Main Menu

گلگت بلتستان انتخابات: حلقہ 13 استور 1 تاریخی جائزہ؛ تحریر : عبدالجبارناصر

Spread the love

مختصر تعارف اور مسائل

گلگت بلتستان اسمبلی کے15 نومبر2020ءکو ہونے والے انتخاب کے لئے کاغذات نامزدگی جمع ہوگئے اور اب جاچ پڑتال کا مرحلہ بھی مکمل ہوچکا ہے ، تاہم اعتراضات کا مرحلہ باقی ہے۔ گلگت بلتستان اسمبلی کا حلقہ جی بی اے 13 استور 1 ضلع استور کی کئی حسین وادیوں جن میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی )سے منسلک وادی گریز (قمری ، منی مرگ ، کلشئی )، وادی گدائی ، وادی میر ملک ، وادی رٹو ، وادی ضلے بالا، وادی چورت، وادی تریشنگ ، وادی فیری میڈو ، وادی چھوگام اور دیگر پر مشتمل ہے اور ایک اندازے کے مطابق یہ حلقہ تقریباً 3ہزار مربع کلومیٹر علاقے تک پھیلا ہوا ہے ۔ تحصیل شونٹر ہیڈ کوارٹر سے آخری گائوں ٹٹوال تک تقریباً 130 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ اس حلقے کی سرحدیں ایک طرح آزاد کشمیر وادی نیلم ، دوسری طرح وادی گریز مقبوضہ کشمیر ، تیسری طرح گلتری بلتستان اور چوتھی طرف ضلعی ہیڈ کوارٹر استور گوریکوٹ سے جاملتی ہیں ۔ 15 نومبر کو ہونے انتخابات میں سخت موسم کی وجہ سے غالباً سب سے زیادہ ضلع استور کا یہی حلقہ جی بی اے13 استور1 اور ضلع سکردو کا حلقہ جی بی اے 9 سکردو 3گلتری متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ ترقیاتی مسائل کے حوالے سے بھی اس حلقے کا چند شدید متاثرہ حلقوں میں شمار ہوتا ہے ۔ ملنے والے اعدادو شمار کے مطابق اصل آبادی85ہزار سے زائد اور 33ہزار ووٹرز ہیں ۔ مجموعی طور پر 13 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ، جن میں سے 11 کے منظور اور دو امیدواروں کے کاغذات ریٹرننگ افیسر نے مسترد کر دئے ہیں ۔

ماضی کے عوامی نمائندے

گلگت بلتستان میں مشاورتی کونسل 1969ء میں قائم ہوئی ، 12 ارکان کا راجگان کی بنیاد پر انتخاب ہوا، جس میں استوراور گلگت ایجنسی کے لئے 2 نشستیں تھیں، تاہم گلگت بلتستان میں میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ناردرن ایریاز مشاورتی کونسل کے لئے پہلی بار 14 نشستوں پر انتخاب دسمبر 1970ء میں ہوا اور اس زمانے میں بھی استور کے دو حلقے تھے ، آج 50 سال بعد بھی جب اسمبلی کی 24 نشستیں ہیں تو تب بھی استور کے دو ہی حلقے ہیں۔ پہلے انتخاب میں وادی ضلعے بالا رٹو سے تعلق رکھنے والے جج (ر)محمد خورشید خان صاحب (تحریک انصاف کے موجودہ امیدوار خالد خورشید صاحب کے والد محترم )استور حلقہ نمبر 1 سے کامیاب ہوئے اور بعدازاں سرکاری ملازمت کو ترجیح دی ،جبکہ سیاسی میدان میں ان کے بھائی حاجی عنایت مرحوم سرگرم رہے ، پس پردہ گرفت جج صاحب کی ہی رہی۔ ناردرن ایریاز کونسل 16نشستوں کے لئے انتخاب نومبر 1975ء اور اکتوبر 1979ء میں دوسرے اور تیسرے دونوں انتخاب میں استور حلقہ نمبر 1 سے ضلعے بالا مرمئی سے تعلق رکھنے والے قاری عبدالحکیم صاحب کامیاب ہوئے ۔ کونسل کے چوتھے انتخابات 24 اکتوبر 1983ء کو ہوئے اور اس حلقے سے ضلعے بالا درلے سے تعلق رکھنے والے حاجی جان محمد مرحوم (پیپلزپارٹی کے موجودہ نامزد امیدوار عبدالحمید خان صاحب کے والد محترم )کامیاب ہوئے ۔ کونسل کے پانچویں انتخابات 11 نومبر 1987ء کو ہوئے اور پہلی بار کامیابی ضلعے بالا سے گدائی کی طرف منتقل ہوئی اور سابق چیف جسٹس چیف کورٹ حاجی صاحب خان صاحب (موجودہ گدائی اتحاد کے سرپرست اعلیٰ )کامیاب ہوئے اور اس کامیابی میں وادی گریز (قمری ، منی مرگ ، کلشئی )کے نوجوان سیاسی رہنماء عبدالرحمان ثاقب صاحب اور محمد حسین شہزاد ایڈوکیٹ صاحب کا کردار انتہائی اہم رہا۔ کونسل کے چھٹے انتخابات نومبر 1991ء کو ہوئے اور تریشنگ سے تعلق رکھنے والے شاہد علی خان صاحب دلچسپ انداز میں کامیاب ہوئے ۔آخر الذکر 5 انتخابات کونسل کی 16 نشستوں کے لئے ہوئے اور پہلی بار نشستوں کی تعداد 1994ء میں 16 سے بڑھاکر 24 کردی گئی مگر استور کی قسمت میں دو ہی نشستیں رہیں اور پہلے جماعتی اور مجموعی طور پر کونسل کے ساتھویں انتخاب میں ضلعے بالا درلے سے سابق ممبر حاجی جان محمد مرحوم کے فرزند عبدالحمید خان صاحب آزاد حیثیت میں کامیاب ہوئے۔ کونسل کے آٹھویں انتخابات 3 نومبر 1999ء کوہوئے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر ایک بار پھرگدائی سے تعلق رکھنے والے سابق چیف جسٹس چیف کورٹ حاجی صاحب خان صاحب کامیاب ہوئے اور گلگت بلتستان کی تاریخ میں پہلا اسپیکر ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ کونسل کے نویں انتخابات 12 اکتوبر 2004ء کو ہوئے اور ضلعے بالا درلے کے عبدالحمید خان صاحب مسلم لیگ(ق) کے ٹکٹ پر دوسری بار کامیاب ہوئے اور کابینہ کے رکن بنے اور حاجی صاحب خان صاحب نے عدالت کا رخ کیا اور جج بن گئے ۔ یہ آٹھویں اور نویں انتخابات ’’ناردرن ایریاز قانون ساز کونسل ‘‘ کے لیے تھے۔ دسویں انتخابات پہلی بار آرڈر 2009ء کے تحت گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے لئے ہوئے اور ایک بار پھر ضلعے بالا درلے کے عبدالحمید خان صاحب پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر تیسری بار کامیاب ہوئے۔ گیارویں انتخابات 8 جون 2015ء کو ہوئے اور چھورت سے تعلق رکھنے والے رانا فرمان علی صاحب مسلم لیگ(ن)کے ٹکٹ پر کامیاب ہوکر صوبائی وزیر بنے۔

ہم اگر مختصر جائزہ لیں تو 1970ء سے 1982ءتک استور حلقہ نمبر 1 کی اسمبلی یا بلدیاتی سیاست حاجی جان محمد مرحوم (عبدالحمید خان کے والد محترم) اور جج محمد خورشید خان صاحب (خالد خورشید کے والد محترم)کے کنٹرول میں رہی اور1987ء میں سابق چیف جسٹس چیف کورٹ حاجی صاحب خان صاحب اور 2009ء میں رانا فرمان علی کی انٹری ہوئی ۔ 1991ء میں ایک حادثاتی انٹری شاہد علی خان صاحب کی بھی رہی مگر وہ اپنے تسلسل برقرار نہ رکھ سکے ۔اب 15 نومبر 2020ء کو ہونے والے انتخابات میں بھی عملاً یہ چاروں فریق میدان میں ہیں اور اگر نسل در نسل سیاسی میراث کی بات کی جائے تو تاحال یہ صرف حاجی جان محمد مرحوم اور جج خورشید صاحب کے سیاسی ورثاء پر صادق آتی ہے۔ یہاں پر یہ بات بھی ذہن نشین کی جائے کہ ہمارے پورے خطے یعنی بر صغیر میں سیاسی میراث کی اہمیت رہی ہے اور عوام کسی کا انتخاب خود کرتی ہے تو پھر سوال کی گنجائش نہیں رہتی ہے۔

(جاری ہے)






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *