Main Menu

مسعود خان کا سچ سے پرہیز ؛ تحریر: ملک عبدالحکیم کشمیری

Spread the love

پندرہ فروری 1951کو راولاکوٹ میں پیدا ہونے والے سردار مسعود خان اس وقت پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کے صدر ہیں۔مسعود خان نے 1980میں وزارت خارجہ میں بھرتی ہوئے اس سے قبل انہوں نے مختصر عرصہ کیلئے ایک ٹی وی چینل پر انگریزی میں خبریں پڑھنے کا شوق پورا کیا۔1980سے 1982تک یورپ،ایران اور ساؤتھ ایشیئن ممالک میں وزارت خارجہ کے سیکشن آفیسر تعینات ہوئے۔1983-84سے 1986تک بیجنگ میں تھرڈ سیکرٹری اور پھر 1986سے 1989تک کے عرصہ میں سیکنڈ اور فرسٹ سیکرٹری کے عہدوں پر ترقیاب ہوئے۔1990سے 1991میں اقتصادی تعاون کی تنظیم کے ڈائریکٹر اور پھر 1992میں ایسٹ ایشیاء پیسفک کے ڈی جی رہے۔1993میں انہیں اقوام متحدہ نیو یارک میں کونسلر بنا کر بھیجا گیا چار سال تک اس عہدے پر رہنے کے بعد 1997میں انہیں واشنگٹن ڈی سی میں پولیٹیکل کونسلر کی ذمہ داریاں دی گئیں۔اگست 2003سے مارچ 2005تک وزارت خارجہ پاکستان کے ترجمان رہے،2005سے 2008تک جنیوا میں مستقل مندوب اور سفارتکار 2008سے 2012تک چین میں بطور سفیر خدمات سر انجام دیں۔
11اکتوبر 2012سے 7فروری 2015تک اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب کے عہدے پر فائز رہے۔
فروری 2015سے اگست 2016تک انہوں نے ڈائریکٹر جنرل انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک اسڈیز اسلام آباد میں ملازمت کی۔16اگست 2016کو انہیں شاندار خدمات کے عوض ڈی جی کے عہدے سے اٹھا کر پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کا صدر بنا یا گیا۔مسعود خان جب صدر بنائے گئے اس وقت ان کے پاس آزادکشمیر کا شناختی کارڈ نہیں تھا اور نہ ہی ووٹر فہرست میں ان کا نام ۔راوی کے بقول مسعود خان کو گلگت بلتستان کی حیثیت میں تبدیلی،سی پیک سے جڑے آئینی،قانونی اور جغرافیائی معاملات کیلئے پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کا صدر بنایا گیا۔
سردار مسعود بلا شبہ دستیاب ماحول میں اس اہلیت پر پورا اترتے تھے جس کیلئے انہیں ڈی جی کے عہدے سے اچانک صدر کے منصب پر لایا گیا۔انہیں اپنا سبق اچھی طرح یاد ہوتا ہے وہ نیند میں بھی دئیے گئے دائرے سے باہر قدم رکھنے کا تصور تک نہیں کرتے،ان کی ذات گرامی اس کمپیوٹر کی طرح ہے جو انسٹال کیے گئے پروگرام کے مطابق چلتا ہے۔
وزارت خارجہ کے سیکشن آفیسر سے صدر تک انہوں نے خارجی،سفارتی امور کے علاوہ مختلف تھنک ٹینک کے ممبر کی حیثیت سے کام کیا۔ان کی ملازمت اور تجربے کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی اس خطہ کی جیو پولیٹیکل پر اچھی گرفت ہو گی اورتحریک آزادی اور تاریخ جموں کشمیر کے بارے میں بھی وہ بخوبی آگاہ ہوں گے۔
مگر گزشتہ کچھ عرصہ سے سردار مسعود ہمیں تاریخ بالخصوص 1947کی تقسیم کشمیر کے حوالہ سے جو کچھ بتا رہے ہیں وہ حقائق کے برعکس ہے،ایسا لگتا ہے انہیں ان کے ڈاکٹر نے سچ سے پرہیز کا مشور دیا ہے۔
سردار مسعود خان کا کہنا ہے کہ”خود مختار کشمیر کا نعرہ انڈین ایجنٹوں ہری سنگھ اور شیخ عبداللہ کا تھا،اب کوئی گنجائش نہیں“۔
خود مختار کشمیر کے نعرے کی گنجائش نہیں،اس بارے میں ان کی رائے قابل احترام،2کروڑ باشندگان جموں وکشمیر سے مسعود خان کا موقف سامنے آگیا باقی بھی وقت آنے پر اپنی رائے دے دیں گے،لیکن یہ کہنا کہ خود مختار کشمیر کا نعرہ انڈین ایجنٹوں کا تھا مسعود خان کی بات درست تسلیم نہیں کی جا سکتی۔تاریخ دو دہاری تلوار ہے کسی کو بھی اس کی کاٹ سے معاف نہیں ملتی ۔برطانوی پارلیمنٹ کے منظور کردہ قانون آزادی ہند کے بعد بانی پاکستان اور کانگریسی قیادت کے درمیان جن اختلافی امور پر گفتگو ہوئی اور اس عرصہ کے معتبر اخبارات میں جو ان کے بیانات شائع ہوئے وہ ریکارڈ کا حصہ ہیں۔اس وقت جو صورتحال تھی آئیے اس دیکھتے ہیں۔
21/ اپریل 1947؁ء لیاقت علی خان نے نہرو کے بیان کے جواب میں ایک بیان جاری کیا
”کابینہ مشن اور مختلف اوقات میں واضح اعلانات کی رو سے ریاستوں کو یہ پورا اختیار حاصل ہو گیا ہے کہ وہ نئی مملکتوں سے کسی قسم کا تعلق رکھنے سے انکار کر دیں۔ جب برطانوی ہند کو آزادی مل جائے گی تو ریاستوں کو یہ آزادی حاصل ہو جائے گی کہ وہ اپنے لیے ایک مکمل آزاد و خود مختار مملکت کے طور پر زندہ رہنے کا فیصلہ کریں۔“
13/ جون 1947؁ء کو پارٹی لیڈر کانفرنس میں نہرو، کانراؤ میں تلخ جملوں کے تبادلوں کے بعد محمد علی جناح اور نہرو کے درمیان بھی نوک جھونک ہوئی۔
نہرو نے کہا ”ریاستیں پاکستان سے الحاق کر سکتی ہیں، مگر کابینہ مشن کی یادداشت میں اس بات کی گنجائش نہیں کہ ریاستیں خود مختاری کا حق رکھتی ہیں۔“
محمد علی جناح نے اس کے جواب میں کہا، ”ریاستوں کو یہ مکمل حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی قانون ساز اسمبلی میں شامل نہ ہوں، کیونکہ ہندوستان کی ہر ریاست ایک آزاد و خود مختار ریاست ہے۔“
نہرو نے اتفاق نہیں کیا، مگر محمد علی جناح نے کہا کہ برطانوی ہند ریاستوں کے معاملے میں اختیار نہیں رکھتا۔
17/ جون 1947؁ء کو محمد علی جناح نے مسلم لیگ کی طرف سے ریاستوں کے بارے میں اعلان کیا جو ”پاکستان ٹائمز“ کی 17/ جون کی اشاعت میں ہے:
”محمد علی جناح نے کہا ہے کہ اقتدار اعلیٰ ختم ہوتے ہی ہندوستانی ریاستیں آزاد ہوں گی۔“
محمد علی جناح بانی پاکستان کے 17جون 1947کے اعلان کا متن کچھ یوں تھا
کشمیر یوں کے لیے یہ سوال پریشان کن ہے کہ آیا کشمیر پاکستان کی آئین سازاسمبلی کا حصہ ہو گا میں نے اس بات کی وضاحت ایک دفعہ سے زائد بار کی ہے کہ برصغیر کی ریاستیں پاکستان کی قانون ساز اسمبلی میں یا بھارت کی قانون ساز اسمبلی میں شامل ہو سکتی ہیں یا وہ خودمختار رہ سکتی ہیں مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مہاراجہ اور کشمیر کی حکومت اس بات کی طرف پوری توجہ دیں گے اور نہ صرف حکمرانوں کے مفادات کا بلکہ اُس کے عوام کے مفادات کا بھی پورا خیال رکھیں گے۔
تيس جون 1947؁ء کو محمد علی جناح نے ریاستوں کے بارے میں ایک مرتبہ پھر بیان جاری کیا کہ اقتدار کی منتقلی کے ساتھ ہی ریاستوں کو خود بخود آزاد و خود مختار مملکت کی حیثیت حاصل ہو جائے گی۔
مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کی8/ جولائی 1947؁ء کی قرارداد میں بھی ہندوستانی ریاستوں کے آزاد و خود مختار رہنے کی حمایت کی گئی ہے۔
گيارہ جولائی 1947؁ء کو محمد علی جناح کا ایک پریس بیان جاری ہوا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کے متعلق مجھ سے پوچھا گیا ہے آیا کشمیری مسلمان پاکستان کے ساتھ الحاق کر رہے ہیں یا نہیں۔ میں اس بات کی پہلے ہی سے ایک سے زائد بار وضاحت کر چکا ہوں کہ ریاستیں اس معاملہ میں آزاد ہیں کہ وہ پاکستان سے الحاق کریں یا بھارت سے یا پھر آزاد و خود مختار رہیں۔

یہ سب کچھ مسعود خان جانتے ہیں لیکن موجودہ اور مستقبل کے اقتدار کیلئے سچ سے پرہیز کا صائب مشورہ ان کی سیاسی صحت کیلئے ناگزیر ہے۔
ریاست جموں کشمیر کا آخری حکمران ہری سنگھ 15اگست 1947کے معاہدہ قائمہ کے تحت پوری ریاست لے کر پاکستان کے ساتھ شامل ہو گیا تھا (اس کا ریکارڈ اور تصاویر موجود ہیں)جن لوگوں نے مفروضے کی بنیاد پر اس معاہدے کو توڑا جس کے بعد ریاست تقسیم ہوئی اس خطے میں وہ ہیرو ہیں۔
یہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے شیخ عبداللہ،مہاراجہ ہری سنگھ کے درمیان زبردست محاذ آرائی تھی۔شیخ عبداللہ نے مہاراجہ کے خلاف کشمیر چھوڑ دو کی تحریک چلائی۔الیکشن کا بائیکاٹ کیا‘اسی عرصہ میں مسلم کانفرنس اور اس کی لیڈر شپ کا کردار کیسا رہا ۔ سردار مسعودکے موجودہ منصب کا تقاضا ہے کہ تحریک آزادی کی علمبردار جماعت مسلم کانفرنس کے اس عرصہ کے کردار کے بارے میں بھی سچ بتائیں۔ہم بتائیں گے تو روایتی الزامات شروع ہو جائیں گے۔
سردار مسعود اور ان کے نظریاتی قبیل کے لوگ انڈین ایجنٹ نہیں یہ بات بالکل درست ہےلیکن جن کی وجہ سے یہ ریاست ٹکڑے ٹکڑے ہوئی لاکھوں لوگ شہید ہوئے وہ نئی نسل کے ہیرو نہیں ہو سکتے۔باالکل اسی طرح ہری سنگھ کا برا طرز حکمرانی،شخصی راج اورجموں وکشمیر سے بزدلوں کی طرح بھاگنا شیخ عبداللہ کا اندرا گاندھی سے معاہدہ بھی تاریخ کے اوراق کا تاریک باب ہے۔اپنی خارش کو سکن انفیکشن اور دوسرے کی خارش کو کھرک کہنا حقائق کے میدان میں قابلِ اعتبار نہیں ہوتا۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *