Main Menu

بہن کی رخصتی ميں شموليت کيليے بے گناہ قيدی بابا جان کی پيرول کی درخواست مسترد

Spread the love

پونچھ ٹائمز ويب ڈيسک

گلگت بلتستان کے معروف حق پرست رہنما اور عوامی ورکرز پارٹی کے سينئر ليڈر بابا جان نے جيل سے نگران وزير اعلی کے نام خط لکھا تھا۔ خط ميں نگران وزير اعلی کو يہ بتاتے ہوۓ گزارش کی گئ تھی کہ ميں گزشتہ کافی عرصہ سے ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہا ہوں اور ميری بہن کی شادی 17 اکتوبر کو ہو رہی ہے۔ اسليے مجھے چند گھنٹوں کے لئے پيرول پر بہن کی رخصتی ميں شرکت کی اجازت دی جاۓ۔

اطلاعات کے مطابق نگران حکومت نے بابا جان کی درخواست مسترد کی دی ہے تاہم اس بارے ميں ابھی تک مزيد تفصيلات نہيں مل سکيں۔
بابا جان کی جانب سے 12 اکتوبر کو گاہکوچ جيل سے لکھے گۓ خط ميں نگران وزير اعلی کو بتايا گيا تھا کہ پچھلے برس کراچی کی ايک جيل ميں ايک قيدی کی بيٹی کی شادی و رخصتی کی تقريب منعقد ہوئ جبکہ پاکستان ميں قيدیوں بارے قوانین ميں ايسا کوئ قانون موجود نہيں ہے۔

بابا جان نے خط ميں وزير اعلی کو لکھا تھا کہ انسانی بنيادوں پر مجھے بھی چند گھنٹوں کے لئے پيرول پہ رہا کيا جاۓ تاکہ ميں اپنی بہن کی شادی و رخصتی کی تقريب ميں شرکت کر سکوں۔

بابا جان کی جانب سے نگران وزير اعلی کو لکھے گۓ خط کا عکس

بابا جان کون ہے؟

بابا جان ايک سوشل ايکٹويسٹ کے ساتھ ساتھ عوامی ورکر پارٹی کا مرکزی رہنما بھی ہے۔ بابا جان نے جيل سے ہو کر ہی دو دفعہ انتخابات ميں حصہ ليا اور ايک دفعہ انتخابات جيتے جبکہ دوسری دفعہ اپنے حلقے ميں ووٹ لينے بارے انتخابات ميں انکی دوسری پوزيشن تھی۔ ان کے 13 ديگر ساتھی جن ميں افتخار کربلائ، سلمان کريم، عرفان کريم، عليم خان، امير علی، عرفان علی، سرفراز کريم، شکر اللہ بيگ، موسیٰ بيگ، غلام عباس، امجد خان، راشد منہاس اور شير خان سال 2011 ميں عطا آباد جھيل کے متاثرين کے حقوق کی آواز اُٹھانے اور گلگت بلتستان سے قيمتی معدنيات کی لُوٹ گھسوٹ کے خلاف آواز اٹھانے پر گرفتار کيا گيا اور پھر انسداد دہشتگردی اور شيڈيول فور کے تحت اس پر مختلف طرح کے مقدمات قائم کئے گۓ۔
عطاء آباد جھيل کے متاثرين کو معاوضہ نہ دينے و معدنيات کی لُوٹ گھسوٹ کے خلاف 11 اگست 2011 کو اُس وقت کے گلگت بلتستان کے چيف منسٹر کی آمد پر علی آباد ميں ايک احتجاجی مظاہرہ کيا گيا۔ اس احتجاجی مظاہرے پر پوليس نے گولی چلا دی جسکے نتيجے ميں دو افراد شہيد اور متعدد زخمی ہو گۓ تھے۔ شہيد ہونيوالے باپ بيٹا تھے۔
بابا جان افتخار کربلائ اور انکے ديگر 12 ساتھيوں پر انسداد دہشتگردی ، شيڈيول فورتھ اور دوسری ديگر دفعات کے تحت مختلف طرح کے مقدمات چلاۓ گۓ۔ ايک جوڈيشل کميٹی بھی بنائ گئ اور اُس کميٹی نے تحقيقات بھی کيں مگر اُس جوڈيشل کميٹی کی رپورٹ تاحال منظر عام پر نہيں لائ گئ۔
گلگت بلتستان کی چيف کورٹ نے ان لوگوں کو مقدمات سے بری کر ديا تھا۔ مسلم ليگ نواز کی حکومت نے گلگت بلتستان کی اپيليٹ کورٹ ميں چيف کورٹ کے فيصلے کے خلاف اپيل کی تھی جس کے نتيجے ميں گلگت بلتستان کی عدالت نے بابا جان کو چاليس سال قيد کی سزا سُنائ ہوئ ہے جبکہ افتخار کربلائ کو 90 سال کی سزا سُنائ ہوئ ہے۔ بابا جان اور افتخار کربلائی سمیت دیگر سیاسی اسیروں کے ساتھ گاہکوچ جیل میں قید ہیں۔ انہیں 9 سال قبل گرفتار کیا گیا تھا۔

ان سیاسی اسیروں کو عطا آباد جھیل کے متاثرین کے حق میں آواز اٹھانے معدنیات کے تحفظ میں مزاحمت کرنے اور گلگت بلتستان میں نافذ کالونیل رول کے خلاف جدو جہد کرنے کے جرم میں سزائیں سنائی گئی ہیں۔






Related News

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *