Main Menu

ہُنزہ: بابا جان ،افتخار کربلائ و ديگر 12 اسيران کی رہائ کے لئے دھرنا پانچويں روز بھی جاری

Spread the love

ان سیاسی اسیروں کو عطا آباد جھیل کے متاثرین کے حق میں آواز اٹھانے، معدنیات کے تحفظ میں مزاحمت کرنے اور گلگت بلتستان میں نافذ کالونیل رول کے خلاف جدو جہد کرنے کے جرم میں سزائیں سنائی گئی ہی

خواتين و بچوں سميت لوگوں کی بڑی تعداد دھرنے میں پانچ دن سے شريک ہے، اسيرانِ ہُنزہ رہائ کميٹی کا قیدیوں کی رہائی تک دھرنا جاری رکھنے کا اعلان

پونچھ ٹائمز ويب ڈيسک

پاکستانی زير انتظام گلگت بلتستان کے علاقے ہُنزہ ميں باباجان ، افتخار کربلائی اور ديگر اسيران کی رہائی کیلئے جاری دھرنا آج پانچويں روز ميں داخل ۔ دھرنے میں بزرگ ، خواتين نوجوان اور چھوٹے چھوٹے بچے بھی شامل ہيں۔
تفصيلات کے مطابق اسیران ہنزہ کی رہائی کے لیے کالج چوک علی آباد ، ہنزہ میں دھرنا جاری ہے۔ جس میں ہنزہ کے عوام اور پورے گلگت بلتستان سے سیاسی، سماجی اور انسانی حقوق کے علمبرداروں نے بڑی تعداد میں شرکت کر رہے ہيں۔ دھرنے سے سیاسی و سماجی رہنماؤں نے آج خطاب کرتے ہوئے ہنزہ کے بے گناہ اسیروں کی رہائی کے لیے ریاست پاکستان سے پر زور اپیل کی کہ بے گناہ قيديوں کو فی الفور رہا کيا جاۓ۔
اسیران ہنزہ رہائی کمیٹی نے دھرنے کو جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک ان کے پیاروں کو رہا نہیں کیا جاتا دھرنا جاری رہے گا۔

اسیران رہائی کمیٹی کے زیر اہتمام بے گناہ اسیروں کی رہائی کیلئے یک نکاتی ایجنڈے کے تحت کالج چوک علی آباد ميں پر امن احتجاجی دھرنا گزشتہ پانچ دنوں سے جاری ہے۔ متاثرین کے ساتھ عوام کی ایک کثیر تعداد نے دھرنے میں شريک ہے۔
گزشتہ روز دھرنے ميں معروف قوم پرست رہنما نواز خان ناجی سميت ديگر سياسی و سماجی رہنماؤں نے شرکت کی اور انہوں نے اسیروں کے خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار کیا اور دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اسیروں کا مسلۂ صرف چودہ خاندانوں کا نہیں بلکہ پورے علاقے کا مسلۂ ہے اور جب تک مسلۂ حل نہیں ہوتا دھرنا جاری رکھیں گے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ ریاستی اداروں نے ہنزہ کے عوام کیساتھ ظلم کی انتہا کی ہے جس کا ازالہ جلد از جلد کرکے اسیروں کو رہا کیا جائے اور جوڈیشل انکوائری رپورٹ کو منظر عام پر لا کر متاثرہ خاندانوں کو انصاف دلایا جائے۔ مقررین نے مزید کہا کہ ہنزہ کے نوجوانوں پر غداری کا سنگین الزام لگا کر انہیں جیل میں رکھنے کی بھرپور مزمت کرتے ہیں جو خطہ شہدا، غازیوں اور کوہ پیماوں کی ہے جو وطن عزیز سے والہانہ محبت کا اظہار کرتے ہیں ان پر گھناؤنے الزامات ناقابل قبول ہیں۔ دھرنے میں متاثرہ خاندانوں کے افراد نے بھی اپنے اوپر ہونے والے ظلم اور تکلیف کا تذکرہ کیا جو کہ قابل رحم تھا ۔ اسیروں کی ماؤں اور بہنوں نے اپنے پُر جوش تقاریر میں ریاستی اداروں سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس دفعہ کسی قسم کے زبانی کلامی وعدے پر دھرنا ختم نہیں کریں گے جب تک ہمارے بیٹے اور بھائی رہا نہیں ہوتے۔

ہُنزہ : اسيران رہائ کميٹی کے زير اہتمام دھرنے کے پانچويں روز عوام سراپا احتجاج ہيں۔

بابا جان ، افتخار کربلائ اور ديگر اسيران کون ہيں اور اُنکا جُرم کيا ہے؟

بابا جان ايک سوشل ايکٹويسٹ کے ساتھ ساتھ عوامی ورکر پارٹی کا مرکزی رہنما بھی ہے۔ بابا جان نے جيل سے ہو کر ہی دو دفعہ انتخابات ميں حصہ ليا اور ايک دفعہ انتخابات جيتے جبکہ دوسری دفعہ اپنے حلقے ميں ووٹ لينے بارے انتخابات ميں انکی دوسری پوزيشن تھی۔ افتخار کربلائ قراقرم نيشنل مومنٹ کا سينئر رہنما ہے۔ ان کے 12 ديگر ساتھی جن ميں سلمان کريم، عرفان کريم، عليم خان، امير علی، عرفان علی، سرفراز کريم، شکر اللہ بيگ، موسیٰ بيگ، غلام عباس، امجد خان، راشد منہاس اور شير خان سال 2011 ميں عطا آباد جھيل کے متاثرين کے حقوق کی آواز اُٹھانے اور گلگت بلتستان سے قيمتی معدنيات کی لُوٹ گھسوٹ کے خلاف آواز اٹھانے پر گرفتار کيا گيا اور پھر انسداد دہشتگردی اور شيڈيول فور کے تحت اس پر مختلف طرح کے مقدمات قائم کئے گۓ۔
عطاء آباد جھيل کے متاثرين کو معاوضہ نہ دينے و معدنيات کی لُوٹ گھسوٹ کے خلاف 11 اگست 2011 کو اُس وقت کے گلگت بلتستان کے چيف منسٹر کی آمد پر علی آباد ميں ايک احتجاجی مظاہرہ کيا گيا۔ اس احتجاجی مظاہرے پر پوليس نے گولی چلا دی جسکے نتيجے ميں دو افراد شہيد اور متعدد زخمی ہو گۓ تھے۔ شہيد ہونيوالے باپ بيٹا تھے۔
بابا جان افتخار کربلائ اور انکے ديگر 12 ساتھيوں پر انسداد دہشتگردی ، شيڈيول فورتھ اور دوسری ديگر دفعات کے تحت مختلف طرح کے مقدمات چلاۓ گۓ۔ ايک جوڈيشل کميٹی بھی بنائ گئ اور اُس کميٹی نے تحقيقات بھی کيں مگر اُس جوڈيشل کميٹی کی رپورٹ تاحال منظر عام پر نہيں لائ گئ۔
گلگت بلتستان کی چيف کورٹ نے ان لوگوں کو مقدمات سے بری کر ديا تھا۔ مسلم ليگ نواز کی حکومت نے گلگت بلتستان کی اپيليٹ کورٹ ميں چيف کورٹ کے فيصلے کے خلاف اپيل کی تھی جس کے نتيجے ميں گلگت بلتستان کی عدالت نے بابا جان کو چاليس سال قيد کی سزا سُنائ ہوئ ہے جبکہ افتخار کربلائ کو 90 سال کی سزا سُنائ ہوئ ہے۔ بابا جان اور افتخار کربلائی سمیت دیگر سیاسی اسیروں کے ساتھ گاہکوچ جیل میں قید ہیں۔ انہیں 9 سال قبل گرفتار کیا گیا تھا۔

ان سیاسی اسیروں کو عطا آباد جھیل کے متاثرین کے حق میں آواز اٹھانے معدنیات کے تحفظ میں مزاحمت کرنے اور گلگت بلتستان میں نافذ کالونیل رول کے خلاف جدو جہد کرنے کے جرم میں سزائیں سنائی گئی ہیں۔

ايک اور اسير عرفان کریم کی دو معصوم بیٹیاں دھرنے ميں اپنے والد کی تصویر ہاتھ میں لئے اُسکی رہائی کا مطالبہ کر رہی تھيں۔ يہ ننھی مُنھی پرياں اس عمر میں اپنے والد کی رہائ کے لئے کئی بار احتجاج کر چکی ہیں۔






Related News

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *