Main Menu

وحشت ، بربریت اور دولت کی بے پناہ ہوس ، رکھنے والا سلطان محمود غزنوی؛ تحرير: عارف راجپوت

Spread the love

وحشت و بربریت اور دولت کی بے پناہ ہوس رکھنے والا سلطان محمود غزنوی ، افغانستان کے شہر ، غزنہ میں پیدا ھوا .ماضی میں یہ علاقہ خراسان کہلاتا تھا۔ (971 تا 1030) اسکا باپ ترک فوجی تھا جو سبکتگین خاندان سے تھا ۔وحشی سلطان محمود کی پیدائش کے وقت افغانستان کے حالات بہت ابتر تھے ۔
اس نے ان حالات کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور اپنے علاقے پر کنٹرول حاصل کرکے ، چھوٹی سی حکومت بنا لی ۔ چند سالوں میں ہی اسکی لوٹ مار اور قتل و غارت کے قصے مشہور ہوگئے . اس نے منظم گروہ بندی کی اور قندھار اور دیگر افغانی علاقوں پر قبضہ کر لیا ۔ پھر اسکی فوجی طاقت بڑھی تو ایران کی بھی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ۔ اسکی ہمسایہ ممالک پر یلغار سال 997 سے شروع ہوئی اور اسکی موت تک جاری رھی ۔
اب اسکا نشانہ ، موجودہ پاکستان اور انڈیا تھا جو ماضی میں ” ہند ” یا ہندوستان کہلاتا تھا ۔ محمود کی وحشت اور دولت کی لالچ سے کوئی بھی نہ بچ سکا ۔ اس وقت کے ملتان پر شدید حملہ کیا گیا اور تمام تر شہریوں کے قتل عام کا آڈر جاری کر دیا ، پھر لاھور کی باری آئی اور یہاں بھی بے دریغ قتل و غارت کی اور تمام لوٹی جا سکنے والی اشیا، لوٹ لی گئیں ۔
سلطان کے حسب آڈر تمام بدھ مت کے اسٹوپا اور مندر لوٹ کر مسمار کر دئیے یہاں سے ہزاروں نوجوان لڑکیوں کو افغانی لشکر میں بانٹ دیا گیا ۔
آج ھماری تاریخ کے لکھاری جھوٹ لکھ کر چنگیز خان کے مظالم کو دونوں ہاتھوں سے کوستے ہیں حالانکہ چنگیز خان خود یا اسکی نسل کا کوئی بھی جنگجو ، ہندوستان آیا ہی نہیں ۔ مطلب وہ ہمارے اجداد کا قاتل ہی نہیں اور اسکے مظالم سے ہمیں روشناس کروایا گیا ۔ چنگیز خان اور اسکی نسل نے عربی وحشی فوج کے خلاف لشکر کشی کی جو ماضی میں آدھی دنیا کو تلوار کی بھینٹ چڑھا چکی تھی ۔
اب نوجوان نسل کو سوچنا ہوگا کہ ہمارے ھمارے آباؤ اجداد کے قاتل ، منگول تھے یا افغانی وحشی لوٹیرے ؟؟ اور سچ تو یہ ہے کہ افغانی جتنے ظالم تھے اور جتنا انہوں نے ہند و پاک کو نقصان پہنچایا اتنا بہت کم اقوام نے پہنچايا۔موضوع کی طرف آتے ہیں ورنہ بات کسی اور طرف چلی جائے گی ۔ جوں جوں سلطان محمود کو سونا چاندی ملتا گیا ، اسکی دولت کی ہوس بھی بڑھتی گئی ۔ اس دور میں تمام مذہبی عبادت گاہیں ، چندے اور چڑھاوں کی وجہ سے دولت کا منبع ھوا کرتی تھیں ۔ سلطان کی ہوس سے ملتان کی اھم مسجد بھی نہ بچ سکتی ۔ سلطان کٹر مذہبی تھا پر دولت کے لئے کسی بھی حد تک چلا جاتا تھا ۔اسکی فوج میں تمام مذاہب کے لوگ شامل تھے اور واحد مقصد قتل و غارت اور وسیع دولت کا حصول تھا ۔ اسکی لوٹی ہوئی دولت کا کمال یہ تھا کہ اسکا آبائی شہر ، دار الحکومت بن گیا جو ماضی کا سب سے امیر دار الحکومت تھا ۔
ھماری بعض کورس کی جعلی کتب میں اسے بت شکن کہا گیا ہے کہ جس نے بتوں کو پاش پاش کرنے کے لئے ہند و پاک پر سترہ حملے کئے تاریخی اعتبار سے یہ سراسر جھوٹ ہے کیونکہ اس وقت کے افغانستان میں کثرت سے ہندو اور بدھ مت کے لوگ آباد تھے ۔ کثیر تعداد میں مندر بھی تھے اور اسٹوپا بھی بامیان کے بلند و بالا مجسمے بھی تھے (مطلب بت ) مگر غربت اور ننگ حالی تھی تو نہیں لوٹے گئے ۔ ہاں افغانستان سے دو ہزار میل دور کے امیر مندر ضرور لوٹے گئے کہ سلطان کی نظر ان لاکھوں سونے کے سکوں اور سونے کے بتوں پر تھی .اھم ترین سومناتھ کا مندر بھی لوٹ لیا گیا اور عین موقع پر مذہبی لوگوں ، عورتوں اور چھوٹے بچوں کے واسطے دے کر روکا گیا کہ بہرحال یہ ایک مذہبی عبادت گاہ تھی سلطان کی وحشت سے یہاں ، 50 ہزار سے زائد عورتوں، بچوں اور مردوں کو قتل کر دیا گیا ۔

سلطان کی ساری زندگی کی کمائی ، ہندوستان کی لوٹی ہوئی دولت تھی اس نے سترہ بار ، ہند و پاک کو لوٹا اور ہمارے آباؤ اجداد کے چیتھڑے اڑا دئیے وہ کبھی کوئی جنگ نہیں ہارا کہ مقابل کوئی منظم فوج نہیں ہوتی تھی ، جو اصل جنگجو تھے ، انکی تعداد بھی بہت کم تھی ۔اپنی ذاتی زندگی میں وہ افغانی مشہور عادت ، ھم جنس پرستی کا عادی تھا.ایک غلام ، ایاز کے قصے سارے دربار میں مشہور تھے وہ فاعل بھی تھا اور مفعول بھی ۔ اس نے 1021 کو لاھور میں ہیڈ کواٹر بھی بنا لیا مگر اصل کمائی لوٹ مار سے ہی کی اور کوئی مستقل حکومت نہیں بنائی ۔ اس نے سترہ بار ہمارے ہند کو لوٹا ، لاکھوں کی تعداد میں معصوم لوگوں کو قتل کیا کہ جو کسی فوج کا حصہ بھی نہیں تھے ۔ دس ہزار سے زائد مندروں ، اسٹوپوں کو لوٹ کر آگ لگائی اور گرانے کی ضرورت اس لئے تھی کہ دولت دیواروں اور تہ خانوں میں چھپائی جاتی تھی اور یہ کوئی ، اسلامی خدمت نہیں تھی بلکہ صرف دولت کا لوٹنا ہی عین افغانی اسلامی شعار تھا۔ سچا اسلام ،قتل و غارت اور مذہبی عبادت گاہوں کو لوٹنے اور مسمار کرنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ مگر ہر عربی و افغانی لوٹیرے نے یہی شعار اپنایا ۔ لوگوں کو بتایا گیا کہ سلطان نے فقہ پر کتاب بھی لکھی ہے حالانکہ ھم جنس پرستی پر لکھتا تو اچھا ہوتا کہ یہی اسکی تاریخی وجہ شہرت بھی ہے .وہ 58 سال کی عمر میں مرا ۔یاد رکھیں کہ جب ھم لفظ ” ھماری تاریخ ” بولتے ہیں تو وہ 14 اگست 1947 سے شروع ہوتی ہے۔ خود کو پہچانیں کہ پہچان ہونا ، کوئی جرم نہیں ۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *