Main Menu

رياست جموں کشمير: اکتوبر کے ايامِ سياہ ، رياستی غلامی اور ہماری ذمہ داریاں ؛ چيئرمين پی اين اے کا عوام کے نام پيغام

Spread the love

پونچھ ٹائمز ويب ڈيسک

پاکستانی زير انتظام جموں کشمير ميں آزادی پسندوں کے اتحاد پيپلز نيشنل الائنس کے چيئرمين ذوالفقار احمد ايڈووکيٹ نے رياست جموں کشمير کے اکتوبر کے ايامِ سياہ کے موقع پر اپنے ہم وطن رياست جموں کشمير کے شہريوں کے نام پيغام ميں کہا ہے کہ آج 22 اکتوبر، پرسوں 24 اکتوبر، اور پھر 26 اکتوبر ریاست جموں کشمیر کی تاریخ میں سیاہ ترین دنوں کی حثیت رکھتے ہیں۔
برصغیر کی براہ راست تاج برطانیہ کی غلام ریاستوں کی تقسیم سے جموں کشمیر کا تعلق واسطہ نہیں تھا کیونکہ ھماری ریاست براہ راست تاج برطانیہ کے ماتحت نہیں تھی اور یہ پریسلی سٹیٹس میں آتی تھی۔ مہاراجہ ہری سنگھ بھی اس ریاست کا الحاق نومولود بھارت و پاکستان کی ریاستوں سے ہر گز نہیں کرنا چاہتا تھا اور شیخ عبداللہ بھی اپنے نقطہ نظر سے ریاست کو آزاد رکھنے کا حامی تھا البتہ اسکی مہاراجہ سے سیاسی لڑائی تھی۔

انہوں نے کہا کہ مہاراجہ جموں کشمیر نے دونوں نومولود ریاستوں کے حکمرانوں کو ماضی میں طے شدہ معاہدوں کی توثیق کیلئے تحریری طور پر استدعا کی اور 15 اگست 1947 کو پاکستان کے وزیر ریاستی امور عبدالرب نشتر اور جموں کشمیر کے وزیر اعظم شیر جنگ کے درمیان معاہدہ قائمہ طے پایا اور دونوں نے دو آزاد ریاستوں کے ذمہ داران کی حثیت سے اس معاہدہ پر دستخط ثبت کیے جبکہ نہرو نے کہا کہ میں اپنے مشیران سے بات چیت کے بعد جواب دونگا۔

چونکہ انگریز سامراج کو بھی غیر متوقع طور پر دوسری عالمی جنگ میں عبرت ناک شکست کی بدولت برصغیر سے بستر بوریا گول کر کے جانے کا عندیہ آ چکا تھا تو یوں انہوں نے برصغیر کو خیرآباد کہتے وقت ہر صورت تقسیم کر کے ہی جانا تھا ۔ اسلیئے پوری ساز باز، پلاننگ کے تحت اپنے ایجنٹوں کو استعمال کرتے ہوئے انہوں نے 22 اکتوبر کو مسلح قبائلی ریاست میں داخل کر دیئے جنکے پس پشت پاکستان آرمی بھی تھی اور اس آرمی کا سربراہ جنرل گریسی تھا جو بھارتی فوج کا بھی سربراہ تھا ۔
ان درندہ صفت قبائلیوں کو ٹارگٹ یہی دیا گیا کہ مال غنیمت، عورتیں تمھاری اور زمین ھماری ۔ یوں ان درندوں نے ریاست کے اندر انسانی خون، ظلم اور بربریت کی وہ داستان رقم کی کہ انسانی تاریخ آج بھی اس وحشیانہ اقدام پر شرمندہ ہے۔ 22 اکتوبر کے ہی پاکستانی حملہ کو جواز بنا کر بھارتی سامراج نے بھی 27 اکتوبر کو جموں کشمیر پر فوجی یلغار کر دی اور یوں دونوں ناجائز ،جابر اور اجنبی غاصب قوتوں کا آپس میں ٹکراو ہو گیا۔

پاکستانی زیر قبضہ جموں کشمیر سے جو غیر مسلم مرد وزن لٹے پٹے اور اپنے خاندانوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے درندگی سے لقمہ اجل بنتے دیکھ کر بھارتی قبضہ والے جموں میں پہنچے تھے انکی داستان الم سنکر وہاں کے جنونی ہندوؤں نے تقریباً دو لاکھ مسلمان مرد،عورتوں اور بچوں کو بھارتی فوج کی اشیرباد سے ذبح کر ڈالا۔ قتل عام اور شہادتوں کا یہ سلسلہ نہ ہی پچھلے 73 سالوں سے رکا ہے نہ تھما ہے اور نہ ہی اس کا کوئی اختتام ہونے کو ہے۔

پیارے ہموطنو! دوست و دشمن کی پہچان کرو۔ جموں کشمیر کی عارضی تقسیم اور موجودہ مستقل شکل اختیار کرانے میں کن کن قوتوں کا کردار ہے اسے سمجھو۔ ھمارے اپنے اندر دو غاصب طاقتوں کے جو سہولت کار موجود ہیں انکی غداری کی وجوہات کا بھی تجزیہ کرو۔ یاد رہے کہ ھماری قومی آزادی کی جدوجہد انتہائی مشکل و کٹھن ترین ہے کیونکہ ھم دو ایٹمی طاقتوں کے براہ راست غلام ہیں اور اڑوس پڑوس میں بھی ایٹمی طاقتیں موجود ہیں اور دو بین الاقوامی سامراجی بلاکس کیلئے بھی یہ خطہ جغرافیائی نقطہ نظر سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

یوں ھمیں بھارت و پاکستان کے مظلوم، محنت کش، دبے، پسے اور کچلے ہوئے عوام کیساتھ جڑت پیدا کرتے ہوئے اپنی قومی آزادی کی تحریک کو منطقی انجام تک پہچانا ہو گا اور تمام پڑوسی ممالک کے محنت کشوں کو یہ پیغام دینا ہو گا کہ ھماری جدوجہد جنوبی ایشیا میں امن، خوشحالی، ترقی اور روشن و تابناک مستقبل کیلئے ہے۔

اسلیئے جنوبی ایشیا کے عوام بہترین مستقبل کیلئے مسلئہ جموں کشمیر کو یہاں کے دو کروڑ عوام کی امیدوں، خواہشات اور امنگوں کے عین مطابق انہیں آزادانہ ماحول میں حق رائے دہی دے کر حل کیا جا سکتا ہے۔ ورنہ ایک ہولناک، خوفناک اور تاریخ کی بدترین جنگ آپکے دروازہ پر دستک دے رہی ہے۔ جس کے بعد نہ رہے گا بانس اور نہ ہی بجے گی بانسری۔






Related News

توہین مذہب یا سیاسی و سماجی مخاصمت اظہر مشتاق

Spread the love پاکستان اور اس کے زیر انتظام خطوں میں گذشتہ دہائی میں توہینRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *