Main Menu

مجاہدوں ، غازيوں اور ريٹائرڈ فوجيوں کے رحم و کرم پر سسکتا معاشرہ ؛ تحرير: آر اے خاکسار

Spread the love

اس مضمون کا مقصد کسی فرد يا گروہ کی دل آزاری نہيں بلکہ دہائيوں سے اس سسکتے ہوۓ معاشرے کی عملًا ديکھی جانے والی مفلوک الحالی کو سامنے رکھ کر تجزيہ کرنا ہے۔ کوئ آزاد ہے يا غلام اس بحث کو بھی يہ کہہ کر الگ رکھتے ہيں کہ “سب کہتے ہيں آزاد ہيں تو آزاد ہی ہونگے”

آزادکشمير جسے تحريکِ آزادی کشمير کا بيس کيمپ کہا جاتا ہے (اسکا مقصد رياست کے باقی حصوں کو آزاد کروانا تھا ) کی حالتِ زار کا اندازہ کيجيے کہ اس خطے ميں بسنے والی مخلوق تاحال بنيادی انسانی ضرورتوں سے بھی محروم ہے۔ تحريکِ آزادی کشمير کے قائد، سُرخيل اور پُشتی بان اب کدھر گۓ يہ بھی آج ہمارا موضوعِ بحث نہيں۔

اب تو يہ بات بالکل صاف واضع ہے کہ آزادکشمير کو تحريکِ آزادی کا بيس کيمپ بنا کر يہاں جو سیاسی نظام تعمير کيا گيا وہ پاکستان کی عسکری و پراکسی ضرورتوں کے مقاصد کی تکميل کی غرض سے تھا نہ کہ يہاں کسی مثالی سماج کی تعمير۔ اس ضمن ميں جہاں اور بہت ساری وجوہات ہيں وہيں ايک وجہ مجاہدوں ، کمانڈروں اور ريٹائرڈ فوجیوں کو اس سياسی نظام ميں “تعينات” کرنا تھا۔ اس تعيناتی کی قطعی اپنی ضروریات اور لوازمات ہيں مگر آج ہم اگر اس سياسی نظام کا مطالعہ عوامی حقوق اور سماجی ترقی کے تقابلے ميں کرتے ہيں تو اس نظام کی معذورياں اور قہرہم سے چھپ نہيں سکتے۔
فوجيوں ، کمانڈروں اور مجاہدوں کا ظاہر ہے سياست سے دُور دُور تک کوئ تعلق نہيں ہوتا اور انکی ٹريننگ کا ايک بنيادی حصہ اپنے سينئر کی اطاعت يعنی “يس سر” ہوتا ہے۔ سوالات کی نہ کبھی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور نہ ہی اُسکی اجازت۔ فوجيوں، مجاہدوں اور کمانڈروں کا ظاہر ہے کام ہی جنگ لڑنا ہوتا ہے اور انکی زندگی اسی تياری ميں گزرتی ہے۔ اب جب اس بيس کيمپ ميں پاکستان کے مالکوں کو يہ ضرورت محسوس ہوئ کہ يہ تحريک آزادی کا کاروبار تو دو چار دن کی بات نہيں بلکہ لمبا چلنے والا معاملہ ہے چونکہ يہاں سے ہی ہندوستانی مقبوضہ علاقوں ميں چلنے والی تحريک کو مدد فراہم کرنی ہے لہذا ضروری يہ ہے کہ يہاں ايک ايسا سياسی نظام قائم کيا جاۓ جو کہ ديکھنے ميں سياسی اور عمل ميں فوجی ہو۔
يہی وہ بنيادی ضرورت تھی جو فوجيوں، مجاہدوں اور کمانڈروں کو سياست کے ميدانِ کارزاز ميں لے آئ اور ايسے تمام کرداروں کی تعيناتی کی شروعات کر دی گئيں۔ ان تعينات شُدہ فوجيوں، مجاہدوں اور غازيوں نے ظاہر ہے ہندوستان کے ساتھ تو جنگ نہيں لڑنی تھی اُنکا کام محض اپنے آقاؤں کی بات پر يس سر تھا اور عملًا انکی لڑائ اپنے ہی عوام کے خلاف تھی جسکے لئے انہيں تعينات کيا گيا تھا۔ سياسی سوجھ بوجھ تو ايک سياسی کارکن کو ہوتی ہے فوجی مجاہد يا کمانڈر کو ظاہر ہے نہيں چونکہ دونوں نقطہ ہاۓ نظر بالکل مختلف لوازمات و ضروريات رکھتے ہيں۔
اپنے عوام کے ساتھ لڑائ ميں عوام کو اس کسم پُرسی کی زندگی پر مطمئن کرنا، جہالت و پسماندگی سے محبت کرنا، سوالات اٹھانے و سوچنے کو کُفر گرداننا، سماجی ترقی، سياست و ديگر کو اپنے سوچ کے دائرے سے باہر خيال کرنا، اپنے حقوق کی مانگ کی بجاۓ اپنے حقوق کی خود مخالفت پر آمادگی جيسے عوامل دراصل اس تعيناتی کا مقصد تھے۔
تعينات شُدہ مجاہدوں غازيوں اور فوجيوں نے عوام کے خلاف باقاعدہ اور بے باکی سے جنگ لڑی اور نتيجتاً يہاں بسنے والے لوگ آج 2020 ميں ايک “انسان نما” مخلوق کے طور پر اس خطے ميں موجود ہيں۔

مذکورہ فوجی مجاہد اور کمانڈروں کی بھرپور جنگ سے ايسے ايسے کرشمے سامنے آۓ کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ مظفرآباد کو چھوڑ کر يہ سارا علاقہ جموں کا ہے اور يہاں رہنے والے ڈوگرے يا جموال کہلاتے ہيں مگر اسے “کشمير” بتايا گيا اور یہاں رہنے والوں کو کشميری۔ نہ زبان کشميری، نہ کلچر و ثقافت کشميری، نہ ہی تاريخ کشميری، نہ ہی کھانے و لباس کشميری مگر اس سب کے باوجود آج کوئ ماننے پہ تيار ہے ہی نہيں کہ وہ کشميری نہيں ہے۔
پھر يہاں “سب اچھا” دکھا کر يہ باور کروايا گيا کہ بس ہندوستانی مقبوضہ علاقے ہی کسمپُرسی اور غلامی کا شکار ہيں انہيں آزاد کروانا ہے اور يہی جہادِ افضل ہے۔ جب سماجی ترقی کا تقابلہ کيا گيا تو گلگت بلتستان کے ساتھ آج تک آزادکشمير کا کوئ رابطہ نہيں کوئ سڑک نہيں، يہاں اس پورے خطے ميں کوئ ريلوے لائن نہيں حتی کہ کوئ انٹرنيشنل ائيرپورٹ بھی نہيں مگر يہاں کے نوجوان کو ايسا فرضی جہاد دکھايا گيا کہ وہ اپنے سماج کی بہتری کی بجاۓ ہزاروں ميل دُور کسی جگہ کے بارے ميں سينہ کُوبی کرتے ہوۓ نظر آتا رہا۔

تاريخ پر پابندی لگا دی گئ تو بھی کسی طور کی کوئ مزاحمت يا آواز سُنائ نہ دی۔ ڈيموں پہ ڈيم بنتے گۓ مگر رائلٹی تو دُور کی بات بجلی بھی پُوری اور سستی نہيں ملتی مگر کوئ چُوں و چراں نہيں۔

بنيادی انسانی ضرورتوں کو بالکل خاطر ميں ہی نہيں لايا گيا اور نفسياتی طور پر اس خطے کے لوگوں کو ان مجاہدوں فوجيوں اور کمانڈروں کے زريعے حالتِ جنگ ميں رکھا گيا جسکے لئے صرف روٹی ضروری خيال کروائ گئ باقی سب معاملات ايسی خوبصورتی سے اللہ کے حوالے کرواۓ گۓ کہ کوئ رياست کی ذمہ داريوں پر کوئ سوال بھی نہ اٹھا سکا۔
اس ساری روداد ميں کہيں کہيں فوجيوں مجاہدوں اور غازيوں کے ساتھ سياسی کارکن بھی جُڑے مگر کسی طور کی سياسی و سماجی اصلاحات کی بجاۓ اُنہيں بھی محض يس سر کہنے يا اس عمل سے ہی علحيدگی کی آزادی رہی۔
آج 2020 ميں جب کسی طور عوامی شعور کی سطح بلند ہوئ ۔ مجاہد، فوجی ، غازی اور تحريکِ آزادی کی پُشتی بانوں کی حقيقتيں کسی طور عوام پہ منقشف ہوئيں تو کہيں ہميں بجلی و پانی نہ ملنے کے خلاف اور کہيں ہسپتال و سڑک نہ ہونے کے خلاف ہلکی پُھلکی آوازيں سُنائ ديتی ہيں مطلب اس خطے کی انسان نما مخلوق کو کسی طور اپنے مکمل انسان ہونے کا ادراک ہونا شروع ہوا۔ يعنی آج 2020 ميں ہم بنيادی انسانی ضروريات کے حصول کے لئے کہيں جدوجہد کر رہے ہيں اور کہيں ابھی بھی خاموش ہيں ايک انسانی سماج تو بہت دُور کی بات ہے مگر گزشتہ تہتر سالوں سے آخر کس وجہ سے اور کس بنیاد پر ہم سينہ کُوبی کر کر کے رياست کے باقی حصوں کے لوگوں کو اپنے ساتھ ملنے کی دئائياں ديتے رہے ؟؟

آج جب تحريکِ آزادی کشمير مکمل طور پر بِک گئ ہے يہاں تحريکِ آزادی کے پُشتی بان اب حصولِ اقتدار کے جہاد ميں مصروف ہيں۔ بندوق بردار جماعتيں کالعدم قرار دے کر جہاد کو رياستِ پاکستان “فساد” کہہ چُکی ہے اور وہاں ہندوستانی مقبوضہ حصے کے تحريکِ آزادی کشمير کے کاروباری ہندوستانی حکومت سے مفاہمت کر کے اب اس سياست نما کاروبار سے علحيدگی کا اعلان کر چُکے ہيں تو ميں پوچھتا ہوں کہ وہ لاکھوں لوگوں کی قربانیاں کیا ہوئيں؟ اس جہاد کو مقدس ثابت کرنے کے لئے پڑھی جانيوالی لمبی لمبی آیتيں کيا ہوئيں؟ وہ ميری ماؤں بہنوں کی عزت و ناموس کيا ہوئ؟ وہ رياست کی وحدت کا کيا بنا؟ وہ تحريک کے پُشتی بان کيا ہوۓ؟ وہ کمانڈر اور مجاہد کيا ہوۓ؟ وہ اسلامی نظام اور ملتِ اسلاميہ کيا ہوئ؟ وہ بنيادی انسانی حقوق و انسانی سماج کيا ہوا؟ وہ آزادی کيا ہوئ ؟؟

جن کے پاس اپنے علاج کو ہسپتال نہيں، بہتر تعليمی ادارے نہيں، انصاف نہيں، کرپشن سے پاک نظام نہيں، پينے کو صاف پانی اور چلنے کو سڑک نہيں، کوئ ريلوے لائن و ہوائ جہاز کا تصور نہيں، کوئ فيکٹری نہيں کوئ انڈسٹری و پرائيويٹ سيکٹر نہيں، کسی طرح کا کوئ معاشی نظام موجود نہيں مگر اپنے ان سارے مسائل سے عاری کسی خيالی جنت ميں ليٹے ہوۓ باقی لوگوں کو اس پسماندگی و معذوری کو قبول کرنے کی دعوت شايد ہی کوئ دماغی طور پر صحت مند انسان دے سکتا ہو۔

باتيں اور بھی بہت ہيں مگر جانتا ہوں ميری قوم پڑھنے سے دلچسپی نہيں رکھتی اسليے مختصرا يہ کہنا چاہتا ہوں کہ فوجيوں مجاہدوں اور کمانڈروں کی سياسی نظام ميں تعيناتی سے صرف ايک انسان نما سماج ہی تخليق کيا جا سکتا ہے اور يہی کيا گيا۔ اس سماج ميں آج بھی اکثريت اپنے سياسی ،سماجی و انسانی حقوق سے غافل بلکہ اپنی آزادی کے بھی خلاف ہے جہاں آج بھی اپنے سماج سے بالکل الگ گفتگو اور مباحثے کئے جاتے ہيں اور سوچنا اور سوال کرنا کسی طور بھی درست عمل نہيں سمجھا جاتا بلکہ کُفر گردانا جاتا ہے۔ اپنے سارے انسانی ،سياسی و سماجی حقوق سے مبراء مگر رياست کے دوسرے حصوں کے لوگوں کو اس بیچارگی و پسماندگی کی زندگی کا حصہ بننے کی دعوت کو سينہ کُوبی کرتے ہوۓ لوگوں کو ديکھ کر پاکستان کی طرف سے اس نام نہاد سياسی نظام ميں ريٹائرڈ فوجيوں، مجاہدوں ، غازيوں اور کمانڈروں کی تعيناتی کی وجوہات سمجھ آتيں ہيں مگر افسوس اب بھی شايد حقائق سمجھ کر انسانی سماج کے قيام ميں بہت وقت درکار ہے۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *