Main Menu

ارتقاء اور شعوری پسماندگی؛ تحرير: تحریر یوسف حسیُن ، انتخاب: نثار احمد

Spread the love

ہمارے معاشرے میں ارتقاء کو لے کر ایک انتہائی غیر علمی، غیر شعوری اور غیر سائنسی سوچ پائی جاتی ہے۔ ارتقاء کے ذکر ہوتے ہی لوگ اپنی باتوں سے یہ بتانا شروع کر دیتے ہیں کہ ان کو ارتقاء کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے، انہوں نے بس سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر ارتقاء کے متعلق غلط رائے قائم کی ہوئی ہے۔
کبھی کہہ دیتے ہیں کہ ارتقاء بس ایک تھیوری ہے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ تو کبھی کہتے ہیں سائنسدان اسے غلط ثابت کر چکے ہیں۔ اور اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ان لوگوں نے ارتقاء کو کالج یا یونیورسٹی کے لیول پر پڑھا ہی نہیں ہوتا۔
ان لوگوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ سائنس میں لفظ تھیوری کسی انسان کی ذاتی رائے یا تُکے کے لیے استعمال نہیں ہوتا۔ سائنس کے میدان میں تھیوری کائنات کے کسی ایک پہلو یا ایک سے زیادہ پہلوؤں کی بہتر سے بہترین وضاحت کا نام ہے۔سائنس میں علم کے کسی مرکزی ڈھانچے کے لیے لفظ تھیوری استعمال ہی اس وقت کرتے ہیں جب تجربات اور مشاہدات سے حاصل ہونے والے بہت سارے شواہد اسے سپورٹ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ریاضی سے بھی مدد لی جاتی ہے۔
اور جب ان افراد سے یہ پوچھا جائے کہ ان سائنسدانوں کے نام بتا دیں جنہوں نے ارتقاء کو غلط ثابت کر دیا ہے تو ایک نام بتانے سے قاصر ہوتے ہیں۔ ان افراد کو یہ معلوم نہیں ہے کہ اگر ایک سائنسدان کے پاس سائنس کی کسی ویل ایسٹبلیشڈ تھیوری کے خلاف کچھ شواہد ہوں، کچھ تجربات اور مشاہدات کا ڈیٹا موجود ہو یا کوئی متبادل تھیوری موجود ہو تو وہ فوری اپنے ریسرچ پیپر شائع کرتا ہے۔ سائنسدان اپنی ریسرچ کو چھپا کر نہیں رکھتے۔ مثال کے طور پر آئنشٹائن کے پاس نیوٹن سے بہتر تھیوریز موجود تھیں تو اس نے اپنے ریسرچ پیپرز لکھے اور وہ پوری فزکس کو نئی اور بہتر راہوں پر لے آیا۔ ارتقاء کے موضوع میں نیوٹن اور آئنشٹائن کی بات اس لیے کی گئی ہے کیونکہ سائنس اور ریاضی کی تاریخ میں نیوٹن ایک بہت بڑا نام ہے۔ لیکن سائنس میں شخصیت پرستی نہیں ہوتی، بس خوب سے خوب تر کو اپنایا جاتا ہے۔ اگر آئنشٹائن نام کے کلرک کی سائنٹیفک ریسرچ نیوٹن جیسے قد آور سائنسدان سے بہتر ہے تو اس بہتر سائنٹیفک ریسرچ کو فوری اپنا لیا جائے گا۔ اسی لیے ڈارون کی باتوں کو اپنا لیا گیا اور ڈارون کی تھیوری اوف ایولوشن اس حد تک کا کامیاب ہو چکی ہے کہ آج سائنسدانوں کے پاس اس کا کوئی متبادل ہے ہی نہیں۔ یہاں ڈارون کی تھیوری اوف ایولوشن کے الفاظ محض تاریخی نقطہ نظر سے پیش کیے گئے ہیں۔ ورنہ موجودہ تھیوری اوف ایولوشن ڈارون کے زمانے سے بہت آگے آ چکی ہے۔ اس کے ایسے ایسے شواہد سامنے آ چکے ہیں جن کا ڈارون کا بالکل بھی علم نہیں تھا۔
تھوڑی سی عقل استعمال کرکے اس بات کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ کسی بھی موضوع کے حق میں یا اس کے خلاف بات کرنے کے لیے اس موضوع کو سٹڈی کرنا ضروری ہوتا ہے۔ لیکن غیرعلمی، غیر شعوری اور غیر سائنسی طور پر ارتقاء کی مخالفت کرنے والے افراد سے پوچھا جائے کہ اگر آپ نے زندگی میں کالج یا یونیورسٹی لیول کی ارتقاء یا بائیولوجیکل اینتھروپولوجی کی جس بک کا مطالعہ کیا ہے اس کا نام بتا دیں تو پھر سے یہ لوگ کسی بھی بک کا نام لینے سے قاصر ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کا اس حقیقت کا علم نہیں ہوتا کہ پوری دنیا میں کسی بھی لیول پر جو سائنس کا سلیبس پڑھایا جاتا ہے وہ سٹینڈرڈ ہے، یعنی پوری دنیا میں لگ بھگ ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ اور ہونا بھی چاہئیے کیونکہ سائنسی علم کا تعلق کسی مخصوص انسانی گروہ سے نہیں ہے۔ پوری دنیا میں ایک ہی سائنس ہے۔
اور سائنس کی کالج اور یونیورسٹی لیول پر پڑھائے جانے والی بُکس کا معیار عام کتابوں سے بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اور کالجز اور یونیورسٹیز وغیرہ میں جو سائنسی حقائق طالب علموں کو پڑھائے جاتے ہیں وہ ایک لمبے عرصے پہلے سائنسدانوں کی ریسرچ سے ثابت ہو چکے ہوتے ہیں۔
ایسی غیر علمی، غیر شعوری اور غیر سائنسی سوچ رکھنے والے افراد اس حقیقت سے بھی نا واقف ہوتے ہیں کہ سائنس کے میدان میں سائنسی علم کے ذریعے ہی پہلے سے موجود سائنٹیفک تھیوریز کی خامیوں کو پہچانا جاتا ہے اور بہتر تھیوری پیش کی جاتی ہے۔
سوال اٹھائیں لیکن سب سے پہلے اپنی تعلیمی قابلیت پر، کہ کیا آپ کسی موضوع کی الف ب جانتے بھی ہیں کہ نہیں۔؟
آئیندہ آنے والے وقت میں جب آپ ارتقاء کی مخالفت کرنے والے افراد سے ملیں تو ان لوگوں سے ان سائنسدانوں کے نام اور ان سائنسدانوں کے ریسرچ پیپرز کی لسٹ ضرور مانگیں جو ارتقاء کو رد کر چکے ہیں۔ اور ان لوگوں سے یہ بھی پوچھیں کہ آپ نے ارتقاء کی کالج اور یونیورسٹی لیول کی کونسی بُکس پڑھی ہیں۔ شائد ان لوگوں کو اپنی غیر علمی، غیر شعوری اور غیر سائنسی سوچ کا احساس ہو جائے۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *