسی کے ذریعیے خفیہ طور پر یہ تار کٹوا دی، جس کی وجہ سے پل بچ گیا ۔مزاحمت کے بعد مجاہدین کی سرینگر کی طرف پیس قدمی،بونیار کے مقام پر میجر جنرل راجندر سنگھ مارے گئے ۔

جب فائرنگ شروع ہوئی تو دونی چند مہتہ یہ سمجھا کے ان کے منصوبے کے مطابق بلوچی سے ہندوؤں نے مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا ہے ۔ اس سے متعلقہ تفصیل کرشنا مہتہ کی کتاب سيروائوز سٹوری میں دیکھی جا سکتی ہے ،جسمیں وہ کہتی ہے کہ جب فائرنگ کی آواز آئی تو اس کے شوہر دونی چند مہتہ جو وزیر وزارت یعنی ڈی سی تھا نے کہا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں یہ ہمارے اپنے ہی لوگ ہیں،اسی کتاب میں کرشنا مہتا نے قبائلی کمانڈر اور مسلمانوں کے حسن سلوک کا بھی تفصیلی تذکرہ کیا ہے کہ کس مہربانی سے اس کوحفاظت میں رکھا،مستقل رہائش کی پیشکش کی،اور بعد میں کرشنا مہتا کی خواہش پہ بھیجا گیا۔جب قبائلی کمانڈر واپس جانے لگا تو کرشنا نے اسے راکھی باندھی،اس قبائلی کمانڈر کے حسن سلوک کی وجہ سے کرشنا مہتا نے اس کو منہ بولا بھائی بنایا ،سردار محمد ابراھیم خان کرشنا مہتا کی خیریت دریافت کرنے خود اس کے پاس گئے ۔اس سے پہلے کرشنا مہتا کچھ دن حفاظتی کیمپ میں اور بعد میں سلطانی مسجد کے امام مولوی عبدالرحمان کے گھر بطور مہمان رہی ۔

تين جولائی 1947: پٹیل کی طرف سے مہاراجہ کشمیر کو خط، مہاراجہ کو یقین دلایا کہ اس کے اختیار کو کسی صورت کم نہیں کیا جائے گا اور ریاست کا الحاق ہندوستان سے ہونا چاہیے ( درگا داس صفحہ 23.22۔)۔( کشمير ان کنفليکٹ بائ وکٹوريا شوفيلڈ صحفہ 31

تيس جولائی 1947: تقسیم ہند سے 14 دن قبل گاندھی نے برلا ہاؤس میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن، نہرو،اور سردار پٹیل سے خفیہ مشاورت کی۔

یکم اگست 1947: کو گاندھی سری نگر آئے،مہاراجہ ہری سنگھ سے ملاقاتیں اور شیخ عبداللہ کی رہائی اور رام چند کاک کی برطرفی کا مطالبہ کیا جو الحاق ہندوستان کا مخالف تھا ۔بحوالہ ان کمپلیٹ پارٹيشن صحفہ 108, 9۔

گاندھی بار بار نہرو کے ذریعیے شیخ عبداللہ کی رہائی پر اصرار کرتے رہے۔

یکم اگست 1947: گاندھی سرینگر آئے،5 اگست کو جموں گئے۔مہاراجہ، وزیر اعظم کاک اور بیگم شیخ عبداللہ سے ملاقاتیں کیں ۔
انھی دنوں میں کانگرس کے صدر اچاریہ کرپلانی، پٹیالہ، کپور تھلہ،اور فرید کوٹ کے مہاراجے جو پہلے سے ہندوستان میں شمولیت کا فیصلہ کر چکے تھے وہ بھی مہاراجہ ہری سنگھ کو ملے۔

گيارک اگست 1947 : گاندھی کے مطالبے پر مہاراجہ نے اپنے ماموں ٹھاکر جنک سنگھ کو وزیراعظم بنا دیا ۔

گيارہ اگست 1947 : جمعۃ الوداع کے موقع پر مختلف جلوس راولاکوٹ شہر میں اکٹھے ہوئے،رضا کاروں کی پریڈ اور مہاراجہ سے فوری طور پر پاکستان سے الحاق کا مطالبہ ۔

بآرہ تا 16 اگست 1947: معائدہ قائمہ کے بعد سری نگر جنرل پوسٹ آفس پہ پاکستان کا پرچم لہرایا گیا، لیکن وزیر اعظم جنک سنگھ نے پرچم اتروا دیا، اس دوران ماڈرن گیسٹ ہاؤس امیراکدل چوک سری نگر کے مالک رحمت اللہ چغتائی نے مزاحمت کی۔

اگست 1947: ” اگست 1947 کے وسط تک مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد جو ریاستی فوج اور پولیس میں تھی برطرف کر دی گئی، ریاستی مسلمان جو پنجاب سے ملحقہ اضلاع میں تھے انھوں نے مزاحمتی تحریک شروع کر دی روزانہ کی بنیاد پر پونچھ میں مسلمانوں کے قتل، گرفتاریوں اور تشدد کی اطلاعات موصول ہوتی تھیں ۔” بحوالہ

( دی ٹائمز لندن 8 ستمبر 1947)

یکم ستمبر 1947: ہندوستانی ڈائریکٹر جنرل پوسٹل سٹاف نے کشمیر کے کچھ علاقوں کو اپنی لسٹ میں ہندوستانی علاقے کے طور پر درج کیا (وکٹوريہ شوفيلڈ ).

پانچ  ستمبر 1947: کسان مزدور کانفرنس نے بھی ایک قرار داد کے ذریعے مہاراجہ پہ زور دیا کہ ریاست جموں و کشمیر کے حالات کے پیش نظر پاکستان سے الحاق کرے،16 ستمبر 1947 کو کسان مزدور کانفرنس کی مجلس عاملہ نے اس قرار داد کی توثیق کر دی،اس کے دو دن بعد ایک سوشلسٹ پارٹی نام کی جماعت نے بھی کشمیر کے پاکستان سے الحاق کا مطالبہ کیا ۔۔۔

چھ ستمبر 1947 : سید خادم حسین شہید باغ کی گرفتاری اور باغ قلعے میں شہادت۔۔۔۔اس سے قبل راولاکوٹ سے سردار مختار خان،سردار عنایت، سردار سلیمان ہورنہ میرہ، سردار علی محمد،سردار خان، سردار محمد ایوب، سردار سید محمد علی سوجل اور لیفٹیننٹ اشرف مارشل لاء میں گرفتار ہو گئے ۔

تيرا ستمبر 1947: مہاراجہ نے حکومت ہندوستان سے درخواست کی کہ جنرل سکارٹ کی جگہ کمانڈر انچیف کے لیے کوئی آرمی آفیسر بھیجا جائے ۔( جبکہ اس وقت تک مہاراجہ اور ہندوستان کے درمیان کوئی معائدہ نہیں تھا۔اس کے برعکس 12 اگست کو مہاراجہ پاکستان سے معائدہ قائمہ کر چکا تھا۔)

انيا ستمبر 1947: مہاراجہ حکومت نے لیفٹیننٹ کرنل کشمیر سنگھ جو بھارتی فوج میں ملازم تھا کو بطور فوجی مشیر مانگا،جو وزیر دفاع بلدیو سنگھ نے منظور کر لیا ۔کشمیر سنگھ نے آنے والے دنوں میں بھارت کی حمایت میں اہم کردار ادا کیا ۔

وسط ستمبر 1947: مہاراجہ نے اس شرط پر ہندوستان سے الحاق کا فیصلہ کر لیا تھا کہ اسے شیخ عبداللہ کو اختیار منتقل کرنے کو نہیں کہا جائے گا ۔بحوالہ: وار اينڈ ڈپلومسی ان کشمير بائ داس گُپتا ، صفحہ 36.

بآئيں ستمبر1947: جنرل سکارٹ نے سرینگر ایئر فیلڈ کو بذریعہ وائرلیس سسٹم ہنگامی بنیادوں پر انڈین آرمی سے منسلک کیا،ڈپٹی وزیراعظم کے ایل بترا وائرلیس پہ مستقل طور پر ولبھ بھائی پٹیل اور انڈین وزیر دفاع بلدے سنگھ سے رابطے میں آ گئے۔۔۔یہ ساری تفصیل ولبھ بھائی پٹیل کے خطوط میں ہے،جو 1971 میں پہلی بار شائع ہوئے۔۔۔ان خطوط کے مطابق ولبھ بھائی پٹیل اور بلدے سنگھ 13 ستمبر سے کشمیر میں فوجیں اتارنے کی منصوبہ بندی بنا رہے تھے اور ان کے حساب سے اکتوبر کا وسط مناسب وقت تھا۔۔۔( کشمير اے ڈسپيوٹڈ ليگيسی)

ستائيس ستمبر 1947: نہرو کا سردار پٹیل کو خط جسمیں لکھا گیا ” موسم سرما قریب آنے والا ہے، بانہال جو جموں اور سرینگر کے درمیان لائف لائن ہے برف باری سے بند ہو جائے گی اور اگر مہاراجہ ہری سنگھ نے فوری طور پر ریاست کا ہندوستان کے ساتھ الحاق کا اعلان نہ کیا تو پاکستان پوری وادی بلتستان اور لداخ لے جائے گا
بھارت کو شیخ عبداللہ اور نیشنل کانفرنس کے تعاون سے فوری طور پر ریاست جموں و کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کے اقدامات کرنے چاہیئں ۔”( کشمير اے ڈسپيوٹڈ ليگيسی. )

اٹھائيس ستمبر 1947: مہاراجہ ہری سنگھ کی درخواست پر سردار پٹیل نے ایک ہوائی جہاز دہلی سے سرینگر چلانے کا اعلان کیا، .

ستمبر 1947 : میں مہاراجہ کی افواج نے پاکستان سے ملحقہ پونچھ اور جنوبی جموں میں مسلمانوں کی نسل کشی شروع کی، پانچ لاکھ مسلمانوں نے ہجرت کی ۔

اُنتيس ستمبر 1947: شیخ عبداللہ کو رہا کر دیا گیا، جبکہ چوہدری غلام عباس بدستور جیل میں رہے۔۔۔۔

یکم اکتوبر تک سری نگر ایئر پورٹ کو تمام وائرلیس اور فوجی سازو سامان سے لیس کر دیا گیا ۔جبکہ ابھی تک مہاراجہ اور بھارت کے مابین کوئی معائدہ بھی نہیں تھا ۔( بحوالہ کشمير اے ڈسپيوٹڈ ليگيسی)

اکتوبر 1947 پہلا ہفتہ: انڈین آرمی انجینئرز نے ہنگامی بنیادوں پر مادو پور، جموں سڑک اور پانتون پل، دریائے راوی پر کٹھوعہ سے رابطے کے لیے فوری طور پر تعمیر کیئے ۔اسی دوران آل انڈیا سٹیٹ پیپلز کانفرنس کا سیکٹری نہرو کا قریبی ساتھی دوار کنٹھ کچرو سرینگر میں شیخ عبداللہ سے ملا اور واپسی پہ نہرو کو بتایا کہ شیخ عبداللہ ہند یونین کا حصہ بننے کے لیے تیار ہے ۔اسی دوران مہر چند مہاجن کو وزیر اعظم بنایا گیا، جو باؤنڈری کمیشن کا ممبر تھا، اور کشمیر کے ہندوستان سے الحاق کا شدید حامی تھا ۔
( : صفحہ 70,73.برتھ آف ٹريجيڈی ان کشمير)

اکتوبر 1947 دوسرا ہفتہ: بھارتی حکومت نے پٹیالہ فوج کے کچھ یونٹس جموں و کشمیر میں بھیج دیئے ۔ان میں سے ایک بٹالین جموں میں،کچھ فوج سرینگر ایئر پورٹ کے ارد گرد، کچھ جہلم ویلی روڈ پر اوڑی بھیج دی گئی ۔

7 اکتوبر 1947:سردار پٹیل نے وزیر دفاع بلدیو سنگھ کو خط لکھا
” مجھے امید ہے کہ کشمیر میں اسلحہ بھیجنے کے انتظامات مکمل کیئے جا چکے ہوں گے، اگر ضروری ہو تو ہم بذریعہ ہوائی جہاز بھی انتظام کر سکتے ہیں ۔میرے خیال میں ہنگامی حالات میں عسکری تعاون ہماری دفاعی کونسل کی فوری توجہ چاہتا ہے ۔ہمارے پاس ضائع کرنے کا وقت نہیں ہے ۔” بحوالہ وار اينڈ ڈپلوميسی ان کشمير ڈسپيوٹ صفحہ 42

اکتوبر 1947 تیسرا ہفتہ: کے آغاز میں وزیر دفاع بلدیو سنگھ اور وزیر دفاع سرادر پٹیل کی منظوری سے بھارتی فوج کے پلوں کو تباہ کرنے والے ماہر جہلم ویلی روڈ اور کشن گنگا روڈ بھیجے گئے، جن کی سربراہی شیون لال کو دی گئی جو تقسیم ہند سے قبل ڈیرہ اسماعیل خان کا ڈپٹی کمشنر بنایا گیا تھا ۔

سی بی ڈیوک لاہور میں برطانیہ کا ڈپٹی کمشنر اکتوبر کے تیسرے ہفتے میں جائزہ لینے کے لیئے کشمیر گیا، اس کے مطابق دریائے چناب کے قریب 20 گاؤں جلائے گئے ۔مہاراجہ نے مذہبی بنیادوں پر علاقے کی صفائی کا حکم دیا ۔بحوالہ الیسٹیئر لیمب ۔
لیاقت علی خان نے مہارجہ حکومت سے مذاکرات کے لیئے وفد بھیجا، 15 اکتوبر کو جوں ہی مہر چند مہاجن وزیر اعظم بنایا گیا تو صورتحال تبدیل ہو گئی، مہر چند مہاجن ہندو جج اور باؤنڈری کمیشن میں ہندوستان کا نمایئندہ تھا ۔

20 اکتوبر 1947: مہاراجہ کی افواج نے پاکستان کی سرحد عبور کر کے مارٹر،خودکار ہتھیاروں سے حملہ کیا، موقع پر موجود ایک برطانوی افسر کے مطابق 1750 لوگ مارے گئے، یہ تعداد وہ تھی جو ہسپتال لائی گئی ۔بحوالہ دی سيکرٹ ہسٹری آف دی اينڈ آف اين ايمپائر بائ الين وِن تُوزيلمان صحفہ 288-285

اکيس اکتوبر 1947: مہر چند مہاجن نے سردار پٹیل سے مزید اسلحہ بھیجنے کی درخواست کی ۔

کرنل ڈبلیو ایف ویب( برطانوی ریذیڈنٹ ان کشمیر ) کی جولائی 1946 کی یاد داشتوں کے مطابق نہرو نے 1946 سے ریاست جموں و کشمیر کے حوالہ سے حکمت عملی بنا رکھی تھی، جس کے مطابق شیخ عبداللہ کی قیادت میں ریاست جموں و کشمیر میں پاکستان مخالف جذبات کو فروغ دینا تھا ۔بحوالہ ان کمپليٹ پارٹيشن بائ اليسٹر ليمب صحفہ 100-111

پنڈت پریم ناتھ بزاز نے ایک پمفلٹ بعنوان
دی ٹُرتھ اباؤٹ کشمير شائع کیا ۔یہ پمفلٹ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے ریکارڈ میں سال مارچ 1951 ,میٹنگ نمبر 537 ,صفحہ 3-4 پر موجود ہے ۔جسمیں لکھا ہے کہ
” پونچھ میں جہاں ہزاروں تربیت یافتہ سابق فوجی رہتے تھے، نے مہاراجہ اور اس کی انتظامیہ کے خلاف بغاوت کا آغاز کر دیا ۔یہ بغاوت جلد میر پور اور دیگر مضافاتی علاقوں تک پھیل گئی ۔مہاراجہ نے اس بات کا احساس کرنے کے بجائے کانگرسی قائدین اور اپنے نئے مشیران کے کہنے پر ساری فوج اس بغاوت کو کچلنے کے لئے بھیج دی ۔مہاراجہ کی فوج نے پورے کے پورے گاؤں جلا دیئے اور معصوم لوگوں کا قتل عام کیا، سری نگر تک اطلاعات پہنچی تھی لیکن شائع نہیں ہونے دی گیئں ۔یہ سب ستمبر 1947 میں قبائلیوں کے ریاست میں داخل ہونے سے بہت پہلے ہوا ۔”
دی ان ٹولڈ سٹوری آف پيپلز آف آزادکشمير کرسٹوفر سنيڈن اس کتاب کے صفحہ 40 سے 63 تک اس واقعے کا احاطہ کیا گیا ہے ۔۔

صفحہ 40: جموں میں ہونے والے واقعات کی اشاعت روکنے کے لیے مہاراجہ نے سخت پابندیاں اور سنسر شپ عائد کر دی، 7 اکتوبر تک مقامی اور پنجاب سے شائع ہونے والے اخبارات کی اشاعت اور ترسیل مکمل طور پر روک دی ۔کشمیر ٹائمز کے ایڈیٹر کو سختی سے پابند کیا گیا کہ الحاق پاکستان کے حق میں کوئی اشاعت قابل قبول نہیں ہے ۔اکتوبر کے آغاز میں مہاراجہ حکومت نے ایسو سی ایٹڈ پریس آف انڈیا سے خط و کتابت شروع کر دی ۔اسی طرح الحاق پاکستان کے حامی سابق وزیر اعظم رام چندر کاک پہ سرینگر سے باہر جانے پہ پابندی عائد کر دی ۔

صفحہ 41
پونچھ اور پاکستان سے ملحقہ سرحد پراضافی ڈوگرہ فوج بھیجی گئی اور اضافی چوکیاں قائم کی گیئں ۔جموں میں سکھ اور دیگر غیر مسلم. جنگجو گروپ داخل ہوئے ۔مہاراجہ حکومت نے جولائی میں پونچھ کے مسلمانوں سے اسلحہ ضبط کر کے وہی اسلحہ سکھوں اور ہندوؤں میں تقسیم کیا ۔14 اگست کو پابندیوں کے باوجود پونچھ میں جشن منایا گیا ۔
صفحہ 42
پونچھ میں جون میں عدم ادایئگی ٹیکس مہم شروع ہو گئی ۔اگست میں باغ اور پونچھ میں پاکستان کا جھنڈا لہرانے پہ سینکڑوں مسلمانوں کو شہید کیا گیا ۔24 اگست کو پانچ سو سے زائد مسلمانوں کا قتل ہوا،۔اگست کے اختتام تک پونچھ میں مہاراجہ کےخلاف مکمل بغاوت ہو گئی ۔ 2. ستمبر کو ڈوگرہ کو شُوٹ آن سائٹ کے احکامات جاری ہوئے ۔ ستمبر اکتوبر میں مہاراجہ کے مسلم دشمن اقدامات میں اضافہ ہوتا گیا ایک انگریز سائمنڈ عینی شاہد کے مطابق سینکڑوں گھر جلائےگئے ۔
صفحہ نمبر 43 پہ کرسٹوفر سيڈن لکھتا ہے۔

‏”It is unlikely that Pakistanies were creating all of mahraja’s troubles in western jammu, indeed a number of factors suggest that the
ponch uprising was an indigenous affair. ”

صفحہ 44: دریائے جہلم کیساتھ ڈوگرہ آرمی کی اضافی چوکیوں کے باعث باہر سے پونچھ میں داخل ہونا آسان نہیں تھا اس کے لیئے بڑے پیمانے پر جنگی منصوبہبندی درکار تھی ۔اگست ستمبر تک پونچھ میں تقریبا پچاس ہزار سابق فوجی منظم ہو گئے تھے ۔۔۔

صفحہ 45: میجر جنرل سکارٹ کے مطابق 22ستمبر تک باغی منظم ہو گئے تھے اور مہاراجہ حکومت کا کنٹرول تقریبا ختم ہو گیا تھا ۔
صفحہ 46 :2 اکتوبر، کشمیر ایسو سی ایشن کی جانب سے قائد اعظم کو ٹیلی گرام بھیجا گیا کہ پونچھ میں مسلمانوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے ۔

انيا اکتوبر کو سول ملٹری گزٹ کے مطابق پونچھ میں مشکلات پہ قابو پا لیا گیا ہے،لیکن پاکستان ملوث نہیں ہے ۔

صفحہ 48: ستمبر کے اختتام تک تقریبا 60 ہزار ہندو، اور سکھ جموں پہنچے ۔

صفحہ ،49,51: اقوام متحدہ کے ادارے يو اين سی آئ پی کی رپورٹ 1949 کے مطابق ایک ذیلدار نے کمیشن کو بتایا ” مہاراجہ کے دورہ بھمبر کے دوران اس نے خود مہاراجہ کو مسلمانوں کی بیدخلی کے حکامات جاری کرتے ہوئے سنا، بلکہ دو تین مسلمانوں کو مہاراجہ نے خود گولی ماری ۔”

26 ستمبر سول ملٹری گزٹ اور اے پی آئی( ایسو سی ایٹڈ پریس آف انڈیا) رپورٹ کی ہیڈ لائن تھی ” ايگزوڈس اُف مُسلم فرام جموں يعنی
جموں سے مسلمانوں کا اخراج “۔

صفحہ 51,52: کشمیر ٹائمز کے ایڈیٹر جی کے ریڈی جس کو 15 اکتوبرکو سرینگر سے نکالا گیا تھا، دس دن تک دو میل ہیڈ کوارٹر میں زیر حراست رہا ،اس نے انٹر ویو میں بتایا کہ مہاراجہ نے غیر مسلح مسلمانوں پہ شرمناک تشدد کرایا، مسلمانوں کو گولی مارنے کے بعد لاش کے ٹکڑے کیئے جاتے ۔اس نے خود دیکھا کہ فوجی افسران مسلح ہجوم کو مسلمانوں کے قتل کے احکامات دیتے، جموں میں تقریبا 24 گاؤں جلائےگئے، رات کو خود کار ہتھیاروں کے فائرنگ کی آوازیں آتی تھیں ۔
ایک انگریز عینی شاہد کے مطابق اکتوبر کے آغاز میں پولیس نے کٹھوعہ اور گورداسپور کے علاقے میں ہندو اور سکھ سمگلروں سے اسلحہ قبضے میں لیا اور وہی اسلحہ ڈوگرہ فوج کے افسران نے پولیس سے لیکرانھی افراد کو دے دیا ۔ مسلمان پولیس کے کچھ افراد نے مسلمانوں کو بچانےکی کوشش کی تو انھیں پولیس سے نکال دیا گیا ۔

صفحہ 53: 20 اکتوبر کو کٹھوعہ اور اکھنور پل کے علاقے میں 20 ہزار سے زائد مسلمانوں کو مارا گیا ۔

صفحہ 55: 10 اگست 1948 کو ” ٹائمز” نے خصوصی رپورٹ جاری کی جس کے مطابق مسلمانوں کو ختم کرنے کی مہم کے دوران دو لاکھ سینتیس ہزار مسلمان لا پتہ ہوئے، اس دوران مہاراجہ نے ڈوگرہ فوج اور ہندو، سکھ انتہا پسندوں کی ذاتی طور پر سرپرستی کی، ٹائمز کی یہ رپورٹ 17 اکتوبر تک کے واقعات پہ مشتمل ہے ۔

صفحہ 58 : اگست میں مارشل لاء لگا دیا گیا تھا ۔
چوہدری حمید اللہ نے 17 ستمبر 1947 کو سردار محمد ابراھیم خان کو ایک خط لکھا جس کے مطابق ان کی عدم موجودگی میں سردار ابراہیم خان مکمل جانشین ہونگے ۔

صفحہ 61
ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ 27 اکتوبر 1947 کے مطابق باغیوں نے مہاراجہ سے کنٹرول لے لیا تھا اور 17 اکتوبر کو آزاد حکومت قائم کرنے کا فیصلہ ہو گیا تھا، اعلان 24 اکتوبر کو ہوا ۔
27 اکتوبر کو جب ہندوستانی فوج اتری تو شیخ عبداللہ دہلی میں ہندوستانی لیڈروں سے بات چیت میں مصروف تھے ۔

مصنف صفحہ 63 پہ لکھتا ہے کہ باغی تحریک ہر لحاظ سے مقامی مسلمانوں کی تھی جس کو بیرونی مداخلت کا نتیجہ نہیں کہا جا سکتا ۔یہ جموں میں مسلمانوں کے قتل عام کا رد عمل اور پونچھ کے مسلمانوں کی بغاوت تھی ۔

مندرجہ بالا مواد کسی وضاحت کے بغیر قاریئن کے سامنے رکھا ہے،تا کہ رائے قائم کرنے میں آسانی ہو ۔۔۔تقسیم ہند سے متعلق واقعات کے سلسلے میں آج تک کی سب سے مستند تحقیق برطانوی مصنف الیسٹئیر لیمب کی مانی جاتی ہے جس نے حکومت ہند سے متعلق خفیہ ریکارڈ ٹراسفر آف پاور سے استفادہ کیا ہے، یہ حقائق ان دستاویزات کے منظر عام پر آنے سے قبل اوجھل تھے ۔۔۔اگر کوئی ان حقائق کو جھٹلانا چاہے تو تاریخ کے معروف اصولوں کے مطابق زیادہ مستند حوالوں سے اپنا نقطۂ نظر پیش کر سکتا ہے۔۔۔

مندرجہ بالا مواد سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر میں ڈوگرہ حکومت کی سرپرستی،ہند یونین میں شامل ریاستوں کے فوجی دستوں اور آر ایس ایس کے دستوں کی مدد سے مسلمانوں کا منظم قتل عام جون سے اکتوبر تک مختلف علاقوں میں ہوتا رہا، ہندوستان نے شیخ عبداللہ کے ذریعے مہاراجہ کو دباؤ میں لیکر ستمبر تک کشمیر میں فوج اتارنے کا منصوبہ بنایا تھا اور 17 اکتوبر تک پٹیالہ،فرید کوٹ اور کپور تھلہ کے فوجی دستے سرینگر ایئرپورٹ کو سنبھال چکے تھے ۔یہ سب 22اکتوبر سے پہلے کے واقعات ہیں ۔جب کہ 22 اکتوبر کے بعد اور 6 نومبر کا قتل عام الگ داستان ہے۔۔۔
قارئین خود تجزیہ کر لیں کے 22 اکتوبر 1947 سے قبل مہاراجہ اور شیخ عبداللہ کی معاونت سے ریاست میں مداخلت کس نے کی ۔؟

اور کیا مسلمانوں کے منظم قتل عام کا تماشا دیکھتے ہوئے مظفرآباد کو ڈوگرہ آرمی، ہندوستان کی فوج، آر ایس ایس اور اکالی دل کے رحم و کرم پر چھوڑنا زیادہ بہتر تھا ۔؟

تحریر کا مواد درجذیل کتب سے لیا گیا ہے ۔کشمیر آزادی کی دہلیز پر، غلام احمد پنڈت ۔تاریخ کشمیر، سید محمود آزاد،آتش چنار، شیخ عبداللہ۔
‏kashmiries fight for freedom,yousaf saraf,
‏Kashmir a disputed legacy, incomplete partition, tragedy of birth of kashmir, by Alastair lamb,
‏Kashmir in the cross fire,
‏,Kashmir in conflict, by victoria Schofield ,
‏The untold story of people of azad kashmir by Christopher snedden.
کچھ دیگر کتب اور تاریخی ریکارڈ بھی شامل ہے ۔۔۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *