Main Menu

بلوچستان میں پاکستانی فوج کا ننگا ناچ اور عالمی بے حسی؛ تحرير و رپورٹ: دوستین بلوچ

Spread the love

کئ افرادشہید و لاپتہ، جنگلات نذرآتش،شاہینہ کا بہیمانہ قتل
ماہِ ستمبر میں 50فوجی آپریشنز میں 30 افرادلاپتہ،14لاشیں برآمد،208 گھرنذرآتش

بلوچستان قابض ریاستی بربریت سے جس طرح سلگ رہا ہے اسی طرح لہولہان بھی ہے۔ستمبر کے مہینے میں پاکستانی فوج نے گچک،وادی مشکے،آواران کے مختلف علاقوں،دراسکی اور ضلع کیچ کے علاقوں دشت،منداورتمپ میں 50 سے زائد فوجی آپریشنز کیے،زمینی فوج کے ساتھ ان آپریشنز میں گن شپ جنگی ہیلی کاپٹروں نے شدید شیلنگ و بمباری کی۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق30 افراد کو فورسز نے اغوا کیا جبکہ جاری آپریشنز کی وجہ سے ابھی تک مکمل تفصیلات اور فورسز ہاتھوں لاپتہ ہونے افراد کی مکمل کوائف آنا باقی ہے۔
اسی مہینے 14 نعشیں برآمد ہوئیں جس میں 10 افراد کو فورسز نے شہید کیا اور چار لاشوں کے محرکات سامنے نہیں آ سکے۔
دوران آپریشنز پاکستانی فورسز نے258 گھروں میں لوٹ مار کر کے تمام سامانوں کا صفایا کیا جبکہ208 گھروں کو نذر آتش کیا گیا۔
گچک،وادی مشکے،آواران کے مختلف علاقوں،راغے،دراسکی مند اور دشت میں قابض فوج نے بڑی تعداد میں جنگلات کو نذر آتش کیا جس میں صرف دشت میں پچاس کلومیٹر سے زائد کے جنگلات اور اسی طرح تمپ میں کئی کلومیٹر پر پھیلے جنگلات کو بھی نذر آتش کیا گیا۔
دوران آپریشن پاکستانی فوج کی گن شپ ہیلی کاپٹروں کی شیلنگ سے سینکڑوں مویشی بھی ہلاک ہوئے ہیں۔جبکہ دشت،گچک،وادی مشکے،بلیدہ،مند،تمپ میں درجن سے زائد نئی فوجی چوکیاں قائم کی گئیں۔
اسی مہینے ایک شخص بھی ضلع کیچ سے بازیاب ہوا جسے پاکستانی فورسز نے ڈیڑھ سال قبل اغوا کیا تھا۔
ان اعداد و شمار سے قابض ریاستی جنگی جرائم کا اندازہ لگانا ناممکن نہیں،اس مہینے مقبوضہ بلوچستان کے کئی علاقے پاکستان کی زمینی و فضائی فوج کی سنگینوں کا شکار رہے۔
ضلع آواران کے مختلف علاقوں وادی مشکے،گچک،کولواہ، دراسکی،ضلع کیچ کے کئی علاقوں دشت،مزن بند،تمپ میں قابض فوج نے زمینی آپریشنز کے ساتھ گن شپ ہیلی کاپٹروں کا شدت کے ساتھ استعمال کرکے درجنوں انسانی بستیوں کو صفہ ہستی سے مٹایاگیااور سینکڑوں مال مویشیاں اس بربریت میں اپنی زندگی ہار گئے۔
ایک جانب ریاستی فورسز کی بربریت جاری رہی تو دوسری طرف ایک بلوچ جرنلسٹ،ایکٹوسٹ،آرٹسٹ شاہینہ شاہین کو انکے شوہر محراب گچکی نے ضلع کیچ میں قتل کردیا۔مقامی ذرائع بتاتے ہیں کہ مذکورہ شخص جو شاہینہ شاہین کا شوہر ہے وہ ریاستی مسلح حمایت یافتہ اور مذہبی دہشت گرد گروہ کا خاص کارندہ ہے۔
جس طرح حیات بلوچ کے قتل کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی اور اب بھی پروٹسٹ کا سلسلہ جاری ہے،اسی طرح شاہینہ شاہین کے بیہمانہ قتل کے خلاف بھی احتجاجوں اور مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے مگر بدبخت بلوچ کے نصیب میں انصاف کہاں!
شاہینہ کے قاتل کے بارے میں مقای انتظامیہ نے تربت میں سراپا احتجاج لوگوں کے سامنے کھل کر کہا کہ وہ بااثر ہے ہم کچھ نہیں کرسکتے،یوں بلوچ بیٹی کے قتل پر انصاف ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔
اسی طرح حیات بلوچ کے قتل پر ملزم فوجی اہلکار کے بارے میں بھی ذرائع بتاتے ہیں کہ وہ واپس فوجی کیمپ میں شفٹ ہو گیا ہے اور ایس ایس پی کو صاف کہا گیا ہے کہ جب کوئی اچانک مسئلہ ہو تو بتا دینا اس کو تھانے لایا جائے گا۔
قابض پاکستانی فوج کی بدمعاشیوں کا سلسلہ مقبوضہ بلوچستان میں جاری ہے۔دراصل یہ صورت حال آج،پنجاب،سندھ،پشتونستان،
پاکستانی زیر قبضہ کشمیر میں بھی ہے،مگروہاں اتنی سرسراہٹ نہیں،بلوچ قوم کی طرح مادر وطن کے عشق میں شدت نہیں،اگر ہوتی تو تمام اقوام اپنی جداگانہ شناخت اور آزاد ہوتے۔
جس طرح مقبوضہ بلوچستان میں ریاستی بربریت عروج پر ہے،وہیں سرزمین کے سچے عاشق بلوچ فرزندان بھی اپنی لہو سے تاریخ رقم کر کے قابض دشمن کو جنگی محاذ میں شکست سے دوچار کر رہے ہیں۔
بلوچ انقلاب آزادی کی جہد میں ایسے درجنوں مثال ہیں کہ دشمن کے ساتھ طویل لڑائی کے بعد جب سرمچار کی گولیاں ختم ہونے کو ہوتی ہیں تو وہ آخری گولی بچا کر رکھ لیتے ہیں،تاکہ زخمی حالت میں یا کسی صورت بھی دشمن کے ہاتھ نہ لگیں۔بلوچ قومی جہد کے ان سرفروشوں کی اس فلسفہ نے دشمن کو ذہنی طور پر مفلوج کرنے کے ساتھ وار ساہیکو بنا دیا ہے۔
جمعہ کے روز 18ستمبرکوراغے کلان میں سرمچاروں اور قابض پاکستانی فوج کا آمنا سامنا ہوا، جس سے دو طرفہ جھڑپ شروع ہوئی۔ جھڑپ میں بی ایل ایف کے چار سرمچار کمانڈر مسلم ولد محمد حسین، سیکنڈ لیفٹیننٹ سکندر ولد محمد ابراہیم، منصورولد ملا عبدالقادر اور سعداللہ نے دشمن فوج سے بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کی۔ ان کی شہادت اس وقت ہوئی جب ان علاقوں میں پاکستانی فوج گزشتہ دو ہفتے سے فوجی آپریشن میں مصروف تھا۔
اس آپریشن میں جنگی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قابض فوج نے عام آبادیوں کو گن شپ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے نشانہ بنایا۔ اس دوران کئی بلوچوں کے گھروں کو نذر آتش کیا گیا ہے اور مال مویشی لوٹے گئے۔

بی ايل ايف کے چيف ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی فائل فوٹو

بی ایل ایف کے ترجمان میجر گہرام بلوچ نے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے میڈیا میں جاری بیان میں کہا کہ شہید مسلم بلوچ بی ایل ایف کے شہید کمانڈر سلیمان شیہک کے چھوٹے بھائی اور بی ایل ایف کے رہنما ڈاکٹر اللہ نذر کا بھانجا ہے۔ شہید سکندر بلوچ ڈاکٹر اللہ نذر کا بھتیجا اور شہید منصور ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کا بھانجا ہے۔ شہید شیہک اور ڈاکٹر اللہ نذر کے بھائی سفر خان بلوچ کو پاکستانی فوج نے تیس جون 2015 کو ان کے گھر پر حملہ کرکے مہمانوں اور دیگر پندرہ ساتھیوں سمیت شہید کیا۔
واضح رہے کہ ان چار بلوچ نوجوانوں نے آخری گولی کے فلسفہ کوایک دفعہ پھر دہرایا۔ بتایا جاتا ہے کہ دو سرمچار پاکستانی فوج کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوئے اور شہید مسلم جان اور انکے ساتھی نے اپنی گولیاں ختم ہونے کے بعد آخری گولی خود کے لیے بچائے رکھا اور جام شہادت نوش کی۔
مقامی انتظامیہ نے اس بات کی تصدیق کرنے کے ساتھ بتایا کہ اس جھڑپ میں فوج کے بیس اہلکار موقع پر ہلاک اور بیس سے زائد زخمی ہوئے۔
بلوچ سرمچاروں کی آخری گولے کے فلسفہ پر پھر کبھی روشنی ڈالیں گے مگر30 جون2015 کو وادی مشکے کا علاقہ میھی جو بلوچ قومی رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کا آبائی گاؤں ہے پاکستانی فوج نے حملہ کیا جس میں پندرہ بلوچ فرزند شہید ہوئے جس میں ڈاکٹر اللہ نذر کے بڑے بھائی سمیت خاندان کے دیگر افراد شامل تھے۔
مگر اس جنگ کی اہمیت بلوچ تاریخ میں ایک مقام رکھتی ہے۔قومی رہنما کے بھانجے سلیمان المعروف شہک بلوچ دن بھر فوج کے ساتھ لڑتے رہے، جب زخمی ہوئے تودیگر ساتھیوں کو نکلنے کا کہا اور ایک بندوق اور دو میگزین اپنے پاس رکھنے کے ساتھ دو گولیاں الگ سے رکھ لی،اس تاریخی لمحات کو انہوں نے ایک ساتھی سے فلمایا جہاں وہ ویڈیو میں مسکراتے ہوئے کہتا ہے کہ ہماری منزل آزادی ہے قوم،سرمچاروں اور اپنے والدہ کے لیے پیغام ریکارڈ کرایا۔اور پھر بہادری سے لڑتے ہوئے جب گولیاں ختم ہوتی ہیں تو آخری گولی کے فلسفے کو اپناتے ہوئے جام شہادت نوش کرتا ہے۔
اسی فلسفے کو18 ستمبر2020 میں انکے چھوٹے بھائی مسلم جان اور ساتھی ایک دفعہ پھر عملی جامہ پہناتے ہوئے،بلوچ قومی آزادی کی منزل کو اپنی لہو سے قریب تر بناتے ہیں۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کے پچاس سے زائد قریبی رشتہ دار بلوچ قومی جہد آزادی میں شہید ہوچکے ہیں۔ پاکستان کی پالیسی رہی ہے کہ وہ بلوچ رہنماؤں کی رشتہ داروں کو نشانہ بنا کر ان پر دباؤ ڈالتار ہے۔ اس پالیسی کے تحت پاکستانی فوج نے کئی رہنماؤں اور جہد کاروں کے رشتہ داروں کو نشانہ بناکر شہید کیا ہے یا اغوا کرکے زندانوں میں بند کر رکھا ہے۔ لیکن اس کے رد عمل میں بلوچ عوام میں پاکستان کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی نفرت، ریاستی مظالم اور وطن دوستی کی وجہ سے بلوچ قومی تحریک تقویت پاکر بیس سالوں سے بلا تسلسل جاری ہے۔
ستمبر کی28 تاریخ کو پاکستانی فوج نے ضلع کیچ کے علاقے دشت مزن بند میں طویل آپریشن شروع کیا۔اس آپریشن میں گن شپ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے ایس ایس جی کمانڈوز بھی اُتارے گئے۔مقامی ریاستی مخبر بھی انکے ساتھ تھے مگر بلوچ سرزمین کے دو ہونہار جانبازوں نے ایک بار پھر دشمن کو نیست و نابود کیا۔
کیپٹن عرفان عرف امداد ولد شہیدغلام مصطفی سکنہ کونشقلات،سیکنڈ لیفٹینٹ نور خان عرف برمش ولد نوربخش سکنہ خیر آباد نے بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔
میجر گہرام بلوچ نے میڈیا میں جاری بیان میں کہا کہ،شہید سرمچاروں نے سیدان پیر اور گندھادر کے علاقے میں دشمن سے بہادری سے لڑتے ہوئے پاکستانی فوج کے پندرہ سے زائد اہلکاروں کو ہلاک اور کئی کو زخمی کیا اور جام شہادت نوش کی۔
اسی جھڑپ میں ایک ریاستی مخبر منیر احمد ولد عبدالرشید سکنہ تمپ بھی مارا گیا۔لیکن حسب معمول پاکستانی فوج نے دونوں بلوچ فرزندوں کی لاشوں کو خاندان کے حوالے کرنے کے بجائے دو دن اپنے پاس رکھا اور شہادت کے بعد لاشوں کو مسخ کیا۔
اہل علاقہ دو دن تک تمپ میں ریاستی فوج کے کیمپ کے سامنے دہرنا دیتے رہے مگر پاکستانی فوج نے لاشیں نہ دیں اور نہ اسلامی روایات کے مطابق انکی آخری رسومات ادا کرنے دیا۔جس پر سخت رد عمل سامنے آیا۔
بلوچ آزادی پسند رہنما،دانشور،بی ایس او کے سابق چیئرمین،بی این ایم کے سابق مرکزی سیکریٹری جنرل رحیم بلوچ ایڈووکیٹ نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹیوٹر پر اپنے ٹیوٹ میں کہا ہے کہ یہاں تک کہ پاکستان بلوچوں کی لاشوں سے بھی خوفزدہ ہے۔ عوامی احتجاج کے باوجود، پاکستانی آرمی نے شہید عرفان بلوچ اور شہید نور خان کی لاشوں کو آخری رسومات کے لئے ان کے ورثا کے حوالے کرنے سے انکار کردیا اور انہیں شہید اکبر بگٹی کی طرح جنازہ کے بغیر دفن کردیا ہے۔ شہدا کی ایسی توہین ناقابل برداشت ہے۔
آزادی پسند رہنما اختر ندیم نے اپنے ٹیوٹ میں کہا کہ بلوچ مزاحمت آزادی تک جاری رہے گی۔ میدان جنگ اور دوسرے محاذوں میں بلوچ سرزمین کے فرزند اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے اسے ثابت کررہے ہیں۔ شہید عرفان اور شہید نور خان نے مزن بند دشت میں ایک اور مثال قائم کی۔ میں ان کو زبردست خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔
اسی طرح بی این ایم کے چئیرمین خلیل بلوچ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ پاکستانی ریاست کی جانب سے تمپ اور دشت میں بلوچ فرزندوں کی شہادت اور ان کی لاشوں کی بے حرمتی کو انسانیت سے عاری عمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ زندہ قومیں حالت جنگ میں زندہ قوموں کی اقدارکا احترام کرتے ہیں۔ بلوچ ستر سالوں کے دوران قابض کے خلاف کئی جنگیں لڑ چکا ہے۔ موجودہ جنگ کو دوعشرے پورے ہوچکے ہیں لیکن ابھی تک دشمن کے کسی بھی سپاہی کی لاش کی بے حرمتی کا واقعہ سامنے نہیں آیاہے کیونکہ بلوچ ایک زندہ قوم ہے اور بلوچ قوم کے مسلح بازو اپنے قومی اقدار اور عالمی قوانین کی پاسداری کرتے ہیں۔ ہم کسی سطح پر لاش کی بے حرمتی کو ناقابل معافی جرم تصور کرتے ہیں۔


ماہ ستمبر میں جہاں ریاستی جبر عروج پر تھا تو پاکستانی فوج نے ماہ کے آخری دنوں دشت کے پچاس کلومیٹر پر پھیلے جنگلات کو نذر آتش کرنے کے ساتھ مند اور تمپ میں کئی جنگلات کو جلا ڈالا۔اسی مہینے ریاستی فورسز نے ضلع آواران کے کئی علاقوں بشمول گچک،دراسکی میں بھی یہی عمل دہرایا۔
پاکستانی کی جاری جنگی جرائم کو بلوچ آزادی پسند سیاسی پارٹیاں تاحال دنیا کے سامنے موثر انداز میں ہائی لائیٹ کرنے میں ناکام ہیں جو یقینا لمحہ فکریہ ہے۔اس پر بلوچ آزادی پسند رہنماؤں اور تنظیموں میں موجود کارکنوں کو سوچ بچار کے ساتھ موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ورنہ اس جدید دور میں قابض ریاستی سنگینوں میں مزید اضافہ اسی طرح جاری رہے گا۔
اس وقت عالمی حالات پاکستان کے حق میں نہیں ہیں اور ایسے میں قابض ریاست کی جنگی جرائم پر موثر سفارت کاری اولین ضرورت ہے۔

ادارہ سنگر کی جانب سے جاری کردہ ماہ ستمبر کی تفصیلی رپورٹ

یکم ستمبر
تربت سے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں لاپتہ نوجوان گوادر سے بازیاب۔
ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت سے پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کے گرفتاری کے بعد لاپتہ ہونے والا سلمان ولد اکبر گوادر سے بازیاب ہو کر اپنے گھر پہنچ گئے۔
تربت کے دشتی بازار کے رہائشی سلمان بلوچ کو ڈیڑھ سال قبل تربت سے پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں نے لاپتہ کیا گیا۔

دو ستمبر

ضلع کیچ میں مند کے علاقے گوبرد کو پاکستانی فورسز نے گھیرے میں لے کر بڑے پیمانے کی آپریشن کی اور دو افراد کو ساتھ لے گئے۔
دوران آپریشن گھر گھر تلاشی لی جارہی ہے اور ساتھ ہی علاقے کے آمد و رفت کے راستوں پہ ناکے لگا کر عام شہریوں کو علاقے میں داخل ہونے اور باہر جانے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔
صبح سے شام تک آپریشن میں گھروں میں لوٹ مار کے ساتھ پاکستانی فوج نے دو افراد کو حراست میں لے کر آرمی کیمپ منتقل کیا ہے جنکی شناخت پیر محمد اور جابر ولد شریف کے ناموں سے ہوئی ہے،۔

تين ستمبر

وادی مشکے میں گچک کے خونی آپریشن سے قبل اس آپریشن کی تیاری حوالے مسلح دفاع کے سردار علی حیدر محمد حسنی کی پاکستانی فوج کے ساتھ تصاویر اور تفصیلات سامنے آ گئے۔
پاکستانی آرمی کے ریندگ کیمپ میں ریاستی حمایت یافتہ مسلح افراد کا اہم میٹنگ ڈیتھ اسکواڈ کے سربراہ علی حیدر محمد حسنی کی سربرائی میں ہوا،جس میں وادی مشکے،سمیت راغے و گچک گرد نواع میں جاری آپریشن اور اس میں تیزی کے ساتھ آپریشن کو مزید وسعت دینے پر بات ہوئی تھی۔
اہم ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ روز،گچک، راگے،تنک، ریندگ کے گرد نواع اور پہاڑی علاقوں میں مذکورہ ڈیتھ اسکواڈ،یعنی ریاستی حمایت یافتہ مسلح افراد نے پاکستانی فوج کے ساتھ مل کر درجنوں مویشی اپنے ساتھ لے جانے کے ساتھ تمام پانی کے چشموں میں زہر ملایا جس سے سینکڑوں مویشیاں ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس خونی آپریشن کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔
ریاستی ڈیتھ اسکواڈ،مسلح دفاع کی پاکستانی فوج کے کیمپ میں میٹنگ سردار علی حیدر محمد حسنی کے سربرائی میں ہوئی،جس میں مسلم اکبر ولد میر اکبر محمد حسنی،میر قاسم محمد حسنی ولد نور محمدکے سوا دیگر مسلح دفاع کے لوگ شامل تھے۔

چار ستمبر

گچک پاکستانی فوجی آپریشن جاری،تین افراد لاپتہ۔
ایک ماہ سے جاری گچک آپریشن شدت کے ساتھ جاری ہے، جمعہ کے روز تین افراد پاکستانی فوج نے حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیئے اور ایک نئی چوکی قائم کردی۔
بتایا جارہا ہے حراست بعد لاپتہ ہونے والوں میں دو سگے بھائی ہیں طلاعات کے مطابق پاکستانی فوج نے گچک میں کئی نئی چوکیاں بھی قائم کردی ہیں۔
تربت خاتون جرنلسٹ شاہینہ شاہین ریاستی ڈ یتھ اسکواڈ کے کارندے، شوہر کے ہاتھوں قتل۔
پولیس نے گاڑی کو قبضہ میں لے لیا، مقتول صحافی شاہینہ شاہین کو دو گولیاں لگی تھیں،۔
شاہینہ شاہین پی ٹی وی بولان پر اینکر پرسن ہونے کے ساتھ ایک معروف سماجی کارکن, آرٹسٹ اور دزگہار میگزین کے مدیر اعلیٰ تھے۔

پانچ ستمبر

کوہلو میں تیل و گیس تلاش کرنیوالی کمپنی کی گاڑی سے 2بچے کچل کر شہید ہو گئے۔
ذرائع باتے ہیں کہ دونوں بچوں کی عمریں 14 سے 15 سال کی ہیں اور وہ دونوں موٹر سائیکل سے جارہے تھے کہ تیل و گیس تلاش کرنے والی کمپنی ایک تیز رفتار گاری نے انہیں کل ڈال جس کی وجہ سے وہ موقع پر شہید ہوگئے۔

چھ ستمبر

ٹارچر سیل سے تشویشناک حالت میں بازیاب شخص شہید۔
تین دن قبل پاکستانی فوج کے عقوبت خانوں سے تشویشناک حالت میں بازیاب ہونے والا شخص دوران علاج آج کراچی میں جان کی بازی ہار گئی۔
تېن روز قبل پاکستانی فوجی ٹارچر سیل سے تشویشناک حالت میں بازیاب حمید ولد ملا انور دوران علاج آج کراچی میں شہید ہوگئے،حمید سکنہ آہوری بالگتر دوبار لاپتہ کیا جاچکا تھا لیکن دوسری بار شدید ٹارچر سے وہ زندگی کی بازی ہار گیا۔
واضح رہے مذکورہ شخص کو 25اگست کو پاکستانی فوج نے حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا۔
کوئٹہ سے سبی کے رہائشی نوجوان کو نامعلوم افراد نے جبری طور پر لاپتہ کردیا۔
مہراب جتوئی سکنہ سبی گذشتہ روز کسی کام کے سلسلے میں کوئٹہ آئے ہوئے تھے جنہیں سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد نے سریاب روڈ پر کسٹم کے مقام پر اپنے گاڑی میں زبردستی بٹھایا اور اپنے ہمراہ لے گئے۔
مہراب جتوئی کو اس سے قبل پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے 2013 میں جبری طور پر لاپتہ کیا اور انہیں چھ مہینے کے بعد رہا کردیا گیا۔
۔۔شاہینہ شاہین کے قتل کا مقدمہ اسکے شوہر کیخلاف درج کرلیا گیا
تربت میں فائرنگ سے قتل کئے جانے والے آرٹسٹ شاہینہ شاہین کے قتل کا مقدمہ اس کے شوہر کے خلاف درج کرلیا گیا ہے۔تربت پولیس نے مقتولہ کے ماموں کی مدعیت میں محراب گچکی جو مقتولہ کا مبینہ شوہر بتایا جارہا ہے کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔

سات ستمبر

گچک میں گزشتہ مہینے سے جاری فوجی آپریشن شدت کے ساتھ جاری ہے۔ پندرہ سے زائد لوگ لاپتہ کیے گئے ہیں۔
جاری آپریشن میں درجنوں لوگوں کو لاپتہ کیا گیا ہے، جن میں سے پندرہ لوگوں کی شناخت ہوئی ہے۔
ان لوگوں میں الہی بخش ولد کمال، سردو ولدصدیق،فتح محمد صدیق،محمد خان ولدشکو، سردو ولدنوک آپ، جمال ولدمزار، عبدالستار الیاس لقمان ولدمزار،حبیب ولد موسیٰ،اسداللہ ولد ابراھیم،عزیز ولدمزار،کالوولدپیرداد،وشدل ولد سردو،علی شیرولدخدابخش،خلیل ولد مزار، شہباز خان ولد خانجان، مزارولد خالقداداور نذیراحمد ولد محمدشامل ہیں۔

نو ستمبر
۔۔۔شاہینہ شاہین کے قاتلوں کی گرفتاری، خاندان کو انصاف کی فراہمی اور کیس میں شفاف تفتیش و تحقیق کے لیئے تربت میں ریلی کانکالی گئی۔
شہید فدا چوک سے تربت پریس کلب تک نکالی گئی، ریلی میں مقتولہ کے لواحقین کے علاوہ ایچ آر سی پی کے کارکنان اور مرد و خواتین کی بڑی تعداد نے شریک کی۔
مقامی انتظامیہ کے ایک شخص نے نمائندہ سنگر کو بتایا کہ شاہینہ شاہین کا قاتل شوہر پاکستانی خفیہ اداروں کا خاص کارندہ ہے۔ ایسا امکان نہیں ہے کہ اسے گرفتار کیا جا سکتا ہے۔

دس ستمبر

خاران میں مسلح افراد کی فائرنگ سے 2 سگے بھائی ہلاک ہوگئے۔
بلوچستان کے ضلع خاران میں فائرنگ کے واقعے میں دو سگے بھائی ہلاک ہوگئے۔
فائرنگ کا واقعہ کوئٹہ روڈ پر خاران گرڈ اسٹیشن کے قریب پیش آیا جہاں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے دو سگے بھائیوں کو نشانہ بنایا۔واقع کے محرکات سامنے نہیں آ سکے۔
لاپتہ افراد بازیابی کمیشن خفیہ اداروں کے اشاروں پر چل رہی ہے، لواحقین۔
کوئٹہ میں بلوچستان ہائیکورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس فضل الرحمان کی سربراہی میں قائم لاپتہ افراد بازیابی کمیشن نے مختلف کیسز کی سماعت کی۔اس دوران انسانی حقوق کے لاپتہ کارکن راشد حسین کی والدہ کمیشن کے سامنے پیش ہوئی۔
لاپتہ راشد حسین کی والدہ کے مطابق کمیشن کے سربراہ جسٹس فضل الرحمان نے لواحقین کے ساتھ سخت بدتمیزی کی۔
انکے مطابق جب ہم نے ان سے لاپتہ افراد کی حوالے سے مدد مانگی تو کمیشن کے سربراہ نے بدتمیزی سے کہا کہ جب میں یہاں سے اٹھونگا تو باہر تم لوگوں کو خیرات میں پیسے دے دونگا۔
بلوچستان کے علاقے دالبندین سے لاپتہ حفیظ اللہ ولد رحیم محمد حسنی کی مسخ شدہ لاش پل چوٹو کے مقام سے ملی ہے۔
حفیظ اللہ محمد حسنی کلی قاسم کا رہائشی تھا اور پیشے کے اعتبار سے کاشتکار تھا جنہیں 30 اگست 2016 کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔
حفیظ اللہ کے چھوٹے بھائی نعمت اللہ نے کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بھائی کو سکیورٹی فورسز کے ایک میجر نے 30 اگست 2016 کو ان کے گھر کلی قاسم خان سے لے گئے تھے۔

گيارہ ستمبر
تربت میں بلوچ خاتون آرٹسٹ و صحافی شاہینہ شاہین کے قتل کے خلاف اور قاتل کی عدم گرفتاری کے خلاف جسٹس فار شاہینہ شاہین بلوچ کمیٹی کی طرف سے بارہ ستمبر کو بروز ہفتہ صبح 10 بجے تا دوپہر دو بجے شہید فدا چوک تربت پہ علامتی بھوک ہڑتال کیا جائے گا۔
5ستمبر کو ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں خاتون بلوچ جرنلسٹ اور اینکر پرسن شاہینہ شاہین کو قتل کردیا گیا تھا۔
پولیس کے مطابق شاہینہ کو زخمی حالت میں محراب گچکی نے مقامی اسپتال منتقل کیا تھا۔ واقعے کے بعد مقتولہ کا شوہر محراب گچکی غائب ہے جسے پولیس اب تک تلاش کرنے میں ناکام ہے۔

بارہ ستمبر
بلوچستان کے ضلع نصیر آباد کے شہر ڈیرہ مراد جمالی سے پولیس نے ایک لاش برآمد کی ہے۔نوجوان خدابخش تین روز قبل گھر سے نکلا تھا اور بعد ازان مردہ حالت میں پایا گیا۔
خضدار میں کانک کہ مقام پر پراسرار فائرنگ سے ایک نوجوان زخمی ہوا ہے۔
زخمی نوجوان کی شناخت ممتاز کے نام سے ہوئی ہے، جنہیں طبی امداد دینے کے لیے خضدار منتقل کیا گیا ہے۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیرمین نصراللہ بلوچ نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ کمیشن کی 11 سالہ کارکردگی کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ حقیت سامنے آجاتی ہے کہ جن لاپتہ افراد کے کیسز میں شوائد زیادہ ہے ان کیسز قانونی کاروائی کے بجائے ان کیسز کو کمیشن سے خارج کرتا آرہا ہے اور جن کیسز میں شواہد نہیں ہے ان میں شواہد ڈھونڈ کر لاپتہ افراد کے مسئلے کو خراب اور پیچیدہ بنانے کی کوشش کرتا آرہا ہے۔
بلوچ آرٹسٹ و اینکر پرسن شاہینہ شاہین کے قتل اور قاتل کی عدم گرفتاری کیخلاف جسٹس فار شاہینہ شاہین کمیٹی کی جانب سے آج بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں شہید فدا چوک پر ایک علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ قائم کیا گیا ہے۔
بھوک ہڑتالی کیمپ میں مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے شرکت کرکے شاہینہ شاہین کی بہن معصومہ بلوچ سے اظہارِ یکجہتی کی اور اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
اس موقع پر شاہینہ شاہین کی بہن نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب تک قتل میں ملوث شخص کو گرفتار کرکے سزا نہیں دی جائے گی ہمارا احتجاج جاری رہے گا۔
ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان ریجنل آفس تربت مکران کی جانب سے ا ْس کے کوآرڈینیٹر غنی پرواز کی سربراہی میں ایک پانچ رکنی ٹیم نے 8ستمبر2020ء کو پہلے تو شاہی تمپ جاکر محترمہ شاہینہ شاہین کے قتل پر اْن کی والدہ مہرنگ ماہیکان، ماموں امجد رحیم اور دیگر قریبی خواتین و حضرات سے تعزیت کرلی اور پھر واپس آکر دفتر سے ایک پریس ریلیزبھی جاری کر لی۔

صحافی اور ايکٹويسٹ شاہينہ شاہين جسے اپنے ہی شوہر نے قتل کر ديا تھا۔

چودہ ستمبر

پاکستانی فوج کے تصدیق کے باوجو د ثناء بلوچ کو رہا نہیں کیا جارہا،لواحقین۔
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں ایم فل کے طالب علم ثناء بلوچ کو گیارہ مئی دو ہزار بیس کو پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں نے خاران سے گرفتار کرکے لاپتہ کردیا تھا۔
لاپتہ طالب علم کے لواحقین کے مطابق محلہ تھانہ روز، خاران کے رہائشی ثناء اللہ ولد محمد اسحاق کو 11 مئی 2020 کو صبح آٹھ بجے کے وقت جوڑان کے مقام پر اس وقت لاپتہ کیا گیا جب وہ اپنے گاوں بناپ کی جانب جارہا تھا۔

پندرہ ستمبر

ضلع آواران پاکستانی زمینی فوج کی مختلف علاقوں میں آپریشن کی تیاریاں،بڑی تعداد میں نقل و حرکت۔

سولہ ستمبر

بلوچستان کے ضلع آواران میں اینٹی ڈرک ایکشن کمیٹی کے زیرِ اہتمام منشیات کے خلاف ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی۔
ریلی کے شرکاء نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر منشیات کے خلاف نعرے درج تھے۔
۔۔۔ ضلع کیچ کے تحصیل دشت میں دشت سول سوسائٹی کی جانب سے منشیات کی روک تھام اور ڈرگ سینٹر بنانے کے لیے اجلاس کا انعقاد کیا گیا ہے۔اس موقع پر منشیات کی روک تھام کے حوالے سے شرکا سے رائے لے کر لائحہ عمل طے کی گئی۔
ضلع آواران،گچک، آواران کے مختلف علاقوں میں جاری آپریشن میں پھر سے شدت، بدھ کے روز دن بھر گن شپ ہیلی کاپٹروں کی شیلنگ،درجنوں گھر،جنگلات نذر آتش کیے گئے۔
گچک کے مختلف علاقوں چب، پھینکلانچ،کلی کنڈگ، میں دن بھر پاکستانی گن شپ ہیلی کاپٹروں کی شیلنگ کے ساتھ انسانی آبادیوں کے بستیوں کو نذر آتش کر نے کے ساتھ قدرتی جنگلات کو بھی پاکستانی فوج نے نذر آتش کیا ہے۔
جبکہ ضلع آواران کے علاقوں منگلی، وادی،زیارت ڈن، قندھار کے پہاڑی سلسلوں میں بھی پاکستانی زمینی فوج داخل ہو چکی ہے،مقامی ذرائع کے مطابق مذکورہ علاقوں میں پاکستانی زمینی فوج کا مارٹر گولوں کی فائرنگ کا سلسلہ دن بھر جاری ہے۔
واضح رہے کہ گچک،ضلع آواران کے مختلف علاقوں وادی مشکے،جھاؤ و دیگر علاقوں میں گزشتہ دو ماہ سے آپریشن جاری ہے جس میں کبھی شدت اور کبھی نرمی لائی جاتی ہے۔
پاکستانی فوج نے تین روز قبل دوران آپریشن تین افراد کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے،ان تینوں افراد کو واشک کے علاقے راگے تریپ سے پاکستانی فوج نے حراست میں لے لیا ہے۔
بعد ازاں دو لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد چھوڑ دیا گیا تاہم ایک تاحال لاپتہ ہے،لاپتہ شخص کا نام محمد رحیم ولد محمد نور ہے۔

سترہ ستمبر

پاکستانی فوج کا گچک،آواران کے مختلف علاقوں میں آپریشن جاری،زمینی فوج کے ساتھ چار گن شپ ہیلی کاپٹر بھی آپریشن میں شامل ہیں۔سولیر،پینک کلانچ،راغے، ٹوبہ،سُکن، میں پاکستانی زمینی فوج کا شدید آپریشن،۔مشکے سے مذکورہ علاقوں کی جانب پچاس فوجی گاڑیوں کا قافلہ بھی جاتے دیکھا گیا ہے۔
پینک کلانچ کا پورا علاقہ فوجی محاصرے میں ہے، فوج کی چالیس گاڑیوں کے قافلے نے علاقے کو سیل کر کے آپریشن میں تیزی لایا ہوا ہے۔
جبکہ ٹوبہ کے علاقے کو بھی پچاس فوجی گاڑیوں کے قافلے نے سیل کر دیا ہے۔
تنک،سولیر،راغے میں بھی فوج کی سو سے زائد گاڑیوں کے قافلے نے مذکورہ علاقوں کو سیل کرنے کے ساتھ آپریشن شدت کے ساتھ جاری ہے۔
مذکورہ علاقوں میں چار گن شپ ہیلی کاپٹر بھی مسلسل پہاڑی علاقوں پر شیلنگ کر رہے ہیں،جبکہ ان علاقوں میں قدرتی جنگلات اور لوگوں کے گھروں کے جلانے کی بھی اطلاعات کے ساتھ دو درجن سے زائد افراد کو پاکستانی فوج نے حراست میں لیا ہے،۔
۔۔۔سرگرم سماجی کارکن، آرٹسٹ اور دزگھار میگزین کے ایڈیٹر شاہینہ شاہین بلوچ کے قتل، قاتلوں کی دو ہفتہ گزرنے کے باوجود عدم گرفتاری اور پولیس کی طرف سے اب تک کوئی پیش رفت نہ ہونے کے خلاف جسٹس فار شاہینہ شاہین کمیٹی کے زیر اہتمام تربت سول سوسائٹی اور ایچ آر سی پی کے تعاؤن سے ایک بڑی احتجاجی ریلی نکالی گئی۔جس کی حمایت آل پارٹیز کیچ، تحریک انصاف، کے سی ایس سمیت سیاسی و مذہبی جماعتوں نے کررکھی تھی۔
ریلی میں ہزاروں مرد و خواتین اور بچے شامل تھے جنہوں نے پلے کارڈ اور احتجاجی نعروں پر مبنی بینرز اٹھائے قاتلوں کی گرفتاری اور انصاف رسائی کے لیے شدید نعرہ بازی کی۔ ریلی کا آغاز پبلک لائبریری لاء کالج سے کیا گیا جو کالج روڈ سے ہوتا ہوا تھرمامیٹر چوک اور یہاں سے شہید فدا چوک پہنچا۔

اٹھارہ ستمبر

ضلع آواران کے کئی علاقوں میں پچھلے دو دنوں سے پاکستانی فوج کی زمینی و فضائی آپریشن جاری ہے۔مشکے سولیر، گچک جوان تاک اور گنی ہوٹل میں سینکڑوں گھروں کو فوج نے نذر آتش کردیا ہے۔
کہ آواران گنی کور ہوٹل میں لال بخش نامی شخص کے گھروں کو فوج نے دوران آپریشن دوران جلادیا گیاجبکہ مشکے سولیر میں ملا عیسیٰ محلہ اورچٹوک میں میر ساہو کے گھروں کو جنگی ہیلی کاپٹروں نے شیلنگ کرنے کے بعد آگ لگائی ہے۔
واضع رہے کہ 2012 میر ساہو کے خاندان کے 7 افراد کوپاکستانی فوج کی جنگی ہیلی کاپٹروں گھروں پر شیلنگ کرکے شہیدکردیاتھاجن میں خواتین و بچے بھی شامل تھے۔
مقامی ذرائع کے مطابق جاری فوجی آپریشن میں گچک پینکلانچ میں بیام اور شیر محمد نامی دو محلوں کومکمل طور پر نذر آتش کیا ہے۔جس سے علاقہ مکین بے یارو مددگار کھلے آسمان تلے رہ رہے ہیں اور کئی افراد نقل مکانی کر چکے ہیں۔
کمانڈر مسلم ولد محمد حسین، سیکنڈ لیفٹیننٹ سکندر ولد محمد ابراہیم، منصور ولد ملا عبدالقادر اور سعداللہ فورسز کے ساتھ جھڑپ میں شہید ہوئے۔


بيس ستمبر

مند پاکستانی فورسز اور مقامی ڈیتھ اسکواڈ نے شہید چیئرمین غلام محمد کے خالہ زاد بھائی کے باغات کو نذر آتش کر دیا۔7ستمبر 2020 کوپاکستانی فورسز اور ریاستی مسلح افراد کے اہلکاروں نے اپنے چندسرنڈر شدہ قومی غداروں کی ساتھ مل کر تحصیل مند کے علاقے شاہبیگ قلات گوبرد میں شہید غلام محمد بلوچ کے خالہ زاد بھائی حاجی گل محمد بلوچ کے باغیچاہ اور درختوں نغلستان کو جلا کر راگ کردیا ہے۔
فورسز نے کام کرنے والوں کی رہائش گاہ کے کمروں کوبھی جلایا، واضح رہے کہ ریاستی فورسز آزادی پسندوں کے رشتہ داروں کو ہمیشہ نشانہ بناتی رہی ہے۔
ضلع کیچ پاکستانی فوج نے دشت میں جنگلات کو آگ لگادی،کئی آبادیاں متاثر ہوئے۔
پاکستان فوج نے مقامی ریاستی حمایت یافتہ مسلح افراد کے ساتھ مل کر دشت کے جنگلات کوآگ لگا دی ہے۔
کم سے کم چالیس سے پچاس کلومیٹر آگ کی لپیٹ میں ہے.۔دشت ندی میں گھنے جنگلات کو لگنے والے آگ نے لنگاسی، اپسی گَز، حصادی، ڈمب دَپ، بندگاہ، زریں بگ اور جاں محمد بازار تک اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔

اکيس ستمبر

پاکستانی فوج نے گچک سے تین افراد کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے۔
حراست بعد لاپتہ ہونے والوں کی شناخت ایوب، نصیر اور بورو کے ناموں سے ہوئی ہے۔
واضح رہے گچک اور گردنواح میں پچھلے ایک ماہ سے پاکستانی فوج کا آپریشن جاری ہے جس میں اب تک درجنوں افراد لاپتہ کئے جاچکے ہیں۔
آواران، گچک، مشکے اور گردنواح کے مختلف علاقوں میں فوجی آپریشن کاشدت کے ساتھ جاری ہے جبکہ اس دوران ایک شخص کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا گیا ہے۔
آواران کے علاقے پیراندر، جکرو، اللہ بخش بینٹ، درمان بینٹ،ھمل بازار، وادی تولگی، غلامو، کندھار اور بکشی بازار اور گرد و نواح میں صبح پاکستانی فورسز نے مذکورہ علاقوں کو محاصرے میں لے کر آپریشن کیا۔
فورسز نے دوران آپریشن مختلف علاقوں میں گھروں کے لوٹ مار کے بعد ان کو نذر آتش کردیا ہے۔

بائيس ستمبر

گچک ،دراسکی و گرد نواع کے پہاڑی علاقوں میں پاکستانی زمینی فوجی کی آپریشن جاری رہی۔

چوبيس ستمبر
۔۔۔ضلع آواران سے منسلک دراسکی کے علاقوں گو دری،آجوئی و گرد نواع میں پاکستانی زمینی فوج کی آپریشن کا سلسلہ جمعرات کی شام سے جاری رہا۔
پاکستانی زمینی فوج کے ساتھ اونٹوں،گدھوں کے ساتھ موٹر سائیکلوں کی بھی بڑی تعداد اس آپریشن میں شامل ہے،جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ گچک،وادی مشکے میں جاری آپریشن کا یہ تسلسل ہے اور اس میں شدت کا اندازہ پاکستانی زمینی فوج کی تعداد اور انکے سہولیات سے لگایا جا سکتا ہے۔

چھبيس ستمبر

ضلع کیچ کے علاقے دشت مزن بند اور تمپ میں فوجی آپریشن کیے گۓ،

ستائيس ستمبر

تسپ میں خدابخش کے گھر پر ریاستی ڈیتھ سکواڈ کے کارندوں نے حملہ کرکے اہلخانہ کویرغمال بنایا اورخواتین و بچوں پر تشدد کی اور گھر میں لوٹ مار کی۔

اٹھائيس ستمبر

پاکستانی فوج کے ساتھ دشت مزنبند کے پہاڑی سلسلے میں سے لڑتے ہوئے کیپٹن عرفان عرف امداد، سیکنڈ لیفٹینٹ نور خان عرف برمش شہید ہوئے۔

اُنتيس ستمبر

پاکستانی فورسز نے پنجگور سے کراچی جاتے ہوئے وشبود کے علاقے کسٹم کے مقام پر دوران سفر الیاس ولد ملا فیض محمد سکنہ گچک کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا۔
مذکورہ شخص کو تین سال قبل کراچی کے علاقے ملیر حراست میں لیکر لاپتہ گیا تھا، بعدازاں ایک سال کے بعد رہا کردیا گیا اور اب دفعہ پھر انہیں لاپتہ کردیا گیا ہے۔
بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں بروز پیر مختلف سیاسی جماعتوں نے پاکستانی سیکورٹی فورسز کے رویہ کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرہ کیا۔
بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر سے آمدہ اطلاعات کے مطابق سیکورٹی اداروں کی مختلف چیک پوسٹوں پر بلوچ خواتین، بچوں بڑوں اور طالب علموں سے تذلیل کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔

تيس ستمبر

بلیدہ کے علاقے میناز سے چھاپے کے دوران عبید ولد امین کو حراست میں لیا گیا، عبید پنجگور کے علاقے پروم غریب آباد کا رہائشی ہے۔
۔۔۔چمن میں عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایم پی اے اصغر اچکزئی کے چچا زاد بھائی اسد خان کیاغواء پر احتجاج کرتے ہوئے آل پارٹیز کی جانب سے کوئٹہ چمن بین الاقوامی شاہراہ کو کوڑک کے مقام پر بلاک کر دیا گیا۔
پاکستانی فوج کا شہدائے مرن بند کے نعشوں کی بے حرمتی،لواحقین کو لاشیں دینے سے انکار۔
تمپ میں پاکستانی فوج نے شہیدوں کی آخری رسومات ادا کرنے تاحال نہیں دیا،لاشوں کو مسخ کرنے کے ساتھ ایک ٹریکٹر کے ذریع کھڈہ کود کر بلوچ فرزندوں کو ایک ہی جگہ اس کھڈے میں ڈال دیا ہے۔
لواحقین اور اہل علاقہ کے لوگ اسی جگہ پر جمع ہیں اور تاحال پاکستانی فوج نے لاشیں دینے سے انکار کردیا ہے۔
بلیدہ کے علاقے بناپ میں پاکستانی فوج نے آبادی پر دھاوا بول کر تین افراد کو گرفتاری کے بعد لاپتہ کردیا ہے۔
ضلع کیچ کے تحصیل بلیدہ سے آمدہ اطلاعات کے مطابق 29 ستمبر کی رات تین بجے پاکستانی فوج نے بلیدہ کے گاؤں بناپ کو گھیرے میں لے کر گھروں میں لوٹ مار کے ساتھ خواتین و بچوں کو زد کوب کیا اور دو بھائیوں سمیت تین افراد کو اپنے ساتھ لے گئے۔
لاپتہ کیے جانے والے افراد کی شناخت نثار ولد اسلم، مسلم ولد اسلم اور رحیم ولد مجید کے ناموں سے ہوئی ہے۔تینوں افراد کا تعلق بلیدہ کے گاؤں بناپ سے ہے۔

دوستین بلوچ ادارہ سنگر کے چیف ایڈیٹر ہيں۔

بشکريہ ادارہ  سنگر






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *