Main Menu

گلگت بلتستان پر قبضہ گیریت کی پالیسی ناقابل قبول ہے؛ تحرير : کامريڈ محمد الياس

Spread the love

پاکستانی سرکار کہتی ہے کہ گلگت بلتستان کے پاکستان کا صوبہ بننے کی صورت میں گلگت بلتستان کے لوگوں کو حقوق ملیں گے۔سوچھنے کی بات ہے آج تک گلگت بلتستان کو یا پاکستانی زیر قبضہ کشمیر کو کون سے حقوق ملے ہیں،۔

تاریخ کے اوراق کو دیکھیں توبنگال اسلام اور کلمے کے نام پہ پاکستان کے وجود کے حصے کی حیثیت سے برصغیر سے علیحدہ ہوا،
بنگالیوں کو حقوق مانگنے کی پاداش میں کہا گیا یہ کالے کلوٹے مچھلی اور بھات کھانے والے دوٹکے کے بنگالی ہمیں آنکھیں دکھاتے ہیں ہم ان کی نسلیں بدل کے رکھ دیں گے۔

جب بات حق کی ا ٓتی ہے،اسلام کے ٹھیکدار اور وردی والے الزام لگاتے ہیں کہ یہ انڈیا کے ایجنٹ ہیں یہ اسلام کے دشمن ہیں، تاریخ گواہ ہے اسی فوج نے لاکھوں بنگالیوں کی عصمت دری کی،آج وہی سلسلہ مقبوضہ بلوچستان اور پاکستانی زیر قبضہ کشمیر میں ہے۔لیکن انقلاب انکی نوآبادیاتی حربوں سے کبھی زیر نہیں کیے جا سکتے۔

نسلیں بدلنے کی باتیں کرنے والے، نسلیں تو خیر کیا بدلتے،بنگالیوں نے ان کی شکلیں ہی بدل کہ رکھ دیں۔

جن مکار بہاریوں نے پاکستان کے ساتھ بنگالی بغاوت و انقلاب کو کچلنے میں البدر اور الشمس کے پلیٹ فارم سے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے فرنٹ لائنر کا کردار ادا کیا تھا وہ آج بھی بنگلہ دیش کے کیمپوں میں ہیں وہ اب نہ پاکستانی کہلاتے ہیں نہ بنگالی کہلاتے ہیں اور نہ ہی انڈین کہلاتے ہیں ان کی اب کوئی شناخت نہیں ہے، ہاں البتہ پاکستانی ظالم درندہ صف فوج نے ان بہاریوں کی نسلیں ضرور بدل دیں اور انکو تباہی کے دہانے پر کھڑا کردیا۔

آج پاکستانی زیر قبضہ کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کو سوچھنا اور تاریخ سے سبق لینا چائیے۔

بنگالی تو حقوق نہ ملنے کے نتیجے میں اپنا الگ ملک بنگلہ دیش بنا کہ چلتے بنے پوچھنا یہ تھا کہ بنگلہ دیش میں پناہ گزین کیمپوں میں پڑے ان بہاریوں کے حقوق کا کیا بنے گا جو آج بھی خود کو پاکستانی کہتے ہیں؟؟ پاکستان ان بہاریوں کو کب حقوق دے گا؟

مقبوضہ بلوچستان بھی تو پاکستان کا صوبہ کہلاتا ہے پاکستان بننے سے لیکر آج دن تک بلوچ اپنے حقوق کی جنگ لڑرہے ہیں لیکن انہیں حقوق دینے کے بجائے انہیں لاپتہ کیا جاتا ہے ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی جاتی ہیں ان کے گھر بار جلائے جاتے ہیں حقوق مانگنے کی پاداش میں ان پہ ایجنٹ وغداری کے ٹھپے لگائے جاتے ہیں ان کی سرزمین سے نکلنے والے وسائل پہ ان کا حق نہیں ہے بلوچستان غربت بیروزگاری قحط سالی کے معاملے میں سونے چاندی گیس تانبے جپسم کرومائیٹ اور کوئلے وغیرہ جیسی قیمتی معدنیات سے مالا مال ہونے کے باوجود برونڈی اور کانگو سے بھی پرلے درجے پہ کھڑا ہے۔

72سالوں سے بلوچوں کو حقوق مانگنے کی پاداش میں مارا جارہا ہے ان کی نسل کشی کی جارہی ہے اگر صوبہ بننے سے حقوق ملتے ہیں تو یہ حقوق بلوچوں کو آج تک کیوں نہیں ملے ? اسی لیے مظلوم کشمیری و گلگت کے لوگوں کو اب سمجھنا چائیے کہ چند افراد جو اپنی ذاتی مفادات کے لیے قوم کا سودا کر کے پاکستانی پارلیمنٹ کے مزے لینا چاہتے ہیں دراصل وہ قومی غدار ہیں۔

عالمی قوانین کہتے ہیں کہ ہر قوم کو اسکی شناخت و پہچان کو برقرار رکھنے کا حق حاصل ہے تو ہم پاکستان کے غلام کیو ں بنیں۔

خیبرپشتون خواہ کی بھی یہی حالت ہے بابڑہ کے قتل عام کے واقعے سے لیکر آج تک، باچا خان سے لیکر منظور پشتون تک حقوق مانگنے کی پاداش میں پشتونوں کو گالیوں اور گولیوں کا نشانہ بنانے کیساتھ ساتھ نمک حرام غدار افغانی و امریکی اور ہندی ایجنٹ قرار دیا جاچکا ہے۔

سات دہائیوں سے پشتون اپنے حقوق کا مطالبہ کررہے ہیں کیا انہیں حقوق ملے؟ کیا خیبرپشتون خواہ پاکستان کا صوبہ نہیں ہے؟

یہی حال کراچی میں پھیلے ان پاکستانیوں کا ہے جنہوں نے بٹوارے کے وقت اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے پاکستان کی راہ لی یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان کے قیام کے دوران سب سے زیادہ قربانیاں دیں وہ آج بھی پاکستانی کے بجائے مہاجر کہلاتے ہیں کھبی انہیں جناح پور جیسے ڈرامے بناکہ رگڑا لگایا گیا تو کھبی انہیں انڈین ایجنٹ قرار دے کہ ان کی لاشیں گرائی گئیں۔

سندھیوں کی بھی یہی حالت ہے وہاں احساس محرومی دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے تھر کی حالت ایتھوپیا سے بدتر ہے، وہاں لوگوں کو آج اتنی دہائیوں بعد بھی پینے کو صاف پانی کھانے کو مناسب خوراک علاج معالجے کی سہولیات روزگار وغیرہ تک میسر نہیں، اندرون سندھ میں اس سے بدتر حالات ہیں،سندھ میں سندھ دھرتی کے حقوق کی بات کرنے والوں کو لاپتہ کیا جاتا ہے انہیں قتل کیا جاتا ہے،پوچھنا یہ تھا کہ سندھ تو پاکستان کا صوبہ ہے؟سندھیوں کے حقوق کدھر ہیں؟ آج دن تک پاکستان سندھیوں کوان کے حقوق کیوں نہیں دے سکا؟

پاکستانی سرکار کی یہ سب باتیں جھوٹ کا پلندرہ ہیں، اقوام کو مستقل غلام بنا کر اسی مظلوم عوام میں سے چند ایک کو اپنا زرخرید بنانا ہے تاکہ قبضہ قایم کیا جا سکے۔

کہنے میں تو کشمیر بھی آزاد ہے،مگر کونسی آزادی صرف پاکستان کی ایک کالونی ہے جسکے فیصلے جی ایچ کیو میں ہوتے ہیں

اگر حقوق کی بات ہوتی تو گلگت بلتستان کے عوام کے بنیادی جائز حقوق کی بات کرنے والے افتخار کربلائی اور باباجان کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے کیوں ڈالا جاتا؟ کس کے ایمائپہ کیوں اور کس بنیاد پہ انہیں پابندسلاسل کیا گیا ہے؟

اگر پاکستان گلگت بلتستان کو حقوق دینا چاہتا ہے تو سب سے پہلے گلگت بلتستان کے عوامی حقوق کی بات کرنے والے بابا جان اور افتخار کربلائی کو رہا کرے۔اس کے بعد عوامی ریفرنڈم کرائے گلگت بلتستان کا وجود پاکستانی وجود سے بہت پرانا ہے،اور انکی آزادی انکا عالمی اور آفاقی حق ہے، حقوق کی آڑ لے کہ قبضہ گیریت کی پالیسی ناقابل قبول ہے۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *